اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا۔مجھ سمیت نہ جانے کتنے ذہنوں کو برسوں کی محبت اور تصورات کو مٹانا ہو گا۔ راجکمار،راجکماری کے حسین تصور کا خون کرنا ہو گا۔دھوکہ ہے یہ۔کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں۔ ننھے ذہنوں پر شروع کی دنیا ہی جھوٹی کر دی جائے۔ ان کے خیالات کی دنیا ہی دھوکے پر کھڑی ہو۔ ان کا زبردستی خوابوں اور خیالوں کی حسین وادیوں میں بسیرا کروا دیا جائے۔ ویسے، دنیا وہی حسین ہے۔ اپنے خیالوں کی، خوابوں اور حق حکمرانی کی۔ بہت سال پہلے، ایک روپے کا ایک رسالہ۔ ایک خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ ایک زبردست کہانی۔ جس کی ایک فرضی وادی میں نہ جانے کیا کیا کرشمے رونما ہوتے ہیں۔ ایک سفید گھوڑے پر نہ جانے کہاں سے ایک فرضی شہزادہ وارد ہوتا ہے۔کوئل کی سی خوبصورت آواز میں نہ جانے کہاں سے گنگناتے کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔ شہزادہ اس ایک آواز کے پیچھے پوری فرضی وادی کی خاک چھانتا ہے۔ بالآخر آمنا سامنا ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس فرضی وادی کے فرضی بادشاہ کی ایک فرضی راجکماری ہیں۔ اس پورے قصے میں 'راجکماری ' ہی اہم ہے۔ نرم و نازک کانچ کی طرح ، خوبصورت نقش، سفید رنگت، کوئل کی سی آواز، قدم اٹھانے پر جیسے جھرنوں کا گمان ہو۔ فرضی وادی کے تمام چرند پرند بھی اس کے گرویدہ۔ سیالکوٹ میں فردوس عاشق اعوان اور اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف کے درمیان رمضان بازار میں جو واقعہ پیش آیا،اس پر 'راجکماری 'نام میں پنہاں پوری کہانی یاد آ گئی۔چونکہ ذاتیات پر مبنی اس حالیہ سیاست میں راجکماری کا تصور فردوس عاشق اعوان نے متعارف کروایا، اس لئے ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ مریم نواز چونکہ ن لیگ کو لیڈ کرتی ہیں، بے پناہ اختیارات رکھتی ہیں، نواز شریف کی بات جسے پتھر پر لکیر کہا جائے وہ مریم نواز کے منہ سے ادا ہوتی ہے۔اپنی منشاء ہے تو کوئی بھی اعلان کرتی ہیں۔ اسی لیے تحریک انصاف کی رکن فردوس عاشق اعوان نے انکے لئے 'نقلی راجکماری 'کی اصطلاح متعارف کروا ڈالی۔ عوام کی نظروں میں آئے بنا مریم نواز کسی بھی شخص ، خواہ وہ پارٹی سے ہی تعلق رکھتا ہو، کیا سلوک کرتی ہیں۔ کسی سے کتنا اختلاف رکھتی ہیں۔ کبھی ایسے عیاں نہیں ہونے دیا جیسے فردوس صاحبہ نے سونیا صدف کے معاملے میں کیا۔ اس ایک واقعے اور ٹرولز کے ٹرینڈز نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اصل راجکماری کون؟ فردوس عاشق اعوان نے غلط کیا یا بالکل ٹھیک، اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ سونیا صدف ایک قابل افسر ہیں یا ان کا ریکارڈ ناقابل تعریف۔ اس بحث میں ایک بڑی تعداد مشغول ہے۔ چند پہلو ضرور قابل غور ہیں۔ واضح ہے، کسی ذاتی عناد پر یہ پورا کھیل رچایا گیا۔ ممکن ہے اے سی سونیا صدف نے دانستہ وہ غلطی کی ہو ،جس کی نشاندہی کے لئے فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے رمضان بازار کا پورا مجمع اکٹھا کیا۔ مگر ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھنے سے لے کر نوکری کی تنخواہ وصول کرنے کے سبھی طعنے ذاتی نوعیت پر مشتمل تھے۔ ہارتے ہوئے میچ کو حق میں کرنے کے لئے کپتان سمیت پوری ٹیم کو ایفرٹ کرنا پڑتی ہے پھر چاہے باؤلر ہو یا بیٹسمین۔ اس پوری ایفرٹ میں دے دھنا دھن کا فارمولا سراسر شکست کی صورت ہے۔ بیوروکریسی پہلے دن سے تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ ن لیگ اقتدار میں نہیں مگر آج بھی بیوروکریسی کی بڑی تعداد شریف خاندان سے وفادار ہے۔ سیالکوٹ کے اس ایک واقعے نے بیوروکریسی کو اور بھی سیخ پا کر دیا ہے۔ ردعمل بھی منطر عام پر آنے لگا ہے۔ حکومتی معاملات پہلے سے دگرگوں ہیں، جب کہ مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ سسٹم درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بیوروکریسی کے بغیر ممکن نہیں۔ کون کمبخت یہ کہتا ہے ان کو من مرضی کرنے دو۔ حکمت عملی بھی اپنائی جا سکتی ہے۔بیوروکریسی کو اپنے اعمال درست کرنے کے لئے پیغام دینے کا یہ طریقہ فلاپ آئیڈیا ہے۔ بیوروکریسی سے پہلے کپتان کا اپنا کھلاڑی عثمان ڈار اسسٹنٹ کمشنر کے حق میں سامنے آگیا اور ان کی قابلیت کا پیغام ٹویٹ کے ذریعے فردوس عاشق اعوان کو بھجوا دیا۔ اب اسلام آباد کے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر عثمان ڈار سیالکوٹ سے کیسے لا علم رہتے ہیں، فردوس عاشق اعوان نے بھی فورا حساب چکا دیا۔ زیر گردش ہے، وزیراعظم عمران خان مڈٹرم الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں، اسی لیے تو اسلام آباد کی سڑکوں پر عوام کا احوال جاننے ،بغیر پروٹوکول تشریف لے گئے۔ وزیر اعلی عثمان بزدار لاہور کی سڑکوں پر بغیر پروٹوکول دورے کرنے لگے ہیں۔ایک وقت میں پارٹی اندرونی اختلافات، گرتی معیشت، کرونا جیسے محاذوں کا سامنا ہے اور اب مڈٹرم الیکشن کی سوچ۔ ایسے میں ٹیم کی آ بیل مجھے مار کے مترادف شاٹس کیسے کامیاب ہونے دیں گی۔ سیالکوٹ کے اس سیاسی قصے میں راجکماری کا معاملہ پیچھے رہ گیا۔ میری تکلیف کی وجہ وہ ٹرولز ہیں، جنہوں نے ازخود کسی ایک سیاسی شخصیت کو اس خوبصورت ٹائٹل سے نواز دیا۔ کسی نے لکھا چونکہ فردوس صاحبہ نے اسسٹنٹ کمشنر کی کلاس کر دی اور عوام کو احساس دلایا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ اس گرمی میں کھڑے ہیں۔ کسی کو فورا چینی دلائی اور کسی کی داد رسی کی۔ اس لئے وہ اصل راجکماری ہیں۔ کسی نے مریم نواز صاحبہ کے دل میں عوامی درد کو سراہا اور انہیں کے سر یہ تاج سجے رہنے کی اپیل کر دی۔ اب اس حالیہ بحث میں فردوس عاشق اعوان کو یا تو اصل راجکماری کا تاج اپنے سر سجانا ہو گا ورنہ مریم نواز سے نقلی راجکماری کا ٹائٹل بھی ہٹانا ہو گا۔ کیونکہ میں اپنے تصورات کی راجکماری کا خون کرنے کو تیار نہیں۔