جی! یہ کسی افسانے یا ڈرامے کا موضوع نہیں، آپ بیتی کا نام ہے۔ ڈاکٹر مغیث الدین صاحب نے اپنی زندگی کی چالیس سے زیادہ بہاریں صحافت اور ابلاغ عامہ کو دے دیں۔ وہ صحافی بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں شاید ہی کوئی ایسا میڈیا ہائوس ہوگا جہاں ان کے شاگرد اور دوست نہ ہوں۔ امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے مغیث صاحب کے بہت سے کریڈٹس ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے پاکستان میں ماس کمیونیکیشن کو اکیڈیمک جدت بخشی۔ اس میں نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ ان کی یہ انفرادیت بھی کسی سے کم نہیں کہ وہ عالمی افق پر بے پناہ مشہور دانشوروں کے شاگرد رہے۔ نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید کے نام سے وہ سب واقف ہیں جو اُردو کے علاوہ انگریزی جرنلزم سے بھی آشنا ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کا موجودہ رنگ اور ڈھنگ ڈاکٹر صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ پاکستان بھر میں کسی اور کا اپنے کام پر شایدہی اتنا ریسرچ ورک ہو جتنا آپ کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملکی اور غیرملکی مجلوں میں پچاس ہزار سے زائد تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ مغیث صاحب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا عملی حصہ بھی رہے مگر تحقیقی اور انتظامی امور نے ہمیشہ انہیں اپنی طرف متوجہ رکھا۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ پچھلے دنوں اپنی ڈاکٹریٹ پر ایک چھوٹی سی راہنمائی کے لیے ان سے ملاقات ہوئی۔ بہت سی یادیں اور باتیں ان سے شیئر ہوئیں۔ غالباً 2015ء کی بات ہے آپ سے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے سولو انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ حالیہ ملاقات ان سے ان کی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں ہوئی جہاں وہ صحافت کے علاوہ فلم اور ڈرامہ پروڈکشن کے جدید تقاضوں سے نوجوان نسل کو آگاہ کررہے تھے۔ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا کہ مغیث صاحب کہنے لگے کہ الیکٹرونک میڈیا پر جتنے انٹرویو دیئے … آپ کا انٹرویو بیسٹ تھا۔ ملاقات کے اختتام پر آپ نے اپنی آپ بیتی دی جو پڑھنی شروع کی اور پڑھتا ہی چلا گیا۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے ایسے پہلوئوں سے آگاہی ہوئی جنہیں عام قاری سے شیئر کرنا ضروری سمجھا۔ اس آپ بیتی میں واقعات بھی ہیں اور شخصیات بھی … تجربات بھی اور آراء بھی۔ اس میں ایجوکیشن بھی ہے اور مشاہدات بھی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’مجھے فخر ہے کہ میں نے نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسی شخصیات سے پڑھا‘‘۔ نوم چومسکی امریکی میڈیا کے بڑے ناقد ہیں۔ پوری دنیا میں ان کا پراپیگنڈا ماڈل مشہور ہے۔ ایڈورڈ سعید سے میں نے ’’کورنگ اسلام (Covering Islam)‘‘ کے موضوع پر لیکچر لیے کہ ویسٹرن میڈیا اسلام کو کس طرح پیش کرتا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب ایک دلچسپ واقعہ شیئر کرتے ہیں۔ میں ایک ٹی وی چینل میں بھریتوں کے لیے انٹرویو پینل کا حصہ تھا۔ جب میں امیدواروں کو کچھ الفاظ پڑھنے کو کہتا جن میں ’’غلط اور تعلق‘‘ جیسے الفاظ بھی شامل تھے۔ اکثر امیدوار یہ دونوں لفظ غلط ادا کررہے تھے۔ میڈیا کے طالب علموں کو اپنا تلفظ بہتر بنانے کے لیے کسی اچھے قاری سے ضرور رجوع کرنا چاہیے … ہمارے بچپن میں گلی محلوں کی لائبریریوں کا بڑا کردار تھا جو اَب ناپید ہے۔ … انہیں آنہ لائبریری بھی کہا جاتا تھا … آج کے دور کا یہ بھی المیہ ہے کہ ہم نے انسانوں سے مکالمہ کم کردیا ہے۔ دوست اور گھر والوں سے موبائل او رکمپیوٹر کے ذریعے بات کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی ہمیں بہت دور بیٹھے لوگوں کے قریب لے آئی ہے مگر اس نے بہت قریب بیٹھے لوگوں کو دور کردیا ہے۔ ہمارے دور میں ایسا نہیں تھا۔ اس لیے ہم اپنی سوشل لائف کو اور ڈھنگ سے گزارتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی نے اس ملک کو بڑے بڑے نام دیئے۔یوسف رضا گیلانی، یونیورسٹی کے طالب علم تھے مگر کم آتے جاتے تھے۔ جاوید ہاشمی، فیصل آباد سے سینٹر طارق چودھری، دراز قد اور ہینڈسم حفیظ خان۔ میں زمانہ طالب علمی میں جمعیت کو سپورٹ کرتا رہا مگر جب میں خود یونیورسٹی ہوسٹل کا وارڈن بنا تو جمعیت میرے خلاف ہوگئی۔ یونیورسٹی کے ایام میں چند اور بھی شخصیات تھیں جن کا نظریاتی قبلہ ہم سے ایک سو اسّی ڈگری پر تھا ۔ سسکتی مسکراتی زندگی میں ان شخصیات کا بھی ذکر ہے جو عصر حاضر کے بھی بڑے نام ہیں … جاوید ہاشمی سے اچھے تعلقات رہے۔ جب وہ یونیورسٹی کے سیکرٹری (سٹوڈنٹ یونین کے) تھے تو مجھے اپنے پاس ہاسٹل ٹھہرالیا کرتے تھے۔ مجھے ان کے دستخط کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ چیک بک پر جو دستخط کرتے میں وہ بھی کرلیتا تھا۔ لیاقت بلوچ سے بے پناہ قربت تھی۔ میرے نکاح نامے پر بطور گواہ ان کے دستخط ہیں۔ قاضی حسین احمد کھلے دل اور کھلی سوچ کے حامل انسان تھے۔ انتہائی نفیس و شائستہ اردو اور انگریزی بولتے تھے۔ وہ نہ صرف اقبال بلکہ احمد فرازاور فیض احمد فیض پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ میں انہیں بہت یاد کرتا ہوں۔ ارشاد عارف دھیمے مزاج کے درویش صفت انسان ہیں جنہوں نے برس ہا برس نوائے وقت جیسے ادارے میں ستون کا کام کیا۔ کونسل آف نیشنل افیئرز کے باغبانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا ایک اپنا حلقہ اور متاثرین ہیں جو انہیں پڑھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ حسن نثار سے میرا تعارف تب ہوا جب پنجاب یونیورسٹی میں مجھ پر ایک برا وقت آیا۔ حسن نثار نے اس وقت میرے حق میں کالم لکھا جب میر ااس کے ساتھ کوئی دنیاوی تعلق بھی نہ تھا۔ کالم پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں تنہا کھڑا تھا۔ دائیں اور بائیں دوستوں کی تلاش میں تھا۔ کون میرے حق میں گواہی دے گا؟ حسن نثار نے مجھ جیسے انجان شخص کے حق میں گواہی دے دی۔ کسی ناظر کے لیے ممکن نہیں کہ وہ انہیں دیکھتے او رسنتے وقت اپنا چینل تبدیل کرسکے۔ غزالہ نثار اور میں زمانہ طالب علمی میں مختلف سمتوں سے نعرہ بازی کیا کرتے تھے۔ جب بھی وقت پڑا غزالہ نے دل کھول کر ساتھ دیا۔ زندگی کے سفر میں پڑائو زیادہ اور منزلیں کم ہیں۔ وقت بندمٹھی سے ریت کی طرح پھسل سا گیا۔