کیا ہم سچ مچ اتنے پھوہڑ ہیں کہ دو اکھرنہیں لکھ سکتے۔ مرا ایک طویل عرصے سے یہ خیال ہے کہ ہم قانون سازی میں پھٹیچر ہیں۔ یہ میں کوئی اسلامی تاریخ نہیں بتا رہا۔ بہت سی تحریری قانون سازی کی ابتدا مسلمانوں کے ہاں ہوئی ہے حتیٰ کہ بقول ڈاکٹر حمیداللہ کے میثاق مدینہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے۔ خلافت راشدہ ہی کے زمانے میں ہم نے اس میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ ہماری فقہ کے سارے دبستاں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ ہم اس فن میں کیسے ماہر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ میں نے اس لئے ترتیب دیا ہے کہ کوئی اٹھ کر یہ نہ کہنے لگے کہ خرابی مسلمانوں کے مزاج میں ہے۔ آج کل ایسے بقراطوں کی کمی نہیں ہے۔ میں یہ بات صرف پاکستان میں قانون سازی کی حالیہ تاریخ کے حوالے سے لکھ رہا ہوں۔ اٹھارویں ترمیم کے تجربے کے دوران مجھے یہ شدید احساس ہوا کہ ہم سیاست نویسی کر رہے ہیں اور یہ سب دستور سازی کے مضمرات کے سمجھے بغیر کر رہے ہیں۔ یہ تو بعد میں اندازہ ہوا کہ ہم نے کیسے کیسے تماشے کئے ہیں کہ آج تک اٹھارویں ترمیم مسائل حل کرنے کے بجائے مسائل پیدا ہی کر رہی ہے۔ اس کے تجزیے میں نہیں الجھنا چاہتا۔ اس کا جس قدر احساس ان دنوں سپریم کورٹ میں ہوا اس کی تو مثال نہیں ملتی۔ کس بے بسی سے حکومت کے لا افسر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے تھے۔ آئین کے اندر ایسے سقم ظاہر ہوئے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ کئی بارتو خیال آتا تھا کہ یہ جو شریف الدین پیرزادہ جیسے قانونی جادگروں کا ہم مذاق اڑاتے تھے وہ کتنا غلط تھا۔ ان لوگوں سے کوئی ایسی قانونی حماقت تو ظاہر نہ ہوتی تھی۔ قانونی کاریگری ضرور وہ کیا کرتے تھے۔ اس بارتو یوں لگا کہ وزیر قانون ہوں یا اٹارنی جنرل وہ بے بس نظر آتے ہیں۔ اچھا تو کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت آئین میں طے ہی نہیں ہے۔ کوئی ایسی شق ہی نہیں ہے جو آرمی چیف کو ملازمت میں توسیع دے سکے۔ پھر کیسے ہوتی رہی۔ وزارت قانون نے ایک مسودہ بنایا پھر دوسرا۔ ایوان میں گیا‘ وزیر اعظم ہائوس کے بقراطوں کے پاس آیا۔ غلطیاں پر غلطیاں ہوتی گئیں۔ اچھی طرح معلوم ہے کہ اس پورے عمل نے کیا مذاق بنا رکھا ہے۔ پھر عدالت کے حکم سے قانون سازی شروع ہوئی تو دوبارہ مذاق بننے لگا۔ سوچا کیا کرنا ہے عدالت کے اس حکم کا۔ درمیان میں خیال آیا اپیل کرتے ہیں۔ صدر ‘ وزیر اعظم آرمی چیف اور وزارت دفاع کی طرف سے۔ کتنا بڑا مقدمہ ہو گا یہ پھر سوچا ساتھ قانون سازی بھی کرتے ہیں۔ راتوں رات اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ حکم صادر ہوا کل بل پیش ہو گا اور پاس ہو جائے گا۔ مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس کی قیادت کی لندن سے اشیر باد آ چکی ہے۔ اب کیا پریشانی ہے۔ باقیوں کو بھی ماننا پڑے گا۔ ظاہر ہے جمہوریت میں یہ مسئلہ تو ہوتا ہے کہ عوام اپنی قیادت پر نظر رکھتے ہیں۔ شور اٹھ کھڑا ہوا۔ فقرے بازیاں‘ کارٹون‘ طنز‘ غصہ ہر چیز ظاہر ہونے لگا۔ لندن سے سندیسہ آیا کہ کم از کم قانونی تقاضے تو پورے کرو۔ ایک ہی دن میں سب کچھ کرنے کے بجائے دو چار دن لگا لو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کچھ ہماری بھی عزت رکھ لو۔ کم از کہ ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس تو بلا لو۔ اعلان ہوا بلا لیا اور بل وہاں سے پاس کروا لیا۔ اگلی شام اعلان ہوا غلط بلا لیا۔ دوبارہ بلانا پڑے گا۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع نے صدارت کی۔ ایسا وہ کر نہیں سکتے۔ یہ کام کمیٹی کے چیئرمین کریں گے۔ اور ہاں اس میں سینٹ کے ارکان کمیٹی شامل نہیں ہوں گے۔ لگتا ہے ہم قانون سازی بھول چکے ہیں۔ ہمیں اس کی عادت ہی نہیں۔ وہی جو الل ٹپ ہوتا تھا کر دیتے تھے۔ اب ذرا عدالت نے کان کھینچے ہیں تو پتا چلا کہ کس بھائو بکتی ہے۔ جو کام سلیقے سے ہو سکتے ہیں‘ انہیں ہم سیاست کی نذر کر دیتے ہیں۔ کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا۔ جو لوگ واقفان حال نہیں بھی ہیں وہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کن مشکلات میں گرے ہوئے ہیں۔ ایک پرویز مشرف کا کیس ہے جس نے کئی برس سے پوری قوم کو سولی پر لٹکا رکھا ہے۔ اس ایک مقدمے نے جوگل کھلائے ہیں وہ ناقابل تصور ہیں۔ ملک کی معیشت‘ سیاست سب کچھ تباہ ہو گئی۔ہم نے اسے قومی سلامتی کا ٹاپ موسٹ مسئلہ سمجھ رکھا تھا ۔عجیب عجیب بحثیں ہیں ۔ مگر اب بات کہاں تک جا پہنچی ہے۔ اچانک کسی کو خیال آیا کہ بھئی پہلے اصل معاملات کو طے کرو۔ ایک کہتا ہے اصل مسئلہ کرپشن ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ کرپشن نہیں نااہلی ہے۔ یہاں احتساب نہیں انتقام ہو رہا ہے۔ اب ہم نے قانون سازی شروع کی ہے تو پتا چلا ہے کہ ہمیں وہ بھی نہیں آتی۔ آخر میں تو رضا ربانی بھی آنسو بہاتے ہوئے بل کے حق میں ووٹ دے دیں گے۔ خواجہ آصف تو صاف کہہ چکے ہیں کہ میں ایک طویل عرصے سے اپنی جماعت اور قیادت کا وفادار ہوں۔ مجھے یقین ہے میرا لیڈر جو فیصلے کرتا ہے وہ بظاہر غلط بھی لگتے ہوں تو بھی بالآخر درست ثابت ہوتے ہیں میری رائے جو بھی ہو‘ میں پارٹی کے فیصلے کے ساتھ جائوں گا۔ تاہم یہ بات تو ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ ہم نااہل ہیں۔ ہم سے آپ جو چاہے مراد لے لیں۔ یہ تو مان لو کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ پارلیمانی روایات میں پارلیمانی کمیٹیوں کی صدارت کون کرتا ہے۔ ہم کافی عرصے سے قانون سازی کی زیر زبر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ناموس رسالت کا معاملے پر اگر کسی نے دانستہ کچھ نہیں کیا تو بھی یہ بات طے ہے کسی کو لفظوں کی حرمت کا اندازہ نہ تھا۔ توثیق کرنے یا حلف اٹھانے میں کیا فرق ہے اس کی خبر نہ تھی۔ یا کسی کو تھی تو اس نے کام دکھا دیا۔ آدمی نیتوں پر شک کرے یا صلاحیتوں پر‘ شریف الدین پیرزدہ کی نیت پر تو شک کرسکتے تھے۔ صلاحیت پر نہیں۔ اب تو معاملات صلاحیتوں کے آن پڑے ہیں۔ ہر شعبے کا یہی حال ہے خارجہ پالیسی ہی کو لے لیجیے ہم نے کیسے یقین کر لیا کہ ہمیں ایران سعودی عرب میں دوستی کرانے کا کام سونپا گیا ہے۔ ہمارا بھی جواب نہیں ہے۔ چل پڑے بوریا بستر باندھ کر۔ راستے ہی میں خبر ہو گئی کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ اگلا قدم اٹھایا اور ترکی اور ملائشیا سے مل کر عالم اسلام کی قیادت سنبھالنے لگے۔ کیا کوئی ہمارا دفتر خارجہ نہیں ہے۔ جنہوں نے وائٹ ہائوس میں کشمیر کا چرچا کر کے اور پینٹا گان میں 21توپوں کی سلامی دے کر آپ کو بھیجا ہے تو کیا وہ چاہیں گے کہ آپ ان کا مخالف بیانیہ اپنا لیں۔ یہ خطہ اس وقت عالمی سازشوں کی آماجگاہ ہے۔ جو افغانستان میں ہو رہا ہے اس میں ہمارا کردار ہے تو اس کی یہ قیمت نہیں ملنے والی کہ ہم خطے میں جو چاہے کرتے پھریں۔ جب ہم نے یمن کے مسئلے پر نیوٹرل کا لفظ استعمال کیا تھا تو نہیں جانتے تھے کہ اس کے اثرات کہاں تک جائیں گے۔ اب تو اس کا کریڈٹ کوئی بھی لینے کو تیار نہ ہو گا‘ ان دنوں تو ہر کوئی یہ ہار اپنے گلے میں پہننا چاہتا تھا۔ کم از نواز شریف اس سے خوش نہ تھے۔ ہماری پارلیمنٹ ان دنوں بھی اتنی ہی اہل تھی۔ کم ازکم لفظوں کو استعمال کرنا تو ہم سیکھ لیں۔ عرب و عجم کی لڑائی اب بہت بڑھ گئی ہے۔ جنگ عظیم اول نے عالم اسلام کی بربادی کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئی نعرہ نہیں ہے۔ اس وقت عالم اسلام سے مطلب سلطنت عثمانیہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا میں ایک نئی بالادستی قائم کی۔ ہم سمجھے ایک نیا عالم اسلام ظہور میں آ رہا ہے‘ نہیں جانتے کہ ہماری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ اس وقت ایران نشانہ نہیں ہے یہ پورا خطہ اس کی زدمیں ہے۔ بھارت میں جو ہو رہا ہے اس پر ہم لڈیاں ڈال رہے ہیں۔ ایران کی حرکیات کو ہم سمجھ نہیں رہے۔ شام و عراق تباہ نہیں ہوئے ہم برباد ہو رہے ہیں یہ سب کچھ ہمارے بس میں نہیں۔ افغانستان ‘ ایران‘ بھارت ہم ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں۔ ایک چین ہے تو اس سے جان چھڑا رہے ہیں۔ اب تو بڑے بڑے آزاد فکر دانشوریہ کہہ رہے ہیں وہ حکمت عملی اپنائو جو سعودی عرب کے ذریعے امریکہ نے اس خطے میں اپنا رکھی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہم ماضی کی طرح ایک طفیلی ریاست بن کر ہی جی سکتے ہیں۔ اتنا ضرور کہتا ہوں اپنی مشکلات اور کوتاہیوں کا احساس کریں ہم اپنے اندر سے اور اردگرد سے گھیرے جا رہے ہیں۔ اس سے بچنا اپنی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ ٹیم ہم سے بن نہیں پڑ رہی۔ بعض جگہ تو آدمی توسوچتارہ جاتا ہے۔ ابھی ایک حساس تقرری ہوئی ہے جس کی غلطی راتوں رات درست کرنا پڑی سمجھ نہیں آ رہا ہے اس کا پس منظر کیا ہے اور بہت کچھ ہونا ہے علی جہانگیر ‘ امریکہ میں سفیربنا دیے گئے۔ شور اٹھ کھڑا ہوا حکومت بدل گئی ۔پھرسفیر رہے‘ پھر ہٹا دیے گئے۔ مگر ہیںتو وہ اب اس سے بھی زیادہ اہم جگہ پر۔ اللہ مرے وطن کی سلامتی کا محافظ ہے ۔اللہ اس کی حفاظت کے اس حصار کو قائم رکھے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل توایک ایسا واقعہ ہے جس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیںدو چار بل پاس نہیں ہو رہے اور دنیا ہے کہ بدل رہی ہے۔