آج کے دن پانچ جون کو ہر برس کی طرح تمام دنیا ماحولیات کا عالمی دن کے طور پر منا رہی ہے۔ سائنسی اور صنعتی ترقی نے ہمارے ماحول پر جو تباہ کن اثرات ڈالے ہیں، ہر ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو ہے کہ کیا یہ سب واقعی ترقی تھی؟ درختوں کی کٹائی، صنعتوں سے دھوئیں اور فضلے کے اخراج، گاڑیوں کے دھوئیں اور ہماری سہولیات کے لئے بنائی گئی بے شمار چیزوں سے ہونے والے کیمیکلز کا اخراج ہمارے ماحول کو انسان دشمن بناتے جا رہا ہے اور وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں جب یہ دنیا حیاتیات کے لیے ناقابل رہائش بن جائے گی ۔ اسی لیے اس دن کا مقصد تمام دنیا کو یہ یا د دہانی اور باور کروانا ہے کہ ہم کسی چھونپڑے میں رہتے ہوں یا محل میں یہ سب ہمارے ماحول کا حصہ ہے اور ہم دراصل اپنے ماحول میں رہتے ہیں ۔ اس لیے ہماری مجبوری ہے کہ ہمارے ماحول کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہو۔ اس حوالے سے اس دنیا کے تمام باسیوں کو ماحولیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہی اور شعور دینا ایسے دن منانے کا مقصد ہوتا ہے۔ اس برس اس دن کیا خیالیہ ’’ پلاسٹک کی آلودگی اور اس سے بچائو ‘‘ ہے۔ جب ہم آلودگی کی بات کرتے ہیں تو عمومی طور پر ہمارے ذہنوں میں صرف صنعتیں، کوڑا کرکٹ اور گاڑیوں کا دھواں وغیرہ آتاہے۔ بلا شبہ یہ سب آلودگی کا ایک بڑا سبب ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے نئے طرز زندگی میں بہت سی ایسی بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں ہمارے شب و روز کا لازمی حصہ بن گئی ہیں جو ہمارے لیے آلودگی اور ماحول کو تباہ کرنے کے بہت بڑے ذریعے ہیں مگر نہ تو ہمیں ان کا مکمل ادراک ہے اور نہ ہم کبھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں۔ ڈسپوز ایبل چائے یا کافی پی کر اس کا کپ سڑک پر اچھال دینا، شاپنگ بیگ گاڑی کی کھڑکی سے باہر پھینک دینا، ٹوتھ برش کوڑے میں ڈال دینا ایسے کام ہیں جو ہم سب بلا سوچے سمجھے روزانہ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں ’’ری سائیکل ‘‘ کرنے کا کوئی مناسب تصور تو ہے نہیں اس لیے یہ سب چیزیں گزرگاہوں سے ہوتے ہوتے سیوریج میں چلی جاتی ہیں یا پھر انہیں شہر سے باہر ڈمپ کر دیا جاتا ہے۔ لاہور جیسے شہروں میں ان سب چیزوں کا بڑا حصہ نالوں سے ہوتا ہوا دریائوں اور پھر سمندروں میں پہنچ جاتا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ یہ تمام پلاسٹک غیر فطری اور غیر قدرتی ہے اس لیے قدرتی نظام میں ان کے گلنے سڑنے اور ختم ہو جانے کا کو ئی نظام نہیں ہے اور پلاسٹک کا بنا فضلہ ایک بہت لمبے عرصے تک آلودگی پھیلاتا رہتا ہے۔ عام پلاسٹک بیگ پچیس سے تیس برس، کافی کا کپ پچاس سال، بوتل پینے والے سٹرا دو سو سال، پانی کی بوتل اور پلاسٹک کپ پانچ سو سال برس تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہمارے شہروں میں سیوریج لائنیں بند ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان لائنوں میں پلاسٹک بیگ اور دیگر اشیاء کی موجودگی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ سڑکوں پر گندہ پانی پھیلتا اور آلودگی کے ساتھ پیٹ، معدے اور جگر کی بیماریاں پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (UNEP)، اور کچھ دیگر اندازوں کے مطابق پاکستان ہر برس تقریباََ تیس سے چالیس ملین ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے جس کا بڑا حصہ پلاسٹک پر مشتمل ہوتاہے ۔ ہم دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی پیدا کرنے والے ممالک میں دسویں نمبر پر ہیں۔ اس پلاسٹک ویسٹ کا ۶۵ فیصد پانی اور مشروبات کی بوتلوں، ڈھکن اور پلاسٹک بیگ پر مشتمل ہے۔ اور تو اور ہم ہر برس پچپن ارب پلاسٹک بیگ استعمال کر لیتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہم اپنے ہاتھوں سے سڑکوں، پارکوں میں پھینکتے ہیں۔ ۔ قانون کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک بیگ پر پابندی ہے۔ اس قانون کو بڑے سٹور والے تو پانچ روپے والا ماحول دوست بیگ پچیس روپے میں فروخت کر کے مزید پیسے کمانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں باقی عملی طور پر شاپنگ بیگز پر کتنی پابندی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان میں زبانی کلامی اور کاغذوں میں ماحول کے تحفظ کا پہلا قانون 80 کی دہائی اور پھر ماحولیات کے تحفظ کا ایکٹ 1997ء میں بنایا گیا تھا جس کے تحت ماحولیات کے تحفظ کا ادارہ بھی قائم کیا گیا۔ اس ایکٹ کو پڑھیں اور اس ادارے کو دیے گئے اختیارت کو دیکھیں تو پاکستان میں ماحولیات اور آلودگی کوئی مسئلہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ لیکن لکھی ہوئی ان باتوں پر عمل کون کرے اور کروائے؟ ہم تو پچھتر برس کے ہو چکنے کے باوجود آج تک گاڑی موٹر سائیکل والوں سے ٹریفک اشارے پر رکنے یا ون وے کی پابندی کے قانون پر عمل نہیں کروا سکے۔ ویسے بھی جن قوانین کا تعلق معاشرے اور روز مرہ زندگی سے ہو ان پر عمل کے لیے قانون سے زیادہ شعور، آگاہی اور تربیت ضروری ہے۔ میں نے تربیت کا لفظ استعمال کیاہے تعلیم کا نہیں۔ کیونکہ ہم تعلیم کے نام پر ڈگریاں تو بانٹ رہے ہیں لیکن تربیت کسی بھی شعبے میں نظر نہیں آ رہی۔ یہ تربیت ماں کی گود سے شروع ہو کر ، گھروں۔ محلوں اور معاشرے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس سب کا ایک تعلق عادت سے بھی ہے۔ دو تین دہائیاں قبل ہم سب جب سودا سلف لینے جاتے تھے تو گھروں سے ٹوکری یا تھیلا ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کاغذ کے لفافے استعمال ہوتے تھے۔ ٹوکریاں اور لفافے بنانا ایک گھریلوں صنعت تھی جو ہزاروں لوگوںکا روزگار تھی۔ اگر دنیاکی بات کریں تو اس وقت دنیا میں ہر برس گیارہ ملین میٹرک ٹن پلاسٹک سمندروں میں پہنچتا ہے۔ یہ آبی حیات کا جو حشر کرتا سو کرتا ہے۔ ایک اور اہم بات جو ہم کبھی سوچتے ہی نہیں وہ یہ ہے کہ جب ہم آکسیجن کی بات کریں تو ہماری پہلی سوچ درختوں کی جانب جاتی ہے لیکن زمین پر موجود آکسیجن کا ستر فیصد حصہ سمندروں میں موجود چھوٹے چھوٹے آبی پودے بناتے ہیں۔ پلاسٹک تو آکسیجن بنا نہیں سکتا، اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے کہ ہمارے لیے پلاسٹک زیادہ اہم ہے یا اپنی زمین پر آکسیجن۔ لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ تمام کائنات میں ہمارے پاس زمین ایک ہی ہے اور اسکا کوئی بدل ہمیں میسر نہیں۔