سابق وزیراعظم نواز شریف کواحتساب عدالت سے مجرم قرارپائے اورانہیں لاہور کو ٹ لکھپت جیل میںرکھا گیا تووہاں اُنہیں پُرآسائش سہولتیں فراہم گئیں‘ ائیر کنڈیشنر‘ ٹیلی ویژن‘ آرام دہ بیڈ اور گھر کے کھانے ۔جب وہ بیمار ہوئے توان کے علاج معالجہ کو اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی قطار لگ گئی۔مریض قیدی کے معائنے کو نصف درجن میڈیکل بورڈ بنے۔سرکاری خرچ پر ان کا ہربڑے سے بڑے سے بڑا میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔اس پر یہ سوالات اُٹھنے لگے کہ جو سہولتیں نواز شریف کوجیل میں دی گئیں ان کا عشر عشیر بھی عام قیدی کو دستیاب نہیں۔ بلکہ عام لوگ تو بہت غیرانسانی صورتحال میں جیل کاٹتے ہیں۔ جیل میں عام طور سے جو کھانا دیا جاتا ہے اسکا معیار بہت خراب ہوتا ہے۔ملک کی جیلوں میںان کی گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں‘ جگہ پچپن ہزار قیدیوںکی ہے جبکہ77ہزار لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح بند ہیں۔کچھ سال پہلے مجھے بلوچستان میں قلات کی جیل اندر سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ وہ باقاعدہ جیل کی بجائے ایک بڑی سی حوالات تھی ۔ شدید سردی میںقیدی ٹھنڈی برف زمین پر رہنے پر مجبور تھے۔ایسا سلوک تو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ جیل کی سختیاں عام‘ کمزور لوگوں کے لیے ہیں۔ جو امیر ہیں‘ با اثر ہیں‘ا عادی مجرم ہیںوہ جیلوں میں بھی عیش کررہے ہیں۔ میرے ایک دوست سینئر پولیس افسرتھے اورمختصر عرصہ انسپکٹر جیل خانہ جات رہے۔ وہ بتاتے تھے کہ جیلوں میں بے تحاشا کرپشن ہے۔ منشیات کا کاروبار‘ جسم فروشی عام ہے۔یہ سب ناجائز کام اتنے منظم انداز سے ہورہے تھے کہ وہ خود کو بے بس تصور کرتے تھے‘ جلد تبادلہ کرواکے وہاں سے نکل گئے۔ جیلوں میں ہرجائز ‘ناجائز کام کرنے کی رشوت کا نرخ مقرر ہے۔ جیل حکام قیدیوں کو موبائل فون استعمال کروانے ‘ان کو عزیزوں‘ دوستوں سے ملاقات کروانے‘ گھریلو کھانا استعمال کرنے ‘ بیرکس کے دروازے رات بھر کھلے رکھنے اور منشیات خریدنے کے عوض رشوت وصول کرتے ہیں۔جو قیدی ماہانہ رشوت نہیں دیتے انہیں سزا کے طور پر ان کے رہائشی شہر سے دُور کی جیلوں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جیل حکام اپنے کارناموں پر پردہ ڈالنے کو سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حذف کروادیتے ہیں۔جیلوں میں پُرکشش آسامیوں پر تبادلوں‘ تقرریوںکے لیے افسر‘ اہلکاراعلی حکام کو رشوت دیتے ہیں۔ کچھ اہلکار اللہ کے نیک بندے بھی ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔ یُوں تو جیلوں کے معائنہ کا نظام بھی موجود ہے۔ معزز جج حضرات جیلوں کے دورے کرتے ہیں لیکن جب جیل اہلکاروں کی اکثریت کرپشن میں ملوث ہو تو انہیں کوئی کیسے پکڑسکتا ہے؟ معائنہ کے قت بظاہر سب حالات نارمل کردیے جاتے ہیں۔ جن قیدیوں کو رشوت کے عوض ناجائز سہولتیں مل رہی ہیں وہ حکام کی شکائت کیوں کریں گے؟پِس تووہ رہے ہیں جو رشوت نہیں دے سکتے۔ جیسے چھوٹ بچے یا معمولی جرائم میں سزا یافتہ قیدی یا وہ ملزم جنہیں ابھی سزا نہیں ہوئی بلکہ صرف عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا ہے۔ جو عادی مجرم ہیں‘ خطرناک قیدی ہیں وہ تو جیلوں میں نئے ساتھی بھرتی کرتے ہیں‘ نیٹ ورک بناتے ہیں اور موبائل فون پراپنے ساتھیوں کو ہدایات دیکر اپنے گروہ چلاتے ہیں۔ جدید دنیا میں جیلوں کو مجرموں کی بحالی مراکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کوئی شخص اگر جرم کرتا ہے تواسے معاشرہ سے دُور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ دوسرے انسانوں کو مزید نقصان نہ پہنچاسکے ۔ اصلاح پر مبنی انصاف کا تصور ہے کہ قیدی کے بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ آپ نے اس کی نقل و حرکت کی آزادی سلب کرلی لیکن اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ بحیثیت انسان و ہ محترم ہے۔وہ بہر حال انسانی برادری کا ایک رکن ہے۔ قیدی کی اصلاح کی کوشش کی جائے‘ اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے تاکہ جب وہ معاشرہ میںواپس جائے تو ایک سُدھرا ہوا انسان ہوجو اپنے اور دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہو۔ ایک چھوٹے موٹے جرم کا مرتکب شخص عادی مجرم نہ بنے۔ ایک مجرم کونفسیاتی علاج کے ذریعے جرائم پر مبنی سوچ سے نجات دلائی جائے۔ ہماری جیلیں تو اس کے بالکل اُلٹ کام کررہی ہیں۔ وہ کسی انسان کو بہتر بنانے کی بجائے اور زیادہ بگاڑ کر باہر بھیجتی ہیں۔ جو شخص قید کے دوران حکام کی بے تحاشا کرپشن دیکھتا اور برداشت کرتاہے ‘ وہ سماج کے بارے میں مزید منفی سوچ لیکر باہر جاتا ہے۔ مختلف حکومتوں کی جانب سے کئی بار دعوے کیے گئے کہ جیلوں کو جدید ترقی یافتہ ممالک کی طرح اصلاح کے مراکز بنایا جائے لیکن سب کوششیں شروع ہوتے ہی دم توڑ گئیں۔جب لاہور میں وسیع و عریض قطع اراضی پر کوٹ لکھپت جیل بنائی گئی تھی تو اسکا تصور جزوی طور پر ایک کھلی جیل کا تھاجہاں قیدی اپنی چکیوں سے باہر آکرجیل کے اندر ہی کھلی جگہ پرسانس لے سکیں گے‘ سگریٹ ‘ ڈرنکس اور کھانے پینے کی چیزیں خرید سکیں گے لیکن اس بنیادی مقصد کو ناکام بنادیا گیا۔ اگر قیدیوں کو قانونی طور پر یہ سب کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو جیل حکام رشوت کیسے وصول کرتے؟ اسی طرح لاہور میں مناواں اور سندھ میں بدین کے مقام پر کھُلی جیلیں بنائی گئی تھیں۔ ان دونوں جیلوں میںوسیع زرعی اراضی رکھی گئی تھی تاکہ قیدی ان پر کھیتی باڑی کریں ‘ تعمیری سرگرمیوں میں حصّہ لیں اور مفید شہری بنیں لیکن اس اسکیم کوبھی سبوتاژ کردیا گیا۔ پاکستان کی جیلوں دو تہائی قیدی وہ ہیں جن پر ابھی مقدمے چل رہے ہیں ‘ سزا نہیں ہوئی۔ ان میں سے بیشتر کو اگر ضمانت پرر ہا کردیا جائے تو جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ضمانت پر رہائی کی شرائط کو سخت بنایا جاسکتا ہے تاکہ وہ مقدمہ کے حتمی فیصلہ تک قانون سے تعاون کرتے رہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جیلیں عقوبت خانے اورجرائم کے مراکز بنی ہوئی ہیں ۔ انہیں اصلاحی مراکز بنانے کو عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم عمران خان نیا پاکستان بنانے‘ تبدیلی لانے کے وعدے کرکے اقتدار میں آئے ۔انہیں اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے اصلاح احوال کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں‘ صرف اعلانات نہیں۔وہ نئی جیلیں تعمیر کروائیں۔ ضمانت پر رہائی کے قانون کو بہتر بنائیں۔ جیل کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی تعداد بڑھائیں‘ جیل کے عملہ کی تنخواہیں بہتر بنائیں اوران کے احتساب کا نظام بہتر بنائیں تاکہ جیلوں سے رشوت خوری اور غیر قانونی سرگرمیوں کا سدباب ہو۔