سندھی ادب کا بڑا نام،ان کی پہچان ایک فکشن رائٹر کی ہے، وہ الگ سوچتے ہیں اور کچھ الگ سا لکھنا پسند کرتے ہیں منفرد لگنا کچھ ایسا برا نہیں، شعراء ادیبوں اور فنون لطیفہ سے متعلق چاہتے ہیں کہ وہ عام لوگوں سے الگ دکھائی دیں۔ کبھی آرٹسٹوں کی نجی محفلوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہو، تو آپ کو ان کے آرٹسٹ ہونے کے زعم کا اندازہ ہو گا،میں ان سے کبھی نہیں ملا ،شاید ایک آدھ بار ہی ان کا کالم پڑھا ہو، اس لئے میں انکی تحریروں کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا تھا۔میرے نزدیک وہ گھنی مونچھوں والے فربہی مائل بزرگ ادیب ہیں، ادب سے تعلق ہونے کی بنا پر گمان تھا کہ لطیف احساسات اور حساس طبیعت کے مالک بھی ہوں گے لیکن سارا گمان انکی چھوڑی گئی در فنطنی کی نذر ہو گیا ۔کہا جاتا ہے کہ وہ صوفی ازم سے جڑے ہوئے ہیں ۔مست ملنگ لکھاری ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا پر پھیلنے والی بے ادبی سے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، سوشل میڈیا پر درجہ ء حرارت بڑھ گیا۔ ایک جانب انھیں نہایت سخت الفاظ سے یاد کرنے والے تھے اور دوسری طرف مدر پدر آزادی کے طالب مذہب بیزار سوشلسٹ اور سندھی قوم پرست ۔ وہ مست ملنگ بھی ہیں۔اس لئے قوم پرستوں کا ان کے دفاع میں توپ و تفنگ کے ساتھ میدان میں آنا فطری امر تھا ۔قوم پرست دوستوں کے لئے بندہ بس ان کے مزاج کا ہونا چاہیے ، پھر سات خون معاف۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھر میں بھوک سے مرتے بچوں اور غربت افلاس کے ننگے ناچ پر یہ سندھ دھرتی کے عاشق کیسے چپ رہتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی قوم پرست کی طرف سے تھرپارکر میں پانی کا ایک کنواں کھدوانے کی خبر تک نہیں پڑھی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے میں اس وقت عرض کر رہا تھا کہ عامر خاکوانی صاحب کے بلاگ کے بعد میں نے وہ ویڈیوتلاش کی اور کوشش کی کہ سمجھ سکوں کہ معاملہ آخر ہے کیا،میں خاکوانی صاحب کے بلاگ پر ہی بائیں بازو کے بزعم خود وکیلوں کے دلائل پڑھ چکا تھا۔ جو اس کی حمایت میں ان کی اس تحریر کو ادب کا ایک اور شاہکار قرار دے رہے تھے۔اسے علامہ اقبال کی نظم " شکوہ" قسم کی تخلیق قرار دے رہے تھے… میںیہ سب ذہن میں رکھ کر سوشل میڈیا پر اس ویڈیوکو دیکھنے اور سننے لگا اور بمشکل چالیس سیکنڈ ہی سن سکا وہ کسی لٹریچر فیسٹول میں تحریر پڑھی جا رہی تھی۔ وہ سندھی زبان میں عورت کی عظمت کے حوالے سے مکالمہ کر رہے تھے ۔میں کچھ دیر ہی ان کے یہ مکالمے سن سکا ۔جب انہوں نے کہا کہ تو تو بدنصیب ہے تیری تو ماں ہی نہیں، تجھے کیا پتہ کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے۔۔۔۔ ان کے اس مکالمے پر جب لٹریچر فیسٹیول میں بیٹھے لچر لفنگوں نے تالیاں بجائیں تومیں گھبرا گیا میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے ویڈیو وہیں بند کر دی۔ وہ عورت کی عظمت بیان کرتے ہوئے مبالغے میں بہتے بہتے نہایت بھونڈا اور عامیانہ انداز اختیار کر گئے ،قارئین کو چونکانا ہی فکشن رائٹر کا کمال ہوتا ہے ،لیکن وہ اس کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہے تھے ۔انہوں نے جس انداز میں مکالمے کہے، اسے سننے کا کم از کم مجھ حوصلہ نہ تھا، میں سیدھا سادا سا مسلمان ہوں ۔مجھے صوفی ازم کے رموز کا علم نہ ملامتی ،علامتی صوفیوں کو جانتا ہوں۔ ان کے مقابلے میں میرے پاس اتنا علم بھی نہیں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیتے جاگتے رب العالمین سے کلام فرماتے تھے۔ وہ اسکے محبوب تھے، اسکے لاڈلے تھے ۔یہ اللہ رب العزت سے ملاقات کے لئے جاتے اور انکی ماں سجدے میں پڑی اپنے بیٹے کے لئے دعائیں کرتی رہتی اور جب ماں نہ رہی تو اللہ رب العزت نے بھی موسیٰ علیہ السلام کو خبردار کیا کہ موسیٰ سنبھل کر اب تیرے حق میں دعائیں کرنے والی نہیں رہی۔۔۔ حیران ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی تخلیق سے بے خبر ہو ؟ وہ کسی بھی سلسلے کے صوفی ہوں ،ہوتے رہیں ،انہیں یہ تمثیل اپنے تک ہی رکھنی چاہئے تھی ،جب اسے پبلک کرنا تھا تو احتیاط کرنی تھی، دھیان رکھنا تھا کہ یہاں سب ملامتی سلسلے والے نہیں ،پھر انہوں نے وہ تمثیل کسی کیفیت یا جذب کی حالت میں نہیں سنائی وہ سنا رہے تھے اور لوگ ہنس رہے تھے، ان کی تالیوں کی آوازوں پر ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ ان جملوں پر یہ ستائش انہیں اچھی لگ رہی ہے ،یہ سب سچ میں لائق ملامت تھا اور شدید مذمت کے قابل ہے ۔ رہی بات شکوہ شکایت کی تو۔۔۔۔۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں وہ شکوہ کرتے احترام کے ساتھ، سلیقے سے مکالمہ کرتا،لٹریچر فیسٹیول کو ادبی محفل ہی رہنے دیتے۔ اسے لحمراء ہال نہ بناتے ،فکشن میں جگتوں کی گنجائش ہوتی رہے، رب کائنات سے تمثیل میں بھی بے ادبی ، گستاخی کی گنجائش نہیں، پھر وہ جہاندیدہ انسان ہیں، وہ لکھنے لکھانے سے جڑے ہیں کیا،وہ چوراسی برس کی عمر میں بھی سماج اور انسان کی نفیسات کو نہیں سمجھ سکے انہیں اتنا تو علم ہونا چاہئے تھا کہ ان کے سننے والوں میں سارے سلسلہ ملامتیہ کے بیعت نہیں ،بے ادبی اور گستاخی پر ملامت کرنے والے بھی ہیں،سائیں ! آپ نے دل دکھایا ۔