چند روز قبل ایک دوست نے خوب اپنی ''سیاسی بصیرت'' کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مسلسل اپنے سوالات کی بوچھاڑ کی ہم بھی خاموشی سے سنتے رہے اگر چہ ان کی باتیں حقائق پر مبنی تھیں لیکن جواب کی جسارت نہ کر سکا ،انھوں نے کہا کہ ایک بات سمجھ نہیں آرہی کہ ہم موجودہ حالات میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ ان کا استفسار تھا کہ جناب! کیا عمران خان اور پرویز الہی کی گرفتاری معمول کی کارروائی ہے؟ کیا اسد عمر، پرویز خٹک، عثمان بزدار، علی زیدی اور شریں مزاری کا پی ٹی آئی کے عہدوں سے استعفیٰ اہم بات نہیں؟ کیا زرداری اور ترین گفتن، نشستن اور برخاستن ا یسے ہی کر رہے ہیں ؟ کیا اس کے پس پردہ ایک مکمل داستاں نہیں؟ جناب ! کیا یہ سب کچھ اچانک ہو رہا ؟ اس موقع پر میں نے اپنے دوست کے سامنے موجودہ حالات بارے سیاسی گرو چوہدری شجاعت حسین کا بے لاگ تبصرہ دہرایا دیا جو کہ حقائق کی صحیح معنوں میں عکاسی کررہا ہے کہ'' ذاتیات کی لڑائی کو سیاسی اکھاڑے میں لڑا جا رہا ہے'' جس کے نتائج ملک وقوم کی تنزلی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں اور آج مملکت خداداد کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کر حالات کے بے رحم تھپڑوں کے سپرد کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف آنکھیں دکھا رہا ہے اور عالمی میڈیا پاک سر زمین کی بھیانک منظر کشی پیش کرکے دنیا میں پاکستان بارے خوف وہراس پھیلا ر ہا ہے اگرایک ماہ کے دوران ہونے والے ملکی و قومی فوائد و نقصانات کا حساب کیا جائے ہمیں معلوم ہوگا کہ نقصانات کا پلڑہ بھاری ہے یہ باتیں کسی بد نیتی پر مبنی نہیں بلکہ حقائق ہیں جنہیں ہم کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آئی ایم ایف آنکھیں دکھائے جبکہپاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر بہت کچھ کرنے کو تیار ہے لیکن اس کے باوجود اسے سٹاف لیول معاہدہ میں کامیابی نہیں ہوئی۔ چند روز قبل معروف ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی ایک ٹاک شو میںحالات کی اپنے الفاظ میں عکاسی کر رہے تھے مجھے ان کی باتیں حقائق پر مبنی اور قرین قیاس معلوم ہو رہی تھیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قسط ضرور جاری کرے گا کیونکہ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے پاس پاکستان سے بہتر کوئی کسٹمر نہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قسط جاری کر کے اپنی سرمایہ کاری کو بھی محفوظ بنائے گا کیونکہ پاکستان کے ڈیفالٹ کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان آئی ایم ایف کو ہی ہوگا تاخیری حربوں کے مقاصد کچھ اور ہیں جس میں سب سے بڑا مقصد پاکستان کو ہر لحاظ سے معاشی آزادی سے محروم رکھنا ہے یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اس وقت تک معاشی استحکام ممکن نہیں۔ فروی میں ایک اہم ملاقات میں سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق سے ہوئی ملک میں ہونے والے واقعات پر تفصیل سے گفتگو ہوئی ان کی عمران خان سے ملاقاتوں کا بھی تذکرہ ہوا وہ اس روز خلاف معمول کچھ واضح باتیں نہیں کر رہے تھے ان کی پریشانی کسی بڑے طوفان کا پتہ دے رہی تھی ،مجھے ان کیانداز گفتگو سے بہت کچھ معلوم ہو رہاتھا کہ ملکی معاملات ''روٹین'' پر نہیں ہیں اس کا اندازہ مجھے ان کی اس بات سے ہوا جب انھوں نے 23مارچ کے سلسلہ میں ہونے والی ایک اہم تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت سے معذرت کر لی، میں نے استفسار کیا کہ اعجاز بھائی 23مارچ کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی اہم تقریب میں شرکت سے معذرت کی وجہ کیا ہے ؟ انھوں نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا کہ حالات اور معاملات بہت غیر معمولی ہیں ان دنوں کل بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا ، میں بھلا ایک ماہ بعد کی کمٹمنٹ کیسے کر سکتا ہوں؟ یہ نشست کافی دیر بعد برخاست ہوئی پھر ہمارا ٹیلی فونک رابطہ 9 مئی واقعات کے بعد ہوا تاکہ موجودہ حالات بارے گفتگو کرکے آگاہی حاصل کی جائے میر ے رابطہ پر معلوم ہوا کہ وہ سعودی عرب میں ہیں، انہوں نے کہا کہ میں مدینہ منورہ میں ہوں اور ملک و قوم کی سلامتی کیلئے دعا گو ہوں آپ بھی ملک و قوم کے مستقبل کی بہتری کیلئے دعا کریں میں نے پو چھا اعجاز بھائی واپسی کب ہو گی ؟ انہوں نے اپنی واپسی بارے کوئی دو ٹوک نہیں بتا یا صرف اتنا کہا کہ ابھی عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ جائوں گا پھر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پاکستانی کیمیونٹی سمیت اہم ملاقاتیں ہونگی پھر واپسی کے پروگرام بارے کچھ طے کروں گا۔ ہماری گفتگو کا خلاصہ یہتھا کہ کسی نہ کسی سطح پر یہ احساس ضرور پیداہو گیا ہے کہ اب کوئی نیا'' ایڈونچر'' نہ کیا جائے لیکن اب شاید پانی پلوں سے کافی گزر گیا ہے مان لیجئے، اس سارے کھیل میں عمران خان کی شخصیت کا بت مزید قد آور ہوگیا ہے کیونکہ عمران خان نے ''بال ٹمپرنگ'' کر کے غیر معمولی ذہانت کا مظاہرہ کیا اس طرح انہوں نے نہ صرف اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھا بلکہ اس میں مسلسل اضافہ کیا۔ مسلسل کو ششیں کی جارہی ہیں کہ اسے کسی نہ کسی طریقہ سے کم کیا جائے لیکن حالیہ سروے کے نتائج میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی، یہ ایک ''پولیٹیکل ا سپیس ''تھی جس کا بھر پور فائدہ عمران خان نے اٹھایا، عمران خان سپورٹس مین اسپرٹ کے آدمی ہیں وہ مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں آئے ہیں انہیں ہیرو سے زیرو کرنے کیلئے بڑی محنت کی ضرورت ہوگی تاہم یہ ناممکن نہیں لیکن اب کوئی بھی نیا تجربہ مہنگا پڑ سکتا ہے ماضی گواہ ہے کہ کنگز پارٹی کا وجود دیرپا نہیں ہوتا اور اس کی ملک وقوم کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ٭٭٭٭٭