جرنلزم میں سینماٹو گرافی کا مضمون پڑھنے کے باوجود ، فلموں کی تکنیک وغیرہ کے بارے میں میرے معلومات واجبی سی رہی ہیں۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ کے سینما گھر صمد ٹاکیزکے سامنے سے گزرنا بھی ہمارے گھر کے بزرگ ایک ایسا جرم گردانتے تھے ، جس کی تلافی ممکن نہیں تھی۔ اس سڑک سے بس جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی گزرنا پڑتا تھا ۔ کہیں کسی جان پہچان یا محلے والے کی نظر پڑ گئی اور اس نے گھر والوں کو بتایا تو آسمان ٹوٹ جائیگا۔ بالی ووڈ کی کلاسک فلموں، دو بیگھہ زمین ، مدر انڈیا یا بوٹ پالش وغیرہ سے میرا واسط تو دہلی آنے کے بعد ہی پڑا اور معلوم ہوا کہ یہ کتنا طاقتور میڈیم ہے۔ 2010میں فلسطین اور اسرائیل کے دورہ کے دوران غازہ سرحد پر واقع اس ملک کے شہر نگار یعنی سدیرات شہر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں ایک فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے، ہماری گائیڈ نے اس فلم کے نوجوان یہودی پروڈیوسر اور ہدایت کارکو متعارف کرکے بتایا کہ وہ سیاسی و سماجی نظام کو اپنی فلموں کا موضوع بنارہے ہیں۔ ہاں یہ وہی فلم ساز نداو لیپڈتھے، جنہوں نے پچھلے دنوں بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کی طرف سے فلموں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر ایک ایسا زور دار طمانچہ مارا کہ اس کی گونج کئی برسوں تک بالی ووڈ اور بھارتی ایوانوں میں گونجتی رہے گی۔ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (IFFI) میں بین الاقوامی جیوری کی سربراہی کرتے ہوئے انہوں نے بھری محفل میں وزیروں کی موجودگی میں مودی حکومت کے ایما پر بنائی گئی فلم کشمیر فائلز کو ’’بیہودہ‘‘ اور پراپیگنڈا‘‘ والی فلم قرار دیا۔ سدیرات شہر کا آرٹ اور فلم کے حوالے سے اسرائیل میںوہی مقام ہے، جو بھارت میں ممبئی یا پاکستان میں لاہور کا ہے۔ اس شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں لیپڈ ہمیں بتا رہے تھے کہ وہ اپنی فلموں کے ذریعے اسرائیلیوں کو بتانا چا ہ رہے ہیں کہ ان کے لیونگ رومز میں ایک بہت بڑا ہاتھی سماجی ناانصافی اور عدم مساوات کی شکل میں داخل ہو چکا ہے ، جس کا تدارک کرنا پڑیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کا احاطہ کرنے کے نام پر اسرائیلی فلم ساز فلسطینیوں کو ایک کردار کے روپ میں پیش کرکے تختہ مشق بناتے ہیں، جیسے بس وہی ان کے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ جب اسرائیلی آئینے میں دیکھتے ہیں تو انہیں بس فلسطینیوں کا عکس نظر آتا ہے اور اس دوران وہ اپنا عکس دیکھنا بھول جاتے ہیں، جو وہ ان کو اپنی فلموں کے ذریعے دکھانا چاہتے تھے۔ اس سال ساحلی صوبہ گوا میں منعقد بین الاقوامی فلم میلہ کے مقابلہ میں 15فلمیں پیش کی گئی تھیں۔ لیپڈ کا کہنا تھا کہ 14فلمیں تو معیار اور تکنیک پر پوری اتر رہی تھیں ، مگر آخری فلم ، کشمیر فائلز جس کو سرکاری دبائوکی وجہ سے شامل کیا گیا تھا، اس باوقار میلہ کے وقار کے منافی تھی۔ گو کہ کشمیر فائلز 1990 کی دہائی میں کشمیر سے مقامی ہندو آبادی یعنی پنڈتوں کی ہجرت کی داستان پر مبنی ہے، مگر اس میں پوری مقامی مسلمان آبادی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں اس فلم کی اسکریننگ کے بعد کئی جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات بھی پیش آئے۔ تل ابیب میں پیدا ہونے والے اور پیرس میں مقیم 47 سالہ فلمساز کے تبصرے نے تو جیسے ایوانوں میں آگ لگا دی۔تبصرہ کرنے والا اسرائیلی اور یہودی تھا، اسلئے اسکو سازش کے زمرے میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا تھا ۔ مگر ہندو قوم پرستوں کی ٹرول آرمی نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی سفارت خانہ پردھاوا بول کر ایسا دبائوبنایا کہ اسرائیلی سفیر ناور گیلون کو معافی مانگنا پڑی اور اپنے ہی ملک کے فلم ساز کو تنقید کا نشانہ بنانا پڑا۔ یہ شاید پہلا موقع ہوگا جب کسی ملک کی حکومت کو اس طرح سامنے آکر ایک فلم پر تبصرہ کیلئے معافی مانگنا پڑی ہوگی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے ہی ایک سخت پیغام تل ابیب کواور سفارت خانے کودیا گیا ۔ ان کو بتایا گیا کہ فلم پر اس طرح کے تبصرہ کو ’’غیر دوستانہ‘ قدم تصور کیا جائیگا، جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑے گا۔ ایک سفارت کار کو ایک فلم ساز کے بیان کیلئے کٹہرے میں کھڑا کرنا شاید دنیا کی سفارتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا۔ اس متنازعہ فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار وویک اگنی ہوتری ا ور ایک اداکار انوپم کھیر نے تو اسکو یہودیوں کے ہولوکاسٹ سے جوڑ لیا۔ انصاف تو یہ ہے کہ 30سال کے عرصہ میں 250افراد کی ہلاکت کیسے ہولوکاسٹ یا جینوسائڈ کے زمرے میں ڈالی جاسکتی ہے؟ اسی دوران پھر جو ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمانجاں بحق ہو چکے ہیں، ان کو کس زمرے میں ڈالا جائیگا۔ مودی حکومت کی ایما پر اسرائیلی سفیر نے لیپڈ پر الزام لگایا کہ اس نے بھارت کی مہمان نوازی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ سفیر کو برسرعام کہنا پڑا کہ فلم پر لیپڈ کی سخت تنقید اس کے اسٹاف کیلئے خطرہ بن گئی ہے۔ مگر ایک عبرانی نیوز ویب سائٹ Ynet سے فون پر بات کرتے ہوئے لیپڈ نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ اس نے کہا جو کچھ اس فلم فیسٹیول میں ہو رہا تھا یا اس کے بیان کے بعد جو طوفان کھڑا ہوا ہے، وہ پاگل پن ہے۔ ان کی کہنا تھا کہ کشمیر فائلز ایک ایسی فلم تھی، جس کو چاہے حکومت نے نہیں بنایا ہو، مگر اس کو آگے بڑھانے میں سرکاری مشینری پیش پیش تھی، جو ایک بنیادی جواز فراہم کرتی ہے کہ کشمیر میں جاری بھارتی پالیسی میں فاشزم کا عنصر نمایا ں ہے۔ لیپڈ نے کہا یہ فلم پروپیگنڈہ، فاشزم اوربیہودہ پن کا بدترین امتزاج تھی۔ میں اسرائیل میں اس طرح کی فلم کا تصور نہیں کر سکتا ہوں۔ مگر اب یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس سے متاثر ہوکر کوئی اسرائیلی فلم ساز آئندہ ڈیڑھ دو سال میں کہیں ایسی فلم نہ بنا ڈالے۔ لیپڈ کا کہنا تھا کہ جیوری ممبر اور اسکے سربراہ کے بطور وہ حیران و پریشان تھے کہ اس فلم کو کیسے پینورما سیکشن کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی کہنا تھا وہ ایک فلم ساز کی حیثیت سے اس فیسٹیول میں آئے تھے نہ کہ اسرائیل کے نمائندے کے بطور۔ ’’اگر میں اسرائیل کی نمائندگی کرنا چاہتا تو میں سفارت کاری میں آ جاتا۔ مجھے اکثر اپنے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘‘ تل ابیب یونیورسٹی میں فلسفہ کی ڈگری اور لازمی فوجی خدمات انجام دینے کے بعد ادب کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وہ پیرس چلے گئے تھے۔ بعد میں انہوں نے یروشلم کے سیم سپیگل فلم اسکول سے سنیماٹو گرافی کی تعلیم حاصل کی۔ان کی فلمیں عبرانی زبان میں ہیں اور تمام اسرائیلی سیاست اور اس کے اندر کے تضادات کو نمایا ں کرتی ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ جب کہ آپ کی زندگی واضح طور پر آپ کے ملک کی سیاست سے متاثر ہے تو فلموں میں آپ کیسے ان کے بارے میں بات نہ کرکے صرف عشق و محبت وغیرہ کو ہی موضوع بنا سکتے ہیں۔سیاست یا انسداد دہشت گردی کے موضوع پر جو فلمیں اسرائیل میں بنتی ہیں، ان میں بھی بس فلسطینیوں کو ہی ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ (جاری ہے)