سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا میں جانتا ہوں دونوں لوگوں کو ایک نے دوسروں کے لئے خود کو وقف کر دیا اور دوسرا وہ کہ اخوت کا مطلب عملی طور پر سمجھایا۔یہی دوسرا آدمی اول نمبر ہے جس نے ایسا خواب دیکھا کہ زندگی کو اس خواب کی تعبیر بنا دیا۔دونوں سے ایک تعلق خاطر ہے سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا۔ میں کوئی بجھارت نہیں ڈال رہا کہ یہ لکھنا مجھ پر قرض تھا اخوت کے لئے جس کا دوسرا نام ڈاکٹر امجد ثاقب ہے۔ سعدی یاد آئے۔ کمال ہم نشیں در من اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم وہ اسی خانوادہ سے ہیں جنہوں نے وطن کی منڈیروں پر چراغ جلائے۔ ڈاکٹر عبدالرشید صاحب نے فائونٹین ہائوس کی داغ بیل ڈالی، ڈاکٹر ہارون رشید نے اس کو چار چاند لگا دیے فی الحال تو میرے پیش نظر اخوت ہے اور اس کے بارے میں لکھنا سچ مچ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے یاددہانی کا خط بھیجا ہے یا مجھے اپنی خوشبو بھیجی ہے۔ اخوت والوں کا کام دیکھیں تو بندہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔بیورو کریسی کو خیر باد کہہ کر خیر کے کام میں جت جانے والا عام آدمی نہیں ہو سکتا بلکہ چنیدہ لوگوں میں ہو سکتا ہے خادم تو ایسے ہوتے ہیں جن کے دم قدم سے دنیا میں آس آنکھوں میں روشنی بھر دیتی ہے۔ میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت کے لئے کوششوں پر کتاب پڑھی تو میری آنکھیں بھیگتی گئیں۔ یہ کونپل ہمارے سامنے تناور بنی اقبال نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ اس موقر تنظیم کا 2001ء میں آغاز اس عزم کے ساتھ کہ معاشرے سے غربت ختم کرنی ہے۔ کمال تو یہ کیا کہ لوگوں کو بھکاری نہیں بنانا بلکہ انہیں کمانے کے قابل بنا کر عزت دار شہری کے مقام پر لانا ہے۔ اس میں برکت تو پڑنا تھی کہ نیت صاف تھی اور پاکیزہ روایت کا پاس تھا ۔اسے مواخات کے تابع رکھنا ہے اسی لئے یہ ثمر بار ہوئی ہم تو ڈاکٹر صاحب سے پوچھیں گے کہ: اس محبت نے تمہیں کیسے ثمر بار کیا میں کہ خود اپنا نہیں اور تمہارے سارے یقینا اب اخوت حمیت کی ایک تحریک بن چکی ہے۔یہا پنے سفر پر رواں دواں ہے کہ اس میں منزل پیش نظر نہیں کہ مقصود رضائے الٰہی ہے۔ بندہ سوچ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ آج تک یہ تنظیم پینتالیس لاکھ لوگوں کو قرض دے چکی ہے اور کمال یہ کہ یہ سود سے پاک قرض ہے۔ اللہ کی رحمتیں ایسے ہی نہیں اترتیں۔ اخوت خدمت کی دوسری خدمات بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔جن میں صحت کے حوالے سے چیزیں ہیں۔ خوراک کی فراہمی کپڑے اور اس قسم کی اور خدمات شامل ہیں۔ سب سے اہم مفت تعلیم ہے۔ ہاں یہ بھی بتا دوں کہ سود سے فری جو قرضہ ہے وہ 130بلین روپے ہے۔ان کی اخوت یونیورسٹی بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے جہاں مفت اعلیٰ تعلیمی غریب بچوں کو دی جا رہی ہے ظاہر یہ سارا کام لوگوں کے تعاون اور ان کے دیے گئے اعتماد کی بنیاد پر ہی ہو رہا ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ میں خود بھی ان اداروں کو اپنی بساط کے مطابق اعانت کرتا ہوں۔ الخدمت ،غزالی ،فائونٹین ہائوس شو،کت خانم اور اخوت یہ سب ادارے پاکستان کا فخر ہیں۔ میرا خیال ہے فائونٹین ہائوس کو بھی ڈاکٹر امجد ثاقب دیکھ رہے ہیں۔ آپ ذرا وہاں وزٹ کر کے دیکھیں کہ کتنا کام ہو رہا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ہارون رشید صاحب کے ساتھ ہماری دوستی تھی کہ وہ وہاں مشاعرے بھی کرواتے کہ وہ انتہائی باذوق شخص تھے۔ ذہنی مریضوں کو وہ صحت مند سرگرمیوں میں لاتے۔ شہزاد احمد خالد احمد ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اور راقم ان ادبی نشستوں میں جاتے۔ آپ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایسے لوگوں کو یہاں سنبھالا جاتا ہے جن کے اپنے بھی انہیں نہیں رکھتے ،مجھے یاد آیا روحی بانو بھی محفلوں میں موجود ہوتی تھی۔ ایک اور کام جو فائونٹین ہائوس والوں نے کیا وہ خواجہ سرائوں کو عزت نفس جیسا انعام دینا ہے۔ ان کو باقاعدہ وہاں دعوت دی جاتی ہے ان کی مدد تو ایک طرف انہیں مختلف فنون میں کارآمد بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کو فوڈ پیکیج دیا جاتا ہے ان کے ساتھ عید منائی جاتی ہے۔ میں نے خود کچھ تقاریب میں تھا۔ اپنی عزت افزائی پر کچھ خواجہ سرا اشک بار ہو گئے یقین کیجیے ایسے ہی شعر موزوں ہو گیا: سب لوگ ہی دنیا کے لئے مرتے نظر آتے ہیں انسان وہی ہیں کہ جو اوروں کے لئے جیتے ہیں اخوت کے لوگوں کے نیچے تین الفاظ نے ان کا منشور واضح کر دیا ہے کہ ایمان‘ احسان اور اخلاص اور وہ کہتے ہیں کہ کسی کی آس ٹوٹنے نہ دیں۔بس یہی بات ہے کہ وہ بلا سود قرض دیتے وقت قرض لینے والی یا والے کی عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ امجد صاحب بتا رہے تھے کہ الحمد للہ قرض واپسی 99فیصد ہے کتنے ہی لوگ ہیں جو اس امداد پر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے یہی بات تو ہم حکومت کے گوش گزار کرتے ہیں کہ طعام گاہوں اور آرام گاہوں سے کام چور لوگ بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں میں نیت پر شک نہیں کر سکتا بہتر ہے لوگوں کو چھوٹا موٹا کام کرنے کے لئے قرض مہیا کر دیا جائے۔