ایک: عمران خان نے حکومت سے نکل کر حکومت کو ایک دن چین لینے نہیں دیا۔ جونیجو،, بے نظیر ،,نواز شریف کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا۔شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی کو بیک بینی و دوگوش باہر نکالا گیا۔کہیں سے احتجاج نہ ہوا۔نواز شریف کو دو ہزار سترہ میں کئی الزامات کے تحت نااہل کیا گیا تو کئی خوش نما نعروں کے باوجود عوام میں ان کو پذیرائی نہ مل سکی جس کی وہ توقع کیے ہوئے تھے۔ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیا اور مقتدرہ کو چیلنج کیا۔بعض لوگ سمجھے یہ والا ایک نیا نواز شریف ہے۔ سیاہ صفحوں پر صفحے گواہ ہیں کوئی اسے نئی آواز سمجھنے لگ گیا۔نواز شریف نے سمجھا جیسے اسحاق خان سے اپنی حکومت برطرف کروا کر ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تھا، اب کے ووٹ کو عزت دو جی ٹی روڈ کا روٹ اور مقتدرہ کو چیلنج کرنا سود مند ہو گا۔ایک گروہ نے تو ن لیگ کے دو گروپ بنانے اور نواز شریف کو نظریاتی پارٹی کی سربراہی پر فائز کرنے کی تجویز بھی دے دی۔ان کو پارٹی میں کسی عہدے یا صدارت سے بلند چیز بنا کر پیش کیا۔ہمارے زمانے میں کیسے کیسے نابغے ہیں،جنہوں نے یہ باور کرایا کہ ایک نئے عہد کا آغاز ہو چکا۔اسے نظریات کا منبع بنایا اور سمجھا اور پروپوگیٹ کیا۔کوئی ان کے سابقہ کردار کو دیکھ کر کیسے یقین کر لیتا ہے کہ ان کے وجود کے خاکستر میں کوئی چنگاری ہے۔ دو: نواز شریف ترانوے میں اپنی حکومت ختم کروا کر اور ایک خاص قسم کے متنازع ججوں سے اسمبلی بحال کروا کر بھی اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ان کے دوبارہ ظہور کی وجہ بھی مقتدرہ ہی بنی کہ بے نظیر کے مقابلے وہ ایک تو صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ دوئم ابھی پیپلز پارٹی میں زرداری فکر کا احیا نہیں ہوا تھا۔جب پیپلز پارٹی میں زرداری انداز ِ فکر کی حکمرانی ہو گئی تو مقتدرہ کے لیے بے نظیر کم اور زرداری زیادہ قابل قبول ہو گئے۔یہ سب کچھ ہماری ماضی قریب کی تاریخ ہے کوئی عقدہ کشائی نہیں۔ جونیجو، شوکت عزیز یا ظفر اللہ جمالی میں کہاں بساط تھی کہ کوئی آواز نکالتے۔یہ اسی فکر کے نمائندے تھے، جس کی آج کل پرویز الہٰی نمائندگی کرتے ہیں۔ تین: یہ سب کچھ عمران خان کے لیے دو ہزار بائیس میں دستیاب نہیں تھا۔ایک طرف مقتدرہ اور دوسری طرف تیرہ چودہ جماعتوں کا اکٹھ تھا اور ایک طرف اکیلا عمران خان۔عمران خان نے جب اقتدار سے باہر آکر مقتدرہ کے اقدام کو ہدف تنقید بنایا تو خلاف توقع انہیں وہ پذیرائی ملی جس کی وہ خود شاید توقع اور امید نہیں کر رہے تھے۔پی ڈی ایم نے جس طرح بھی حکومت سنبھالی اب ان کے پاس وہ سب ذرائع موجود تھے جن کی مدد سے وہ عمران کو بیک فٹ پر لے جا سکتے تھے۔سب سے پہلے ان چودہ جماعتوں کی حمایت یا عمران کی مخالفت میں آدھی رات کو دروازے کھلوا کر ایک خاص نوع کا پیغام بھی بھیجا گیا۔اس نے اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز بھی صدر مملکت کو بھیجی تھی۔صدر نے اس ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل بھی کر دی۔سپریم کورٹ نے قاسم خان سوری کا آرڈر بھی خلاف آئین قرار دیا۔ پی ڈی ایم کے اٹھنے کے لیے یہ کافی تھا۔ان حالات میں سرکاری میڈیا بھی اس حکومت کے پاس تھے اور بھی بہت سارے میڈیا ہاوسز ان کی کھلے عام مدد کر رہے تھے۔حکومت خود جس الزام کی زد میں تھی اور جس کی وجہ سے ان کے کم وبیش تمام لیڈر آئے دن پیشیاں بھگتتے تھے وہی طریقہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔عمران کی بیگم اور اس کی ایک دوست فرح کا اس طرح نام لیا جانے لگا جیسے عوام یہ باور کر لیں گے کہ وہی کرپشن والا کام اس حکومت نے بھی کیا ہے۔بہت دن تک یہ دھول اڑتی رہی۔لوگوں نے دیکھا کہ دھول آہستہ آہستہ بیٹھ رہی ہے۔تب انہوں نے عمران کو دوسرے طریقے سے زیر کرنے کی کوشش کی۔فارن فنڈنگ کا کیس ایسے پیش کیا کہ یہی پٹاری ہے جس سے اب کچھ برآمد ہو تو ہو۔پیشیاں ہوئیں اور بالاخر اسے الیکشن کمشن نے آرٹیکل 63 ون پی کے تحت توشہ خانہ کیس میں نااہل کر دیا۔ جب نااہلی ہو گئی تو ہونا چاہیے تھا کہ حکومت چین سے بیٹھ جاتی۔یہاں گھڑی کے وہ قصے بیان کیے گئے کہ فرح گوگی سے اگر کچھ حاصل نہیں ہو سکا تو اس کیس میں اسے عوام کی نظروں سے گرا دیا جائے گا۔ اس کے علی الرغم عمران اپنی بیلٹ کس کر میدان میں اتر آیا۔نہ الیکشن کمشن نہ مقتدرہ سب کچھ جیسے اس کی نوک پا پر تھا۔ نو سیٹوں کا جوا حکومت کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھا بلکہ خود عمران کا ہر سیٹ پر الیکشن لڑنا ایسا وار تھا جس کو حکومت برداشت نہ کر پائی۔ایسا نہ کبھی پہلے ہوا تھا نہ کوئی اس کی توقع کرتا تھا۔ایک طرف اس کا جادو چڑھ کر بول رہا تھا دوسرا مقتدرہ بیک فٹ پر آ کر وہ کہہ رہی تھی جو نہیں کہنا چاہیے تھا اور جو آج تک نہ کہا گیا تھا۔وہ اپنی صفائی دینے کے لیے صحافیوں کے محتاج ہو گئی۔اس کی باڈی لینگوئج بھی چغلی کھا رہی تھی کہ سب اچھا نہیں ہے۔ اس پر مستزاد عمران نے سائفر کو بنیاد بنا کر امریکہ مخالف ایجنڈا ترتیب دیا اور مقتدرہ کو مخاطب کر کے بہت کچھ کہنا شروع کر دیا۔ داور ِ حشر مرا نامہ ِاعمال نہ دیکھ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں والی کہانی پرانی ہو چکی تھی۔اب پچھلے سات ماہ گواہ ہیں کہ وہ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہے۔کوئی لگی لپٹی نہیں علی الاعلان ایک جنگ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران نے مقتدرہ کے گھر نقب لگائی ہے۔ عمران کے خلاف پروپیگنڈا ہوا میں اڑ جاتا ہے چار: انتہا تو یہ ہے کہ جب مولانا فضل الرحمان سے یہ پوچھا گیا کہ عمران پر کوئی مالی بے ضابطگی کا الزام ہے یا وہ مالی طور پر کسی بددیانتی میں ملوث پایا گیا ہے تو فضل الرحمان کے پاس اس کی تصدیق کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اچے ٹبے شیراں ملے جل ملے مرغائیاں چارے کوٹاں موت نے ملیاں فضل کریں رب سایاں