مصباح الحق پاکستانی کرکٹ ٹیم کے نامور کھلاڑی اور کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان رہے ہیں۔ مصباح کی شناخت اور شہرت ظاہر ہے ایک کھلاڑی، سابق کرکٹر کے ہے۔ مصباح الحق صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ ایک اور حیثیت وہ عزم وہمت کا استعارہ بھی ہے۔سپورٹس سے دلچسپی رکھنے والے ایک اخبارنویس کے طور پر مصباح کا بطور کھلاڑی کیریکٹر اورمثبت رویہ اس پر لکھنے کی وجہ بن سکتا ہے، مگر مصباح کی جدوجہد اور پھر بلند مقام پانے کے بعدصبر، مستقل مزاجی اورمتانت سے ٹاپ پر ڈٹے رہنا زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے ۔ ایک ایسی کامیاب داستان (Success Story) جسے بار بار دہرانے کا جی چاہے۔ مصباح کرکٹ کی کلاسیکل اصطلاح کے مطابق جینٹل مین ہے۔سات سال تک وہ قومی ٹیسٹ ٹیم کا کپتان رہا، اس دوران دوسرے فارمیٹس میں بھی کپتانی کرتا رہا، مگر اس نے اپنی کپتانی کے لئے ٹیم میں کسی قسم کی سیاست یا گروپنگ نہیں کی، فرمائش پر سپورٹس رپورٹروں سے آرٹیکل نہیں لکھوائے، درحقیقت میڈیا کے ساتھ اس نے مناسب فاصلہ برقرار رکھا۔میچ فکسنگ کے حوالے سے بھی ا س کا دامن بے داغ رہا۔کبھی کسی کھلاڑی نے اس پر سیاست یا کسی قسم کی سازش کرنے کا الزام نہیں لگایا۔ بعض دوسرے بڑے کرکٹرز کا معاملہ اس کے برعکس رہا۔ کسی پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا شبہ ، بعض پر سازشیں کرنے اور اپنے گھر باغی کھلاڑیوں کا جتھا جمع کرنے کا الزام ، کوئی سٹے بازی کی لعنت سے پاک رہا تو سپورٹس جرنلسٹوں میں لابنگ کر کے اپنے حق میں اور اپنے مخالف کھلاڑی، کوچز کے خلاف کمپین چلانے کے مبینہ الزام لگائے جاتے رہے۔خوش قسمتی سے مصباح الحق ان تمام الزامات سے پاک صاف رہے۔ کرکٹ بورڈ نے انہیں بیک وقت چیف سلیکٹر اور چیف کوچ بنانے کا بڑا فیصلہ کیا ہے تو مینجمنٹ کے پیش نظر یہ نکات بھی یقینا رہے ہوں گے۔ مصباح الحق کا تعلق میانوالی جیسے پسماندہ علاقے سے ہے۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایسا نوجوان جس نے اپنی تقدیر خود بنائی۔ بیشتر پاکستانی کھلاڑیوں کے برعکس مصباح یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے باقاعدہ ڈومیسٹک کرکٹ میں آیا۔ چوبیس سال کی عمر میں اس نے ڈومیسٹک کرکٹ شروع کی اور تین سال بعد اسے ستائیس سال کی عمر میں پہلا ٹیسٹ کھلایا گیا۔ مصباح ابتدا میں ان آئوٹ کا شکار رہا، وہ اپنے کپتانوں اور کوچ کی گڈ بکس میں جگہ نہ پا سکا۔ یونس خان اور مصباح الحق کا کیریر تقریبا ً ایک ساتھ شروع ہوا۔ یونس خان کو بھی مسائل درپیش رہے، مگر وہ کوچ باب وولمر کی گڈ بکس میں آ گئے۔ وولمر نے انہیں بھرپور سپورٹ فراہم کی، یونس نے اپنی تکنیکی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے بے پناہ محنت بھی کی اور پاکستانی کرکٹ کے نامور بلے باز کے طور پر ابھرے۔ مصباح بدقسمت رہے۔ 2003ء سے 2007ء تک مصباح ٹیم سے باہر رہے۔ اس دوران انضمام الحق ٹیم کے کپتان تھے۔ معلوم نہیں انضمام کو پڑھے لکھے کرکٹروں سے کچھ نفسیاتی مسائل تھے یا کوئی اور وجہ ، مگر انہوں نے مصباح کو کھلانے سے گریز کیا۔ مصباح الحق اپنی کارکردگی کے اعتبار سے اگرچہ پوری طرح مستحق تھے۔ انضمام مصباح کے بجائے کبھی شعیب ملک جیسے کمزور ٹیسٹ بلے باز کو کھلا دیتے، کبھی وہ اس نمبر پر عبدالرزاق کو لے آتے، جن کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی تھی۔ انضمام الحق 2007ء کا ورلڈ کپ ہار کر آنسو بہاتے گرائونڈ سے رخصت ہوئے اور مصباح کو اس کے بعد مواقع ملنے شروع ہوئے۔ 2007ء کے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مصباح کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ ایک سینئر سپورٹس رپورٹر سے اس وقت میں نے پوچھا کہ مصباح پر سلیکشن کمیٹی کیوں مہربان ہوئی ہے؟جواب تھا ، ہمیشہ کے لئے جان چھڑانے کا پروگرام ہے۔یہ اور بات کہ مصباح نے اپنی غیرمعمولی کارکردگی سے ٹیم کو فائنل تک پہنچا دیا۔ اگرچہ فائنل میں ایک غلط شاٹ کھیل کر میچ ہرا دیا، مگر اس وقت تک وہ اپنی صلاحیت اور استعداد کو ثابت کر چکے تھے۔ مصباح اس کے بعد ٹیم میں رہے، اگرچہ ایک دو بار انہیں ڈراپ بھی کیا گیا۔ مصباح کو غلط طور پر2010ء کے دورہ انگلینڈ سے ڈراپ کیا گیا۔ یہ فیصلہ ان کی خوش قسمتی بن گیا کیونکہ اسی دورے میں سلمان بٹ، عامر اور آصف کی سپاٹ فکسنگ ثابت ہوئی ، اس سے پہلے شاہد آفریدی نے ٹیسٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے ساتھ سیریز ہونی تھی، بورڈ نے کئی ماہ سے ٹیم سے آئوٹ مصباح الحق کو کپتان بنا دیا۔جنوبی افریقہ کی مضبوط ٹیم کے خلاف کپتانی بڑا رسک تھا۔ مصباح نے دبائو کا مقابلہ کیا اور مسلسل کئی میچز میں نصف سنچریاں بنا کر اپنی پرفارمنس ثابت کر دی۔اگلے سات برسوں تک وہ ٹیم کے کپتان رہے۔ بطور کپتان مصباح کی بلے بازی متاثر کن رہی۔ پچاس سے زیادہ کی متاثر کن ایوریج سے انہوں نے رنز کئے ، جبکہ اس دوران ان کی عمر بھی چالیس سال سے تجاوز کرگئی ۔ مصباح کے کھیل کی دو تین چیزیں مجھے اچھی لگتی رہیں۔ انہوں نے دبائو کا ہمیشہ بڑی جرات اور ہمت سے مقابلہ کیا۔ ٹیم کمزور تھی، اکثر میچز میں مصباح کو ابتدائی اوورز ہی میں یوں کھیلنے آنا پڑنا کہ دس یا پندرہ رنز پر دو تین وکٹیں گر چکی ہوتیں۔ مصباح نے اس دبائو میں بہت سی اننگز کھیلیں کہ وکٹیں بھی نہ گریں اور ٹوٹل بھی اتنا ہوجائے کہ فائٹ کرنا ممکن ہو۔ اسی پریشر میں سو فی صد پرفارم کرنا ہی ’’مصباح فیکٹر ‘‘ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔ کپتان کے طور پر مصباح نے بہت سے میچز ایسے کھیلے جن میں یہ یقینی نظر آ رہا تھا کہ اس اننگز میں رنز نہ کئے یا یہ میچ ہار گئے تو کپتانی گئی اور ٹیم سے بھی ڈراپ کر دیا جائے گا۔ مصباح ہر بار سرخرو ہو کر نکلا۔ مصباح کی دوسری بڑی خوبی میڈیا کی شدید تنقید اور منصوبے کے تحت چلائی جانے والی منفی کمپین کو حوصلے اور صبر سے برداشت کرنا ہے۔ میڈیا پر جس قدر زہریلی تنقید ہوئی، جتنے رکیک حملے ہوئے، ان کا بار بار مذاق اڑایا جاتا رہا، اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر سپورٹس تجزیہ کار سمیع چودھری نے گزشتہ روز اپنے تجزیے میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کراچی، لاہور کی’’ کرکٹنگ رقابت ‘‘کی اصطلاح استعمال کی۔ یہ حقیقت ہے کہ مصباح کو لاہور کا رہائشی ہونے کی وجہ سے کراچی کی مخصوص کرکٹ لابی نے بڑی بے رحمی سے ہدف بنایا۔ ایک نجی سپورٹس چینل سے وابستہ تجزیہ کاروں، سابق کرکٹروں نے تو حد کر دی۔ مصباح کا بے حد عامیانہ انداز میں مذاق اڑایا جاتا رہا اور ان کی تذلیل کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیا۔ سکندر بخت اس میں ہمیشہ پیش پیش رہے، جو اپنے انتہائی متعصبانہ تبصروں اور زہریلے جملوں کے باعث اب توقیر کھو بیٹھے ہیں۔ ایک اور سپورٹس اینکر دانت نکوس نکوس کر ناظرین کو یاد دلاتے تھے کہ مصباح کی عمر اکتالیس سال تین ماہ بیس دن ہوگئی ہے ۔ یہ حقیقت بھول جاتے کہ اس عمر میں اگر وہ سب سے زیادہ رنز کر رہا ہے تو تعریف کرنی چاہیے یا مذاق اڑایا جائے؟ مصباح کی خوبی یہ ہے کہ جواب دینے کے بجائے اپنے کھیل پر فوکس رکھا۔ تیسری بڑی خوبی مثبت سوچ اور سلیقے سے ٹیم کو چلاناتھا۔ سات سال تک وہ ٹیم کے کپتان رہے، ایک سکینڈل بھی سامنے نہیں آیا۔کسی نوجوان کھلاڑی نے کپتان پر تلخ کلامی یا تندزبانی کا الزام نہیں لگایا۔ یہ شکوہ نہیں آیا کہ منظور نظر کھلاڑی کھلائے اور مستحق کھلاڑیوں کو موقعہ نہیں ملا۔ اپنی تعلیم اور سمجھ بوجھ کا بھرپور استعمال کیا اور کسی کوچ سے مسئلہ بھی پیدا نہیں کیا۔ اس کالم میں چونکہ مصباح فیکٹر کا تذکرہ کرنا مقصود تھا، وہ مثبت پہلو جن کے باعث ایک عام گھرانے کے کھلاڑی نے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس لئے مصباح کی خامیوں پر بات نہیں کی۔ ہر کھلاڑی کی طرح ان کے کمزور پہلو بھی تھے۔ مصباح بعض اوقات ضرورت سے زیادہ دفاعی سوچ اپنا لیتے تھے۔ اگرچہ انہیں پاکستان کی تیز ترین ٹیسٹ ففٹی اور سنچری بنانے کا اعزاز حاصل ہے، مگر مسٹر ٹُک ٹُک (Tuk Tuk)کا عوامی خطاب بھی انہی کے حصے میں آیا۔ مصباح نے نئے کھلاڑیوں کو مواقع دینے سے گریز کیا اور زیادہ تر مواقع پر تسلیم شدہ کھلاڑیوں کو آزماتے رہے، چاہے وہ شعیب ملک جیسے اوسط کھلاڑی کیوں نہ ہوں۔ ماڈرن کرکٹ میں جارحانہ انداز ایک طے شدہ خوبی بن گیا ہے۔ مصباح کو ابھی یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کے اندر کہیں ایسا جارحانہ انداز پوشیدہ ہے، جو اب تک سامنے نہیں آ سکا۔ مصباح الحق کو پسند کرنیو الے ایک کرکٹ شائق کے طور پر مجھے خدشہ ہے کہ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کا بوجھ مصباح الحق کے لئے کچھ زیادہ نہ ہوجائے۔ مصباح کے پرانے مخالف ابھی سے پر تول چکے ہیں، نت نئے زاویوں سے زہریلے جملے اور طنز کے تیر تیار ہو رہے ہیں۔ یہ خاصی طاقتور لابی ہے جس کے شر سے محفوظ رہنا آسان نہیں۔ پاکستان کو اگلے ایک سال میں کئی بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ آسٹریلیا سے آسٹریلیا میں، نیوزی لینڈ سے نیوزی لینڈ ، انگلینڈ سے انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز کھیلنا ہیں۔ پاکستان کی ٹیم ٹیسٹ میں خاصی کمزور ہے۔ ان بڑے چیلنجز سے مصباح الحق کس طرح نبرد آزما ہوں گے، یہ ہم سب دیکھنا چاہیں گے۔ مجھے امید اور توقع ہے کہ’’ مصباح فیکٹر ‘‘ان کا معاون ثابت ہوگا۔ اللہ ان کا حامی وناصر ہو۔ ان کی کامیابی صرف پاکستانی کرکٹ ٹیم کو عروج پر نہیں لے جائے گی، بلکہ ہر کامیابی قوم کا مورال بھی بلندکرے گی۔