کیا فائیو جی ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو یرغمال بنا لے گی۔؟ گاہے یہ سوال ذہن میں اٹھتا اور سر پٹختا ہے۔؟ ٹیلی کمیونی کیشن کی سپر سانک سپیڈ کا اسیر ہو کر انسان‘ انسان سے دور ہو جائے گا ۔کیا زندگی لمس کو ترس جائے گی۔؟ زندگی ایک دوسرے کے وجود کی حرارت سے تہی ہو جائے گی۔؟ کیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا خبط کاروبار حیات کے لئے انسان کو غیر ضروری کر دے گا۔ ہسپتالوں سے فیکٹریوں و دفتروں سے تعلیمی اداروں تک اگر روبوٹ انسان کی جگہ کام کرنے لگیں گے تو پھر یہ کاروبار حیات کس کے حساب میں۔؟ جاپان میں آج بھی انڈسٹریز میں انسانوں کی جگہ روبوٹ کام کر رہے ہیں۔ ابھی کورونا وائرس کے تناظر میں سماجی دوری کی احتیاط کے زمانے میں جاپان کی ایک یونیورسٹی نے اسناد دینے کے لئے سالانہ کانووکیشن کرایا تو طلبہ کی جگہ ان کے روبوٹس نے آ کر ڈگریاں وصول کیں۔ جاپان کے اولڈ ہومز میں بوڑھوں کا دل بہلانے کے لئے اور ان کی دیکھ بھال کے لئے روبوٹ نرسیں کام کرتی ہیں۔ یہاں دل بہلانے کے لئے پالتو کتے اور بلیوں کی جگہ اب روبوٹ petsنے لے لی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے خبط میں مبتلا ملکوں میں جاپان سب سے آگے ہے، جہاں روبوٹس انسانوں کی طرح کام کرتے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور اب تو یہاں جی کے بہلانے کو روبوٹ محبوب بھی خواہش پر دستیاب ہیں۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ حال ہی میں چین میں کورونا کے مریضوں کو ہسپتالوں میں کھانے دینے کے لئے روبوٹس کام کرتے نظر آئے ۔جاپان میں پہلے بھی کھانوں کی ہوم ڈلیوی سروس میں روبوٹس کام کر رہے ہیں۔ہوٹلوں میں ویٹر سٹاف کے طور پر بھی جاپان میں زیادہ تر انسان نہیں مشینی آدمی دکھائی دیتے ہیں۔ہم ترقی پذیر ملکوں کے رہنے والے باشندے ابھی تک تو یہی سوچتے تھے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں پیسے‘ کام اور ٹیکنالوجی کی دوڑ ایسی ہے کہ انسان کے پاس انسان کے لئے وقت نہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں تو فارغ لوگ جب تک ایک دوسرے سے مل کر گپیں نہ لگا لیں ان کا دن نہیں گزرتا اور پھر شہروں کی نسبت دیہات میں دیکھیں یا بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں میں دیکھیں تو لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے ملنے اور بیٹھنے کے لیے زیادہ وقت ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ موبائل فون کے زمانہ میں بھی یہاں زندگی آن لائن بسر نہیں ہوتی بلکہ زندگی اپنے اصل اور سچے روپ میں دکھائی دیتی ہے۔ آن لائن چیٹ کی جگہ بیٹھکیں اور چوپالیں آباد ہیں، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں بنفس نفیس خود شریک ہوتے ہیں۔ اور پنجابی کی یہ کہاوت ہمیں اصل روپ میں دکھائی دیتی ہے کہ بندہ ای بندے دا دارو اے لیکن زندگی کے سچے روپ سے آباد سے یہ منظر نامہ اب اس کورونائی دور میں ماضی کا قصہ محسوس ہوتا ہے۔ اب بندہ بندے کا دارو نہیں اس کے لئے خطرے کی علامت ہے کبھی سوچا نہ تھا زندگی ایسے بھی بدل جائے گی۔؟شہر خالی ہیں۔ سکول بے رونق۔ مسجدیں ویران۔ انسان دکھائی نہیں دیتا۔ ایک نادیدہ دشمن کا خطرہ اسے اپنے آپ سے بھی خوف زدہ کیے ہوئے ہے۔ کورونا کے اس دور میں پلک جھپکتے کاروبار حیات آن لائن منتقل ہونے لگا ہے۔ گوگل کلاسیں ،ویڈیو لنک پر دفتری سرکاری میٹنگیں، آن لائن کام۔ ہجر و وصال بھی آن لائن ،میل ملاقاتیں بھی آن لائن۔ ہر شے اب آن لائن دستیاب ہے خریداری سے لے کر سواری تک ڈیجیٹل ، گھر کے دو افراد بھی ساتھ بیٹھے ہوئے ساتھ نہیں ہوتے۔ یہ تیرے لوگ بھی اب تیرے نہیں۔ اب انہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی یرغمال بنا چکی ہے۔سب آن لائن سکرینوں میں منہ دیے۔ زندگی کی تلاش میں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے انسانوں کے وجود سے غافل الیکٹرو میگینٹک فریکوئنسی پر تخلیق کی گئی مصنوعی دنیا میں سرگرداں ہیں۔ زندگی لمس کو آکسیجن سے عاری لائکس کے وینٹی لیٹر پر سانس لے رہی ہے وہ جو کہتے تھے کہ اپنے بچوں کے سکرین ٹائم کو محدود کریں کہ وائی فائی کی ریڈی ایشن بچوں کی صحت کے لئے زہر قاتل ہیں۔اب ہمیں گوگل کلاسوںاور آن لائن ایجوکیشن کا سبق پڑھا رہے ہیں۔کوئی تو سوال اٹھائے کہ بچے اگر آن لائن پڑھیں گے۔ آن لائن امتحان دیں گے تو پھر گھروں سے باہر جانا بند ہے تو دل بہلانے کو دوبارہ آن لائن ویڈیو گیمیں کھیلیں گے تو پھر ان کی صحت ان ریڈی ایشنز سے کیسے محفوظ رہ سکے گی۔؟کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ ہی زندگی کی ہر شے آن لائن ہونے لگی ہے۔جس فائیو جی ٹیکنالوجی کی نوید سنتے تھے وہ اس منظر نامے کا پتہ دیتی تھی خدشات واہمے اور سازشی تھیوریوں کی بازگشت اب مغرب اور یورپ سے سنائی دے رہی ہے کیا آپ جانتے ہیں کہ لندن میں لوگوں نے کورونا وائرس کے پھیلائو کے بعد فائیو جی ٹاورز جلا دیے۔؟یورپی یونین کے ڈاکٹروں نے فائیو جی ایپل کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے۔مدعا اس کا یہی ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کی EMF Electro magnetic frequency)سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن انسانی صحت کو تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ اس پر پابندی لگائی جائے۔یہ ریڈی ایشن انسان کے امیونٹی سسٹم کو شکست و ریخت سے دوچار کرتی ہیں۔ خون میں فری ریڈیکلز کی تعداد بڑھا کر مہلک بیماریاں لگا سکتی ہیں۔ان خدشات کا اظہار پاکستان کا کوئی مولوی نہیں کر رہا۔ مغرب اور یورپ کے طبی محققین اور طبی سائنسدان مسلسل کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کا فائیو جی سے کوئی تعلق ہے یا نہیں مگر یہ تو حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کے آنے سے اس وقت پوری دنیا سماجی دوری کے اس مرحلے پر انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی محتاج ہو چکی ہے۔ دنیا کو فائیو جی کی اہمیت بتانے کے لئے اس بہتر سے مارکیٹنگ اور کیا ہو سکتی تھی۔!واللہ اعلم بالصواب