روسی شاعر رسول حمزہ توف نے ایک بار ٹیگور کے بارے میں لکھا کہ رابندر ناتھ ٹیگور کی روح میں ایک پرندے نے جنم لیا تھا ، اس سے پہلے اس طرح کے پرندے کا کوئی وجود نہ تھااور اسی لیے جب انہوں نے اسے ادب کے میدان میں آزاد کیا تو دنیا پکار اٹھی یہ ٹیگور اور صرف ٹیگور کا پرندہ ہے ۔ مشعل کے پاس بھی ایک ایسا ہی پرندہ تھا، خالص اس کا اپنا پرندہ ۔جسے وہ ہر جگہ اڑائے پھرتی تھی۔ایک ایسا پرندہ جو اپنی پہلی اڑان کے خمار میں رہتا اور ہر اڑان ایسے بھرتا جیسے پہلی بار ہوا کے لمس سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ ایک ایسا پرندہ جس کی عمر کبھی بڑھتی نہ ہو ۔مشعل کے اندر ایسا ہی بچپنا تھا، بچوں جیسی سچائی اور بچوں جیسی معصومیت۔ مشعل بخاری اور میں نے تقریبا دس سال تک اکٹھے کام کیا۔ میں نے کبھی کسی کو مشعل کے ساتھ تلخ لہجے میں بات کرتے، اسے ڈانٹ پلاتے، اس کے ساتھ سختی یا بد تمیزی کرتے نہیں دیکھا۔ نو عمری میں بھی مشعل کی شخصیت ایسی باوقار تھی کہ اس کے ساتھ احترام سے پیش آنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بیس بیس سال کے سینئر بھی مشعل کے ساتھ کبھی بے تکلفی کی اس حد تک نہ جا سکے کہ وہ اسے ’’تم‘‘ کہہ کر بلاتے۔ اس کی شخصیت نے کبھی کسی کو اجازت ہی نہ دی کہ وہ اس کا احترام نہ کرے۔مشعل کی ہر وقت ساتھ رہنے والی ہم عمر سہلیاں بھی اس سے یوں پیش آتیں جیسے وہ ان سے دس سال بڑی ہو۔ اس کے باوجود مشعل کا بچپنا کبھی نہ گیا۔ ہم دوست اسے چڑا کے خوش ہوتے کہ وہ بچوں کی طرح ناراض ہوتی تھی۔ مگر چند ہی لمحوں میں بچوں کی طرح یوں مان جاتی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پر بچوں جیسی ضدیں ہوتیں ۔ ہم ہمیشہ مان تو جاتے مگر ابتدا میں انکار کر کے لطف لیتے۔ مثلا ایکسپریس نیوز کے بڑے نیوز سٹوڈیو میں بیک وقت تین یار چار اینکرز اپنی مخصوص پوزیشنز پر رہ کر بلیٹن پڑھتے ۔ مشعل کو لگتا کہ کچھ مخصوص جگہوں پر لائٹ اتنی اچھی نہیں کہ جتنی دوسری جگہوں پر ہے۔ اسے لگتا کہ ایک مخصوص جگہ پر وہ اُتنی خوبصورت نہیں لگتی جتنی کہ وہ اصل میں ہے۔ مشعل کو خوبصورت دکھنا بہت پسند تھا۔ میک روم میں وہ آخری وقت تک بنائو سنگھار میں مصروف رہتی۔ ہم اسے تنگ کرنے کے لیے سٹوڈیو میں پہلے سے جا کر اپنی پوزیشنز سنبھال لیتے اور اس کے لیے وہ جگہ چھوڑ دیتے جہاں اسے لگتا تھا کہ وہ اچھی نہیں دکھتی۔ مشعل سٹوڈیو میں آتی تو ایک ایک سے درخواست کرتی کہ اس سے جگہ تبدیل کر لے ، ہم سب باری باری اسے انکار کر کے لطف لیتے۔ مگر شاید ہی کبھی ایسا ہوا کہ مشعل کو سب نے حتمی انکارکر دیا ہو۔ پھر جب ہم میں سے کوئی اس کی بات مان جاتا تو بچوں کی طرح خوش ہوتی اور اسی شام کچھ منگوا کے کھلانے کا وعدہ کرتی ۔ مشعل کو خوبصورت دکھنا بہت پسند تھا مگر اس کے باوجود اس نے اپنے وقار اور کردار پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔مشعل میڈیا کی ماڈرن دنیا میں رہتی تھی مگر اس کے باوجود مولائی مزاج کی مالک تھی۔اس کی روح مذہبی تھی۔بات بات پر مذہبی حوالے دینے لگتی،علما کے بیانات سنتی تو اگلے دن آ کر بہانے سے ذکر نکالتی اور کشید کردہ پیغام دوسروں تک پہنچاتی۔ نجی زندگی میں اسے بعض پریشانیوں کا سامنا تھا مگر وہ کسی سے نہ کہتی ۔ ہمیشہ اس نے یہ بھرم بنا کے رکھا کہ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہے ۔ ہم ایک دو لوگوں سے مگر دل کی بات کہتی ،بالکل سہیلیوں کی طرح۔وہ بالکل الگ تھی ۔گاہے غصے سے بھر ی ہوئی آتی اور وجہ بتاتے بتاتے کسی بات پہ اچانک ہنس دیتی۔ زندگی کے آخری چند سال میں اسے امیر عباس کا ساتھ میسر آیا ۔ اپنی شادی کو بوجوہ اس نے عام نہ کیا۔ہمیں بھی تاخیر سے پتہ چلا مگر خوشی ہوئی کہ وہ بہت خوش تھی۔شادی کو چند ہی ماہ ہوئے کہ دانت میں درد رہنے لگا ۔ دانتوں کے ڈاکٹر کو دکھایا۔ پہلے ایک کو ،پھر دوسرے کو، پھر تیسرے کو۔ دسویں ڈاکٹر نے تشخیص کی زحمت کی اور بائیوپسی کرانے کا مشورہ دیا۔ بائیوپسی سے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ شوکت خانم میں علاج شروع ہوا تو ڈاکٹرز کو منہ کی سرجری کرنا پڑی۔ اس سرجری نے اس کے چہرے کی خوبصورتی کو متاثر کیا۔ دوست احباب اور خاندان کے لوگوں نے دلاسہ دیا کہ زندگی اور صحت سے بڑھ کے کچھ نہیں ۔ مشعل نے اس حقیقت کو تسلیم کیا۔ کینسر ایسے موذی سے بہادری سے لڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علاج کے مثبت نتائج نکلنے لگے ۔ کیمو اور ریڈیالوجی کا مرحلہ مکمل ہوا تو نئی رپورٹ بڑی حوصلہ افزا تھی۔ چند ہفتے پہلے مشعل سے بات ہوئی تو صحت کی بحالی کے بعد اسلام آباد آنے اور اپنی مصروفیات پھر سے شروع کرنے کا سوچ رہی تھی۔ مگر قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ ایک دن اچانک طبیعت نڈھال ہو گئی، رگوں میں خون کے بہائو کی رفتار کم ہونے لگی ، بلڈ پریشر پہلے بھی گر جاتا تھا اور اسے اسپتال لے جانا پڑتا تھا۔ اس بار اسپتال گئی تو ٹیسٹ کرانے پہ پتہ چلا ، بیماری لوٹ آئی ہے اور اس شدت کے ساتھ کہ پورے بدن میں پھیل گئی ہے ۔ مشعل مرجھا گئی، حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اندر سے وہ ویسے بھی بہت اللہ والی تھی۔ اللہ پہ ایمان اور شکر گزاری بیماری میں اور بھی بڑھ گئی تھی۔ بیماری کے دوران جب بھی مشعل سے بات ہوتی یوں لگتا کسی صوفی سے بات ہو رہی ہے۔ آخری ایام میں یوں لگتا تھا جیسے وصال یار کی متمنی اور منتظر ہو۔ زندگی کے کچھ مشکل اور کچھ بہت خوشگوار دن گزار کے مشعل چپ چاپ اس عارضی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ بہت سے دوستوں کو مشعل کی بیماری کا علم تک نہ تھا۔اس کے انتقال کی خبر بہت سوں کے لیے ایک دھچکے سے کم نہ تھی۔ جس جس سے بات ہوئی آبدیدہ تھا، یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو آج بھی مشعل بخاری مجھے ایک پرندہ بن کے یہاں سے وہاں اڑتی دکھائی دیتی ہے، پرندہ بھی اپنی الگ شکل کا ہے ، تھوڑا تھوڑا تتلی سے ملتا ہوا، تھوڑا تھوڑا فاختہ کے جیسا۔مشعل اپنی نوعیت کی بالکل الگ کردار تھی۔ ایسی مشعلیں شاید جلدی بجھ جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے اب جہاں جل رہی ہو گی وہاں بھی روشنی اور مسکراہٹیں بکھیر رہی ہو گی۔