اکثر محفلوں اور سیاسی بحثوں میں یہ سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ کشمیر میں جاری اتنی زیادتیوں، ہلاکتوں اور تشدد کے باوجود عالمی برادری خاموش کیوں ہے اور کشمیر کے مسئلے کے دائمی حل کے لیے کوشاں کیوں نہیں دکھائی دیتی؟یہ سوالات جتنے اہم ہیں اتنے ہی ان کے جوابات پیچیدہ ہیں۔ عالمی برادری اس وقت دو نظریات کے تابع ہو گئی ہے اور ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسیاں بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ہندوستان کی آزادی کے وجود میں آنے کے بعد ان کی خارجہ پالیسی حقیقت میں سرد جنگ نے ترتیب دی۔ سینٹو یا سیٹو میں شامل ہونے کا نقصان جتنا پاکستان کو ہوا اس کے مقابلے میں روسی بلاک نے بھارت کی ہر سطح اور ہر مشکل گھڑی میں فوجی اور سفارتی امداد کی۔موجودہ دور میں بیشتر عالمی طاقتیں خود اندرونی انتشار کا شکار ہیں۔ اگر ان ملکوں کے ادارے اور انتظامیہ مضبوط نہ ہوئے ہوتے تو یہ بھی ہماری طرح سیاسی اور معاشرتی بدحالی کا شکار دکھائی دیتے۔ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے امریکی معاشرہ نہ صرف معاشی اور معاشرتی سطح پر مختلف حصوں میں منقسم ہوا ہے بلکہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق عالمی سطح پر اس کی شبیہ ایک پولیس والے کے جیسے رہ گئی ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ برطانیہ نے بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کر کے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار دی ہے۔ اس سے ایک تو یورپی اتحاد کمزور پڑ گیا ہے دوسرا برطانیہ کی عالمی طاقت کے طور پر اس کی حیثیت اور رعب ختم ہو رہا ہے۔جرمنی، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک اس وقت اپنی معیشتیں بچانے کی دوڑ میں ہیں، پھر کورونا وائرس کے باعث ان کی منڈیوں اور بازاروں پر سناٹا چھا گیا ہے۔ سفارتی سطح پر دنیا کے نئے بلاک بننے لگے ہیں جن میں چین اور روس کا دائرہ اثر و رسوخ بڑھتا نظر آ رہا ہے۔چین نے اگر اقتصادی منڈیوں پر اپنی گرفت مضبوط کر دی ہے تو روس مسلمان ملکوں میں گھس کر دوبارہ اپنی ساکھ بحال کرنے میں مصروف عمل ہے۔ مسلم ممالک امریکہ سے خائف ہو کر روس کے قریب آنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ سے اقتصادی راہداری کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان، ترکی ایران، ملیشیا، چین اور روس کے مراسم قائم ہو رہے ہیں وہیں بھارت، امریکہ اسرائیل، سعودی عرب، جاپان اور آسٹریلیا ایک نیا بلاک بنانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔اس پس منظر میں جب کشمیر کے مسئلے کی عالمی حمایت کے حصول پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک بات کو ذہن نشین کرنا لازمی بن جاتا ہے کہ پاکستان کے موقف کی حمایت محض چند مسلم ممالک تک محدود ہے حالانکہ نئے بلاک میں چین سمیت دوسرے ملکوں کی حمایت کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔کیا وجہ ہے کہ چین، روس یا دوسرے ممالک پاکستانی موقف کی حمایت نہیں کرتے؟نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے تئیں غیر مسلم دنیا کی سیاسی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ میڈیا کو بظاہر ’اسلامی دہشت گردی‘ کی تشہیر کرنے کی ہدایات ملیں اور ہر جائز تحریک کو دہشت گردی سے گردانا گیا وہ چاہیے کشمیر کی تحریک ہو یا فلسطین کی۔ حتیٰ کہ ان تحریکوں سے منسلک پرامن لیڈرشپ کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں ڈالنے کا عمل شروع کرایا گیا۔ معروف مصنف اور نامہ نگار رابرٹ فسک نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ فلسطین میں اسرائیلی تشدد کو کبھی ’یہودی دہشت گردی‘ نہیں کہا جاتا یا عیسائی مسجد پر حملہ کرے تو وہ سرپھرا کہلاتا ہے لیکن مسلمان حملہ کرے تو وہ فوراً ’اسلامی دہشت گرد‘ بن جاتا ہے۔حماس کو 2006ء میں جمہوری طریقے سے انتخابات جیتنے کے باوجود سیاسی منظر سے غائب کر دیا گیا۔ 1992ء میں الجیریا میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے انتخابی نتائج کو سرے سے رد کیا گیا اور سیاسی قیادت پر دہشت گردی کا لیبل چڑھا کر ہمیشہ کے لیے منظر سے ہٹا دیا گیا۔1988ء میں کشمیر میں مسلم متحدہ محاذ کی جیت کو شکست میں تبدیل کر کے انتخابی امیدواروں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا۔طالبان تب تک جہادی تھے جب تک روس نشانے پر تھا، مگر جب انہوں نے امریکی فوج کے خلاف افغانستان چھوڑنے کی مہم شروع کی تو اسلامی دہشت گرد کہلانے لگے۔یہ چند مثالیں جمہوری دنیا کی نظریاتی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ کشمیر کے بارے میں یہی سوچ قائم ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے اقوام عالم کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ کشمیر کو اپنے طریقے سے سنبھالے گی جس کے لیے کسی حد تک عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال پانچ اگست کے فیصلے پر بڑی طاقتوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا حالانکہ عالمی میڈیا نے پہلی بار کشمیر کی حقیقی صورت حال بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔(جاری ہے)