یہ 70ء کی دہائی کا درمیانی دور تھا۔ہم روزانہ سندھ یونیورسٹی جامشورو کی بس کے ذریعے گھر آتے، تو یہ بس شہر میں داخل ہونے سے پہلے سینٹرل جیل حیدر آباد کے سامنے سے ہوتی ہوئی ہیر آباد میں داخل ہوتی۔جیل کا صدر دروازہ اور اس کی مضبوط بلند دیواریں دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ ان دیواروں کے پیچھے غداری کے الزام میں مقید خان عبدالولی خان کا کیا مقدر ہو گا۔اس سے قبل ہم نے شیخ مجیب الرحمن کو پہلے اگرتلہ سازش کیس میں مشرقی پاکستان میں سلاخوں کے پیچھے اور 25مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد فیصل آباد جیل کی ایک کوٹھڑی میں قید تنہائی کی اذیت جھیلتے دیکھا تھا۔وہ منظر بھی تاریخ کے صفحات میں قید ہے، جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو چیلنج کرتے ہوئے بذریعہ ٹرین راولپنڈی سے لاہور پہنچے تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا، یہاں اپنی تقریر میں غربت اور مسائل سے گھرے ہم وطنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بھٹو آبدیدہ ہو ئے تھے، انہوں نے اپنی نم آنکھوں کو جس رومال سے خشک کیا تھا، وہ بھٹو کے ایک شدائی نے اس وقت چالیس ہزار میں خریدا تھا۔ایوب خان کو للکارنے کی پاداش میں بھٹو کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں لیکن پھر اصغر خان کے میدان میں آنے اور بھٹو کو رہا کرنے کے مطالبے کے بعد ایوب خان پیچھے ہٹ گئے کیونکہ اس وقت نسبتاً ایک کمزور وکٹ پر کھیلتے ہوئے وہ فضائیہ کے اس سابق سربراہ کو جس کی فوج کے ہر رینک میں عزت و تکریم تھی اور انہیں فادر آف ایئر فورس کہا جاتا تھا، جیل کا راستہ دکھانے کی پوزیشن میں نہ تھے، یہی اصغر خان جنہوں نے سیاست میں قدم رکھتے ہی بھٹو کے کندھے سے کندھا ملا کر ان کے محسن کا کردار ادا کیا تھا۔وہ 1977ء کی انتخابی مہم میں بھٹو کے مخالف سیاستدانوں کے فرنٹ لائن لیڈر تھے۔یہ بات بھی کتنی دلچسپ ہے کہ اس زمانے میں پاکستان کے نامور وکیل اے کے بروہی جہاں ایک طرف فیصل آباد کی جیل میں مقید شیخ مجیب الرحمن کے غداری کے مقدمے میں ان کی پیروی کر رہے تھے وہاں سندھ سے تعلق رکھنے والے اے کے بروہی ہی وہ شخص تھے جنہوں نے ضیاء الحق کو بتایا تھا کہ نواب قصوری قتل کیس ہی وہ مقدمہ ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت ہو سکتی ہے۔یہ بھی کیا اتفاق تھا کہ اپنے دور اقتدار میں بھٹو صاحب نے جب ملتان کا دورہ کیا تو ان کا قیام ملتان چھائونی کے آرام دہ گیسٹ ہائوس میں کیا گیا، اس وقت وہاں تعینات جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل ضیاء الحق نے ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا 20منٹ پر محیط اس ملاقات میں ضیاء الحق نے وزیر اعظم بھٹو کو بتایا کہ وہ ان کے مداح ہیں اور بحیثیت اسلامی دنیا کے ایک عظیم لیڈر کے طور پر وہ انہیں بڑی قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔بعد میں بیگم نصرت بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس رات بھٹو نے سونے سے قبل مجھے بتایا تھا کہ میں نے آج پاکستان آرمی کے اگلے سربراہ کا انتخاب کر لیا ہے بعد میں ضیاء الحق تھری اسٹار جنرل بنے اور جب ٹکا خان کے بعد نئے آرمی چیف کے انتخاب کا وقت آیا تو 7لیفٹیننٹ جنرلز سپرسیڈ کر کے قرعہ جنرل ضیاء الحق کے نام نکلا۔پھر 4جولائی کی رات جب وزیر اعظم ہائوس کے ڈائننگ ٹیبل پر جنرل ضیاء الحق سے گفتگو کر رہے تھے اور بار بار ان کے منہ سے ’’وی سر‘ وی سر‘‘ نکل رہا تھا اور بھٹو ’’معاملات جلد حل ہو جائیں گے‘‘ کی یقین دہانی کرا رہے تھے تو پھر اچانک جنرل ضیاء الحق نے پوری عاجزی سے سینے پر ہاتھ رکھا، تھوڑا سا آگے جھکے اور بولے ’’سر وفادار گارڈز کی موجودگی میں نئے گارڈز کی ضرورت نہیں ہوتی ،آپ ہم پر پورا اعتماد کر سکتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا رنگ پیلا پڑ گیا اور چند گھنٹے بعد رات گئے بھٹو کو نیند سے بیدار کر کے بتایا گیا کہ فوج آ گئی ہے۔بھٹو نے جنرل ضیاء الحق سے فون پر بات کی، انہوں نے دریافت کیا ’’یہ سب کیا ہو رہا ہے‘‘ جنرل ضیاء الحق کا جواب تھا ’’سر ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا‘‘ اور پھر لائن کٹ گئی یہ تو ہماری تاریخ کی داستان کے چند عنوانات ہیں۔ ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو ولی خان کو حیدر آباد جیل سے رہائی مل گئی۔وقت کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے۔سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو برسر اقتدار آئے تھے تو مجیب نے نہ صرف رہائی پائی تھی بلکہ وہ دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آنے والی نئی مملکت بنگلہ دیش کے نئے بانی قرار پائے تھے۔آپ انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تاریخ کے کتنے ہی نامور کردار کتابوں سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، میں دیکھتا ہوں وہ صاحب کمال جس نے اپنی آرٹ اپنی ذہانت اپنی جرات اپنی فراست اور اپنی حکمت عملی سے زندگی کا دھارا بدل،ا جو لکیر کی طرح وقت کے پتھر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گیا اسے موت نے کس کس طرح جا لیا، عقل جواب دے جاتی ہے وہ نمرود جو چھ ماہ کا تھا تو سمندر میں ڈوب کر نہ مرا۔جب نو ماہ کا تھا تو اسے جزیرے پر درندے پالتے رہے، جب جوان ہوا تو زمین کی ساری قوتیں اس کے ہاتھ پر بیعت ہو گئیں اور جو بادشاہ بنا تو خدا بن گیا، وہی نمرود ایک مچھر کے ہاتھوں ذلیل ہو کر مرا۔ عقل کے پاس جواب ہے۔ وہ سکندر اعظم جسے لاکھوں سپاہیوں کے سینکڑوں لشکر شکست نہ دے سکے ۔وہ ایک معمولی زخم سے ہلاک ہو گیا، کیا عقل کے دامن میں جواب ہے۔ ہٹلر جیسا شخص خودکشی پر کیوں مجبور ہوا، لنکن کا قاتل کہاں کا سپہ سالار تھا؟ یہی قدرت کا اصول ہے اس قدرت کا اصول جو لوگوں کے لئے اپنے فیصلے نہیں بدلا کرتی، وطن عزیز کی صورت حال پر نظر پڑتی ہے تو یقین ہو جاتا ہے کہ لوگ تاریخ نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اسی لئے ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں، جیسے کسی معجزے کے منتظر ہوں اور ہماری دانست میں کوئی معجزہ نہ ہوا تو حادثہ ہو گا ،یہ غیر یقینی اس لئے ہے کہ 75سال سے ہمارے کرم فرما رہنمائوں نے صاحب اقتدار اور صاحب اختیار لوگوں نے اپنے دروازے پر کھڑے اس ہجوم کو ایک قوم بنانے کی کوشش نہیں کی ،کوئی نظم و ضبط والی قوم تعمیر نہیں کی، کوئی نیا نظام نہیں دیا، کسی سسٹم کی اصلاح نہیں کی۔نہ انصاف دلایا نہ تعلیم نہ صحت عزت نہ طبقاتی تفریق ختم کی اور نہ معاشی عدل قائم کیا، قدرت نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو اس قوم کا مقدر بدلنے کا موقع دیا تھا۔ آج کی صورت حال پر نظر ڈال لیں ،عمران گزشتہ ایک سال سے اپنے گرد گھومنے والی سیاست میں بالآخر وہ غلطی کر بیٹھے جس نے اقتدار میں ان کی واپسی کے امکان کو کم نہیں ختم کر دیا ہے اور ایسا لگتا ہے اور لب و لہجہ بھی گواہی دے رہا ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست کے دائرے کو نسبتاً محدود کر لیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ عمران خاں نے اپنے اندازوں کی روشنی میں ایک ایسے خوفناک کھیل میں چھلانگ لگائی۔جس کے سبب انہوں نے بہت نہیں، سب کچھ دائو پر لگا دیا اور یقینا اب وہ اس بات پر پچھتاوے کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ۔