نبی کریم ،سید المرسلین ،خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اہل ایمان کے لئے اللہ جل شانہ کی طرف سے سب سے بڑی نعمت اوراحسانِ عظیم ہے ،ارشاد باری ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا تا اوران کاتزکیہ فرماتا اورانہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے ۔‘‘(آل عمران :164) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے تاکہ کتاب و حکمت کی روشنی میں انسانیت اپنے مقام کو پہچانے اورآخرت کی طرف متوجہ ہوکر ابدی زندگی سے سرفراز ہوسکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کی طرف اس لئے بھیجا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سنائیں اور اپنے معجزات انسانیت کے سامنے پیش کریں اور انسانیت کو اس کی حقیقت سے روشناس کرائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت ہی اہل ایمان نے مادی آلائشوں سے پاک صاف ہوکر روحانی زندگی کے اعلیٰ مراتب کو حاصل کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی روشنی کی کرن کی مانند مستقیم اورہر کجی سے محفوظ تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استقامت کی تمام ممکن الحصول بلندیوں کو چھوکر اس معراج تک پہنچے ، جس کے بعد صرف خدائی صداقت ہی تھی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہان ِصداقت میں قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْأَدْنَی (النجم:9)کے افق تک جاپہنچے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری نہ ہوتی اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائِ سابقین کی دعوت کا احیائِ نونہ فرماتے تو ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی تجلی نہ ہوتی اور ہم کفر ، گمراہی اورجہالت کے صحرائوں میں سرگرداں رہتے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی پر حکمت انداز میں ہر شخص سے اس کی ذہنی اورنفسیاتی سطح کے عین مطابق گفتگو فرماتے ، جس کا یہ اثر تھا کہ جب وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھتا تو اس کا دل اطمینان اورایمان سے لبریز ہوتا۔ مختلف قسم کے توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اپنے مقصدو ہدف میں سستی کا مظاہرہ نہ فرمایا۔ دعوت و تبلیغ کا یہ انداز صرف انبیائِ کرام علیہم السلام کا ہی طرہ امتیاز ہے ۔ غیر نبی میں اس کا مکمل طور پر پایاجانا ناممکن ہے ، کیونکہ عام طور پر غیر نبی میں ایسے مواقع پر کسی نہ کسی حد تک دل شکنی اور رنجیدگی دیکھنے میں آتی ہے ۔ انبیائِ کرام علیہم السلام کے سوا دیگر مبلغین اورداعی حضرات جس قدر بھی پختہ کار کیوں نہ ہوں، ان کے دل میں اپنی دعوت پر ثمرات کے مرتب ہونے کی خواہش ضرورہوتی ہے اور جب دعوت کے خاطر خواہ نتائج نہ ہوتے تو وہ کبیدہ خاطر اورنامید ہوجاتے ہیں۔ یہ انبیائِ کرام علیہم السلام کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ وہ اس طرح کے احساسات سے محفوظ ہوتے ہیں۔ دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوۂ احد میں المناک حادثات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجو د آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبیدہ خاطر ہوئے اور نہ ہی رنجیدہ ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لہولہان چہرئے اقدس کے ساتھ اپنے ہاتھ بارگاہ ِالٰہی میں بلند فرماکر یہ دعا فرمائی :’’اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت نصیب فرما ، کیونکہ وہ جانتی نہیں۔‘‘اسی کا نتیجہ تھا کہ جب قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سرنگوں ہوئی تو اس نے اپنی جانیں نچھاور کردیں ۔دعوتِ نبوی کا نمایاں پہلو فراست ہے ۔بہ قول شیخ فتح اللہ گولن ’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا ایک پہلو فراست بھی ہے ، لیکن یہاں فراست سے خشک منطقی اسلوب مراد نہیں ،بلکہ ایسا منطقی اسلوب مراد ہے ، جوظاہر و باطن اور دنیا و آخرت پر محیط ہو۔ جس طرح انسان کی زندگی کا ایک جذباتی پہلو ہے ، اسی طرح اس کی زندگی کا پہلو منطقی طرز فکر بھی ہے ۔ جو لوگ صرف انسانی جذبات واحساسات کو پیش نظر رکھ کر انسان کو مخاطب بناتے ہیں ، انھیں بعض اوقات انسان کے منطقی طرز فکر کو نظر انداز کرنے کے باعث ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسان کے حواس ،عقل اوروجدان سب کو بیک وقت پیش نظر رکھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسا ن کو مخاطب کرتے وقت حسی اورمادی اشیاء کو نظر انداز کرنے کی بجائے انہیں اس کی روح تک پہنچنے کے ذریعے کے طور پر استعمال فرماتے ۔ ‘‘ جس طرح زندگی کے کسی دوسرے شعبے میں سیدنامحمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبے کو نہیں پہنچا جاسکتا ، اسی طر ح فراست کے معاملے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمسری ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خداداد بصیرت کے ذریعے اپنے دشمنوں پر غلبہ پاکر انھیں اپنا مطیع و فرمانبردار بنایا، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتوں کی طرف اپنی انگلی اٹھاکر فرماتے ،تم لوگ ان پتھروں ،لکڑیوں اور مٹی سے کیا توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مخاطب سے اس کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کرنے کے بعد اسے غیر معمولی انداز میں اور بسا اوقات معجزاتی طور پر اپنے دل کے قریب لے آتے اورپھر دھیرے دھیرے اسے ایمان کے رنگ میں رنگ کر ایمان کی چاشنی چکھاتے یہاں تک کہ بالآخر اس میں ایک نئی شخصیت جنم لیتی، جس کا نصب العین صرف آخرت کی زندگی ہوتا۔ لہٰذا عصر حاضر میں جن لوگوں نے بھی انبیائِ کرام علیہم السلام والی دعوت و تبلیغ کو سر انجام دینے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے انھیں اخلاص کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ، کیونکہ کلام کی تاثیر کا مدار صرف گفتگو کی فصاحت وبلاغت پر نہیں ہوتاہے ، بلکہ متکلم کے اخلاص وللہیت کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہوتاہے ۔ قرآن کریم میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاگیا ہے ۔ :’’اے میری قوم !پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسوں کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اوروہ سیدھے راستے پر ہیں۔‘‘ (یٰسین:21)یعنی ان انبیائِ کرام علیہم السلام کی اتباع کیجئے جو رشد و ہدایت اوراخلاص وللہیت کی معراج پر پہنچے اور کسی دنیوی منفعت کے طلبگار نہ ہوئے ۔ اللہ رب العزت ہمیں سیرتِ مقدسہ پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرمائے۔