امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے فرمایا ہے کہ اپوزیشن کا مضبوط اتحاد بننا جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔ گویا محترم نے یہ سوچ لیا ہے کہ مضبوط اتحاد بن گیا۔ حالانکہ مضبوط تو بعد کی بات ہے ابھی تک اتحاد بھی نہیں بنا۔ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے دونوں سربراہوں میں سے ایک بھی اتحاد کی سربراہی اور تاسیسی کانفرنس میں شریک نہیں ہوا۔ چلئے زرداری اور بلاول نہیں آئے‘ فریال تالپور ہی آ جاتیں ۔ اس کے بعد بھی اسے ’’اتحاد‘‘ہی نہیں مضبوط بھی سمجھنا اظہار حقیقت سے زیادہ اظہار امید لگتا ہے۔ زرداری صاحب شاید دو وجہ سے اجلاس میں نہیں آئے۔ ایک تو یہ کہ ان کا سامنا شہباز شریف سے ہوتا‘ جن کی اپنے بارے میں شبنم افشانی ایک بلوچ کے طور پر ان کے لیے ’’ناقابل فراموش‘‘ ہے۔ حالیہ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کہیں بھی مسلم لیگ کے لیے حریف نہیں تھی لیکن شہباز نے ہر جلسے میں اسی کو رگیدا اور تالیاں بجوائیں۔ دوسری وجہ یہ کہ دھاندلی سے پیپلز پارٹی کچھ خاص متاثر نہیں ہوئی۔ کراچی میں اس کی دو سیٹیں پی ٹی آئی کو چلی گئیں لیکن اس کے بدلے میں سندھ کی دو سیٹیں جی ڈی اے سے پیپلز پارٹی نے جیت لیں۔ چنانچہ مجلس عمل اور مسلم لیگ جس طرح رنجیدہ ہے‘ پیپلز پارٹی کی رنجیدگی اتنی سنجیدہ نہیں ہو سکتی۔ امید کم ہے کہ پیپلز پارٹی اس اتحاد کا کوئی موثر حصہ بنے گی۔ البتہ اس کی اصولی وابستگی برقرار رہے گی۔ موثر حصہ بننے سے گریز کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ ہر چند کہ آصف زرداری بمعہ اھالی موالی تا اطلاع ثانی صادق و امین قرار دیے جا چکے ہیں لیکن ان کے خلاف کئی معاملات ایوانہائے عدل و احتساب میں چل رہے ہیں‘ کچھ زیر التوا ہیں‘ کچھ زیر طبع ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی سے زیادہ متاثرہ تو جی ڈی اے ہے۔ اصل میں تو اسے دو ہی نشستوں سے محروم کیا گیا لیکن اس کے رنج و غم کی وجہ یہ دو سیٹیں نہیں ہیں۔ جی ڈی اے کے ایک تقدس مآب رہنما اپنے با اعتماد سندھی صحافیوں کو مزید اعتماد میں لے کر جو بات بتاتے ہیں‘ وہ ذرا آگے کی چیز ہے۔ ان کا شکوہ ہے کہ ہم چالیس سیٹیں جیت رہے تھے پھر پنجاب کے جھگڑے میںہم رگڑے گئے۔ جی ڈی اے اصل میں ناراض نہیں ہے‘ افسردہ ہے ۔ناراض ہو کر پھر وہ جائے گا کہاں‘ یہ سہانی چھیاں پائے گا کہاں۔ اس کا سندھ میں احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج اشتعال والا نہیں‘ انفعال والا ہے۔ ارباب وفا سے شکوہ بے وفائی ہے دو چار دن کی دہائی ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ہم‘ وہی ہماری حمد سرائی‘ فی الحال معاملہ بس اتنا ہے کہ ع خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ٭٭٭٭٭ اپوزیشن اتحاد کے بارے میں ذرائع کی خبر ہے کہ وہ بھر پور احتجاجی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے دھرنے بھی دیے جا سکتے ہیں۔ لیکن دھرنے آپ کو دینے کون دے گا جس دھرنے کے پیچھے انگلی نہ ہو‘ اس کی کامیابی معلوم۔ یہ تو آپ سوچئے بھی مت کہ آپ کو ایوانوں کے باہر دیواروں پر شلواریں ٹانگنے کی یا ٹی وی برآمدوں میں جلوس نکالنے کی اجازت ہو گی۔ دھرنے کی اصل کامیابی یہ نہیں کہ کتنے لوگ ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ ٹی وی پر کتنی کوریج ملتی ہے۔ خیر‘ صحافت پر اتنی پابندیاں بھی نہیں۔ آپ کے ’’ٹکر‘‘ تو چل ہی جایا کریں گے۔ لائیو کوریج کا تو البتہ کوئی سوال نہیں کہ آپ بہرحال وہ نہیں جن کا ’’ کھنگورا‘‘ بھی بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ ٹی وی نیوز روم میں بیٹھا نیوز پرسن اپنے رپورٹر سے کھنگورے کی لائیو اپ ڈیٹ لیتا ہے۔ اسے بار بار ری پلے کرتا ہے اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک چار چار ٹاک شو کرپشن کے خلاف جنگ میں کھنگورے کے اثرات‘ پر کئے جاتے ہیں۔ چند ٹکر آپ کے چلیں گے اس کے بل پر آپ دھاندلی کو رول بیک کرنے کی امیدرکھتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ امید پرست ہونا فانی بدایونی بننے سے بہتر ہے۔ ٭٭٭٭٭ جادو کی چھڑی والے موعودہ وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر کا پیکیج لینا ہی ہو گا۔ موصوف نے ماضی میں جادو کی چھڑی گھمائی تھی‘ بدقسمتی سے وہ الٹا گھوم گئی۔ اربوں روپے منافع کمانے والے کھاد ساز ادارے کو اربوں کا گھاٹا ہو گیا۔ امید ہے اس بار وہ چھڑی سیدھی گھمائیں گے ‘ کیا پتہ آئی ایم ایف کے پیکیج کی ضرورت ہی نہ رہے۔ لیکن جو خبریں آ رہی ہیں ان کے حساب سے یہ پیکیج ملک کی ضرورت ہو یا نہ ہو‘ پی ٹی آئی کی ضرورت بن چکا ہے، نہایت ضروری ضرورت۔ امریکہ اس پروگرام پر شرطیں لگائے گا جو پی ٹی آئی کے حسب دلخواہ ہیں یعنی بلی کے بھاگوںچھینکا ٹوٹا۔ یاد ہو گا ‘ سی پیک وہ کانٹا تھا اور ہے جو دلِ پی ٹی آئی میں کھٹکتا تھا اور ہے ۔امریکی شرطوں سے یہ کانٹا نکل جائے گا ایسا سبھی کہہ رہے ہیں اور لگتا بھی یہی ہے۔ الزام بھی پی ٹی آئی کے سر نہیں آئے گا‘ امریکی شرطیں مانے بغیر چارہ نہیں تھا کیا کرتے۔ آنے والے دنوں میں آزاد الیکٹرانک میڈیا پر دن میں چار چار ٹاک شو بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت‘ افادیت ‘ برکاتیت پر سنیں گے اور عش عش کریں گے۔ آئی ایم ایف ایک مقدس ادارہ ہے۔ جنرل ایوب خاں نے پاکستان کو اس کی تولیت میں دیا تھا۔ کسے خبر تھی کہ بعد میں نواز شریف جیسے غدار آقائیت‘ مولائیت کا یہ رشتہ ختم کرنے کی ناپاک کوشش کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب میں پی ٹی آئی اور قاف لیگ میں ’’ٹھاہ‘‘ ہو گیا سمجھوتے کو سندھی میں ٹھاہ کہتے ہیں۔ سمجھوتے کے مقابلے میں اس کی ادائیگی آسان بھی ہے اور میوزیکل بھی۔ قاف لیگ نے وزارت اعلیٰ مانگی تھی۔ خان صاحب نے کہا نہیں سپیکر شپ لے لو۔ قاف لیگ نے فوراً ٹھاہ مطلب ہاں کر دی۔ اصل میں خان صاحب نے جلدی کر دی ورنہ قبلہ پرویز الٰہی ڈپٹی سپیکر شپ پر بھی مان جاتے۔ کچھ عرصہ پہلے خان صاحب نے قبلہ کو پنجاب کا سب سے ’’ایماندار ‘‘آدمی قرار دیا تھا اس سے قبل وہ زرداری کو ایشیا کا سب سے ’’ایماندار‘‘ آدمی کہہ چکے تھے۔ وزیر اعلیٰ کے لیے جن صاحب کا نام آ رہا ہے سنا ہے وہ بھی بلا کے ’’ایماندار‘‘ ہیں۔ سپیکر اور وزیر اعلیٰ دونوں بلا کے ایماندار‘ قران السعدین ہی ہو جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ سابق آمر پرویز مشرف کی ایک ویڈیو لیک ہوئی ہے۔ سی آئی اے کے افسروں سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے خفیہ کوششوں سے اقتدار میں لائو۔ سی آئی اے کے اس اجلاس میں امریکی یہودی تنظیم کے کچھ اعلیٰ عہدیدار بھی تشریف فرما تھے۔ ایک دو عشروں سے ان کی ہمارے ساتھ خیر سگالی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ بہرحال یہ ویڈیو کئی مہینے پرانی ہے۔ سی آئی اے نے التجا منظور نہیں کی۔ انہیں نعم البدل مل گئے ہیں۔ نعم البدل یعنی مشرف سے بھی اچھے‘ زیادہ کارآمد‘ زیادہ قابل اعتماد اب ہم زیادہ اچھوں کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مختلف شہروں کا کچرا کنڈیوں سے مہر لگے ووٹوں کے بنڈل‘ تھدے کے تھدے برآمد ہو رہے ہیں۔ پشاور کی تو ایک لیٹرین سے بھی ایسے تھیلے نکلے ۔کراچی کا ایک سکول بھی اس حوالے سے مشہور ہوا۔ کچرا کنڈیوں کا یہ نیا استعمال ہے۔ یوں ووٹ کو عزت دو کے مطالبے پر بھی عمل ہو گیا ۔تمام برآمد ہونے والے ووٹ پی ٹی آئی کے مخالفوں کے تھے اسے محض حسن اتفاق کہا جا سکتا ہے۔