اردو ادب کے چار نام سامنے آئیں تو قوت متخیلہ کا وفور گویا جگمگانے لگتا ہے۔ کربلا گامے شاہ لاہور میں آسودۂ خاک محمد حسین آزادؔ ‘ الیاس سیتا پوری‘ منیر نیازی اور ناصر کاظمی۔ ممکن ہے اور لوگ بھی ہوں جنہیں میں نہ پڑھ سکا۔ الیاس سیتا پوری اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہوں نے نسیم حجازی قسم کی تاریخی کہانیوں کی لت میں پڑی نسل کو تاریخی کہانی کا شعور دیا۔ یاد رکھئے! کہانی حقیقت نہیں ہوتی مگر حقیقت کے بطن سے ظاہرہوتی ہے۔ زنوبیا ‘الیاس سیتا پوری کی صاحبزادی ہیں۔ خود پرفارمنگ آرٹ اور صحافت سے منسلک ہیں۔ مجاہد بریلوی صاحب کے توسط سے ملاقات ہوئی۔زنوبیا لاہور تشریف لائیں تو اپنے والد کی کہانیوں کی کتاب’’شہزادی کا نیلام‘‘ میرے لئے لیتی آئیں۔یہ کتاب ان کی بہن اسنا نے مرتب کی ہے۔ بچپن میں چونکہ ڈائجسٹوں کا مطالعہ عادت رہی اس لئے ڈائجسٹوں کے کئی لکھنے والوں سے عقیدت کے جذبات ہیں۔ جون ایلیا‘ شکیل عادل زادہ اور چند دیگر کی وجہ شہرت ان کا اسلوب ہے۔الیاس سیتا پوری کا کمال یہ تھا کہ وہ تاریخی لحاظ سے پر ہنگام دور کا انتخاب کرتے۔ تاریخ کی کتابوں اور صاحب علم لوگوں سے ہم اس زمانے کے عمومی ماحول جان چکے ہوتے لہٰذا جونہی سیتا پوری صاحب اس عہد کی کہانی پیش کرتے پڑھنے والے ان کی طرف متوجہ ہوتے۔ ’’شہزادی کا نیلام‘‘ پانچ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک کہانی عہد جہانگیر کی ہے‘ دوسری 240ق مسیح کی قرطاجنہ سلطنت کے عہد کی ہے‘ تیسری انگریز عہد سے قبل اور مغل سلطنت کے زوال کے زمانے میں احمد نگر کی سلطنت کے امراء بارے ہے۔ چوتھی ظہیر الدین بابر کے لڑکپن کا قصہ ہے۔ پانچویں کہانی ایران پر مسلمانوں کی فتح اور ہارون الرشید کے دربار میں ایرانی امراء کے بڑھتے اثرورسوخ اور پھر وزیر جعفر کے قتل پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ الیاس سیتا پوری کہانی کی ضرورت کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ایک حقیقی عہد کا سٹیج تیار کرتے ہیں۔ اس عہد کی معروف شخصیات کا موثر خاکہ شامل کرتے ۔ علمی‘ ادبی ‘ جنگی اور رومانوی روایات کو کہانی کا حصہ بناتے ہیں مگر ان کی کہانی کا مرکزی کردار ایسے افراد ہوتے ہیں جو شاید حقیقت نہیں۔کہانی صرف بادشاہوں کی نہیں ہوتی۔ کہانی تو عام لوگوں کی ہوتی ہے۔ بادشاہ کی زندگی چند کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ لوگوں کی کہانیاں بے شمار ہوتی ہیں۔ مثلاً بابر کو 12برس کی عمر میں حکومت ملی اور اسے ایک مغل سردار کی پندرہ سولہ سالہ لڑکی خانزادی پسند کرنے لگتی ہے۔ بابر بھی اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔ بابر کا ایک کم ہمت اور سازشی دوست علی نواز اس کا طلب گار ہوتا ہے۔ لڑکی کے متعلق بابر کے دماغ میں بٹھا دیتا ہے کہ وہ منحوس ہے۔ بابر ایک مہم میں شکست کھاتا ہے تو لڑکی اپنے خاندان کے ساتھ بابر سے رخصت لیتی ہے کہ اس کی نحوست کا سایہ بابر پر نہ پڑے۔ اس کہانی کے کرداروں نے اصل تاریخ کو چھیڑے یا موڑے بغیر ایک دلچسپ پیرایہ تخلیق کیا اور پھر جس طرح کہانی کے سٹیج پر آئے اسی طرح نکل گئے۔ ہمارے ہاں جس طرح تاریخ کے نام پر غیر تاریخی مواد کو عام کرنے میں دلچسپی دیکھی گئی وہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم اپنے نسلی ورثے سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے اور کسی نسل کے لوگوں کا کارنامہ سن کر ہمارے مورخ اسے یہاں کے بادشاہوں ‘ امراء کے نام منسوب کرتے رہے۔ دنیا بھر میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان سب کا کوڑے دان ہمارے دشمن اور ان کا معاشرہ ہوتے ہیں۔ جیسے عہد حاضر میں ہم مغربی معاشروں کے متعلق گمان رکھتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر الیاس سیتا پوری کی کہانیوں میں اپنی اصلیت سے محبت اور نسل سے تعلق جوڑنے کا عنصر اچھا لگا۔ ایک رومی بچہ 450ق مسیح میںقرطاجنہ کے ہاتھ لگتا ہے۔ وہ اپنے مالک خاندان کا دل جیت لیتا ہے۔ اس کی حیثیت جنگ میں گرفتار غلام سے بڑھ کر خاندان کے فرد سی ہو جاتی ہے۔ اس کی ہم عمر آقا زادی اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ اسے قانونی منظوری کے لئے اس رشتے کی خاطر قرطاجنہ کی قوم سے وفاداری ثابت کرنا ہوتی ہے۔ وہ ہینی بال کے لشکر میں شامل ہو کر کٹھن مہم میں کامیاب رہتا ہے لیکن جب اسے اپنی محبوبہ کو اپنانے کا اختیار ملتا ہے تو وہ اس کی جگہ اپنے وطن واپس جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ ایران کے حکمران ساسانی خاندان کا ایک شخص سلطنت گنوانے کے بعد پریشان حال ہو گیا۔ اس کی بیوی صعوبتیں برداشت نہ کر سکی اور مر گئی۔ایک نابینا موسیقار اس کی پانچ چھ سال کی بیٹی کو موسیقی کی تعلیم دیتا ہے۔ لڑکی کے شاہی خدوخال‘ موسیقی اور خاندانی رکھ رکھائو اسے ایک نمایاں شخصیت بنا دیتے ہیں۔ اس کی عمر کا ایک عجمی نوجوان موسیقار اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لڑکی جانتی ہے کہ وہ بادشاہوں کی اولاد ہے اور ایک معمولی گوئیے سے بیاہ نہیں کر سکتی۔ اس کا استاد اسے ایرانی النسل وزیر جعفر یا خلیفہ ہارون الرشید کو پیش کرنا چاہتا ہے۔ کہانی کے ایک موڑ پر باپ چاہتا ہے کہ بیٹی ایرانیوں سے بغض رکھنے والے ہارون الرشید کی بجائے اس کے ایرانی النسل وزیر جعفر سے منسلک ہو جائے۔ اس کشمکش میں اس کا خاندانی فخر اسے اس سطح پر لے جاتا ہے کہ وہ خودکشی کر لیتا ہے۔ ہارون الرشید جعفر برمکی کے اثرورسوخ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے‘ لیکن اس حقیقت میں الیاس سیتا پوری نے ربابہ کا کردار بھی شامل کر دیا۔ ہارون الرشید سمجھتا ہے کہ جعفر برمکی ایرانیوں پر نوازشات کر کے کوئی سازش کر رہا ہے۔ وہ اپنے جلاد کے ہاتھوں جعفر کو قتل کرا دیتا ہے۔ ربابہ اپنے استاد کے ساتھ بغداد سے نکلتے وقت جو مکالمہ کرتی ہے وہ آج پڑھیں تو لکھنے والے کی قوت متخیلہ پر رشک آتا ہے۔ ربابہ اپنے وطن جانے کے لئے جب بغداد کے بیرونی پل پر پہنچی تو وہاں جعفر کا سر لٹکا ہوا تھا۔ وہ محبت سے اس سر پر ہاتھ پھیرتی ہے‘ رومال سے چہرے کا گردو غبار صاف کرتی ہے‘ رونے لگی اور بولی’’اے آل برمک کے درخشندہ ستارے! تو میرے وطن کا سرمایہ افتخار تھا۔ تو میری قوم کی سب سے قیمتی متاع تھا۔ تیرے آبائو اجداد نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن تجھے عربوں کی عصبیت اور اقتدار کی آتشیں حسد کھا گئی‘‘ ربابہ کی یہ خود کلامی جانے کیوں مجھے عمران خان کی ملائشیا نہ جانے کی مجبوری کے وقت یاد آ رہی ہے۔ شاید الیاس سیتا پوری وقت سے پہلے ہمیں کچھ سمجھانا چاہتے تھے۔