جمہوریت ایک ایسا طرز ِ حکومت ہے جس کے ثمرات سے نہ صرف شرفا بلکہ بدمعاش لوگ بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو شرفا مُنہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور جمہوریت کی ساری برکتیں بدمعاشوں کے لیے مخصوص ہوجاتی ہیں۔ چند ہفتے پیشتر جاپان کے سب سے بڑے سنڈیکیٹ یعنی ادارۂ ترویج و تر قی جرائم کے سربراہ اِس جہا ن فانی سے کوچ کر گئے۔ اُن کی وفات پر جاپان کے جمہوریت پسند بدمعاشوں میں غم و اَندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ آنجہانی کے سوگ میں تمام بدمعاشوں نے تین منٹ تک مجرمانہ سرگرمیوں سے مکمل اِجتناب برتا۔ جاپان کے قانون پسند حلقوں نے اِس پر احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ اتنے عظیم بدمعاش کی رحلت پر اُن کے عقیدت مندوں کو چاہیے تھا کہ وُہ کم از کم تین د ِن تک اِرتکابِ جرم سے باز رہتے۔ سوگ سے فراغت پاتے ہی جاپانی بدمعاشوں کی مرکزی تنظیم نے نئے سربراہ کے چناؤ کی تیاریاں شروع کردیں۔ اِس عہدے کے لیے دواُمیدوار (مسٹر ٹیکنا کا اَور مسٹر یاما موٹو) سامنے آئے ۔ دونوں اُمیدواروں میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ اُنھوں نے اِنتخابی جلسوں میں ایک دُوسرے سے بڑھ کر اپنے مجرمانہ ریکارڈ پیش کئے اور خود کو دوسرے سے بڑا بدمعاش ثابت کرنے کی کوشش کی، نیز اُن خدمات کی تفصیل بھی پیش کی جو انھوں نے بدمعاش بھائیوں کی خا طرانجام دی تھیں۔ بظاہر مسٹر یاما موٹو کا پلّہ بھاری لگتا تھا کہ اُنھیں نہ صرف جاپان کے پانچ ہزار چھَٹے ہوئے بدمعاشوں کی حمایت حاصل تھی بلکہ آنجہانی سربراہ کی بیوہ بھی اُن کی بدمعاشی کا سِکّہ تسلیم کرتے ہوئے اُن کی طرف داری میں پیش پیش تھیں۔ اِس ہنگامہ پر و َر مہم کے دوران میں بدمعاشوں کا طرز عمل اِس قدر شریفانہ تھا کہ جاپان کے شرفا بھی شرم سے پانی پانی ہو گئے۔ ایک اِنتخابی جلسے میں مسٹر ٹیکنا کانے فرمایا: ’’اِنتخابی مہم اور پولنگ کے دوران بدمعاشی کر کے ہم شرفا کے نقشِ قدم پر چلنا معیوب سمجھتے ہیں۔ ہمارے کچھ اُصول ہیں جو شرفا کے اُصولوں کی طرح ہر لمحہ تبدیل نہیں ہوتے۔ ہم جان دے سکتے ہیں لیکن اُصولوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ ایک شریف دوسرے شریف سے بدمعاشی کر سکتا ہے لیکن بدمعاش کبھی دُوسرے بد معاش سے بد معاشی نہیں کرتا۔ ‘‘ مسٹر ٹیکنا کاکی یہ تاریخی تقریر ہٹ ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اِنتخابی مہم کا پلڑا اُن کے حق میں جھک گیا،حتیٰ کہ آنجہانی سربراہ کی بیوہ نے بھی تسلیم کر لیا کہ کوئی بدمعاش اِس سے بہتر تقریر نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ مسٹر یاما موٹوکی حمایت سے دستبردار ہو گئیںاور اپنے ہزاروں بدمعاشوں کے ساتھ مسٹر ٹیکنا کا کی پارٹی میں شامل ہو گئیں۔ اِس صورتِ حال سے بھِنّا کر مسٹر یاما موٹونے کہا : ’’اگر میں شریف آدمی ہوتا تو مسٹر ٹیکنا کا کو اِس بدمعاشی کا مزہ چکھا دیتا لیکن میں آ ئینِ بدمعاشی سے رُوگردانی نہیں کر سکتا۔ ‘‘ بدمعاشوں کی تاریخ میں اِس سے پہلے شاید ہی کبھی اِتنی ہنگامہ خیز اِنتخابی مہم چلائی گئی ہو۔ اِس مہم کے اِختتام پر نئے سربراہ کے چناؤ کے لیے متحارب گروہوں میں سخت کشمکش کے ماحول میں پولنگ کا آغاز ہوا۔ پریذائڈنگ افسر کے فرائض ایک ریٹائرڈ سمگلر نے انجام دیے جو اپنی جوانی میں نامی گرامی بدمعاش رہ چکے تھے لیکن اِن دنوں کئی ایک امراض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گھر پرشرافت کی ز ندگی گزار رہے تھے۔ جاپان کے تقریباً ایک لاکھ بدمعاشوں نے اِنتہائی ڈسپلن اور ایمان داری سے ووٹ بھگتا کر جمہوریت کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا۔ پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی ۔نتائج کا اعلان ہوا تو پتا چلا کہ مسٹر ٹیکنا کا بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ اُن کے حریف مسٹر یاما موٹو نے یہ فیصلہ نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ کامیاب اُمید وارکو گلے لگاتے ہوئے اُسے مبارک باد بھی پیش کی۔ بعد میں دونوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ مسٹر یاما موٹونے کہا: ’’میری شکست کی بڑی وجہ میرے خلاف یہ پراپیگنڈا ہے کہ میں دَر پردہ جاپان کے شرفا سے ملا ہُوا ہوں اور بدمعاشی کے مسلّمہ اُصولوں سے اِنحراف کر رہا ہوں۔ اصل قِصّہ یہ ہے کہ میں اپنی بدمعاشی کوشرفا کے تعاون سے فروغ دے رہا ہُوں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم شرفا کے بارے میں اپنے روایتی نظریات پر نظر ِ ثانی کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ شرفا میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو ہمارے ہی بھائی بندوں پر مشتمل ہے اور ہمارے ساتھ ہر طرح کاتعاون کرتا ہے۔ بہرحال مجھے اکثریت کا فیصلہ منظور ہے۔ ‘‘ اورمسٹر ٹیکنا کانے کہا: ’’ اِنتخابی مہم بڑی زوردار تھی۔جوش و خروش کا عالم دیدنی تھا۔ ہمارے بدمعاش بھائیوںنے جس تحمل ، بردباری اور نظم و ضبط کا ثبوت دیا وُہ شرفا کے مُنہ پر ایک طمانچہ ہے۔میرے قابل صَد احترام بدمعاش دوست مسٹر یاما موٹو نے جس فراخ د ِلی کا مظاہرہ کیا ہے اُس کی توقع کسی چھوٹے موٹے بدمعاش سے ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے بدمعاشی کو ایک ایسے فلسفہ ٔ حیات کا رُوپ دے دیا ہے جو نہایت کامیابی سے کمیونزم اور کیپیٹل اِزم کی جگہ لے سکتا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں نظام دراصل بدمعاشی ہی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیںیعنی کہ بدمعاشی دَر بدمعاشی کی مثال ہیں، مگر ہم چاہتے ہیں کہ اِن نظاموں سے منافقت اور اِستحصال کا عُنصر نکال دیں اور دنیا کو خا لص کھری اور شریفانہ بدمعاشی کے فوائد سے آشنا کریں ۔ وُہ وقت دور نہیں جب ہم دنیا ئے بدمعاشی کے جھنڈے تلے متحد ہو جائیں گے۔ ہم نے اپنے فلسفے کو ’’راسکل اِزم ‘‘ کا نام دیا ہے اور ہر بدمعاش نے تہیّہ کر لیا ہے کہ وہ راسکل اِزم کے فروغ کے لیے کوئی بڑی سے بڑی بدمعاشی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ ‘‘ پریس کانفرنس کے اِختتام پر اِدارہ ٔ ترویج و ترقی جرائم کے نئے سربراہ کی تقریب ِ حلف برداری کا پروگرام ترتیب دیا گیا اور اِس ُپر وقار تقریب کے اِنعقاد کے لیے جاپان کے ایک خوبصورت جزیرے (شیکو) کا اِنتخاب کیا گیا۔ اُدھر جاپانی پولیس کے سربراہ کو خبر ملی تو اُس نے ما تحت عملے کو ہدایت کردی کہ وہ ہر قیمت پر اِس تقریب کے اِنعقادکو روکیں۔ چنانچہ پولیس نے اُس جزیرے کا گھیراؤ کر لیالیکن بدمعاشی میں پولیس اور بدمعاشوں کا کیا مقابلہ…تقریبًا چار سو بدمعاش جزیرے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اِس مقصد کے لیے اُنھوں نے ہیلی کاپٹروں اور آب دوزوں سے مددلی۔اِس تقریب میں مرحوم سربراہ کی بیوہ نے نئے سربراہ مسٹر ٹیکنا کاکو وہ یاد گاری خنجر پیش کیاجو اُس کے آنجہانی خاوند کی نشانی تھی۔اُس خنجر پر سنہری حروف میں یہ الفاظ کند ہ تھے: Long live Rascalism!