جو لوگ اسلام آباد کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ چک شہزاد حکومتی و عدالتی مراکز سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چک شہزاد اور بنی گالہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی بنی گالہ کے پہاڑ کی چوٹی پر ہمارے حاکم کا قصر ہے۔ اس قصر کی بلندی سے اگر حاکم چاہے تو اپنی رعیت کے احوال کا براہِ راست مشاہدہ کر سکتا ہے۔ جی ہاں! فرشتہ چک شہزاد کی رہائشی تھی۔ اس بچی کے خاندان کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے تھا۔ یہ بچی 15مئی کو لاپتہ ہوئی اور 20مئی کو بچی کی مسخ شدہ لاش ملحقہ جنگل سے ملی۔ پہلے انسانی روپ میں اس کا درندہ صفت چچا زاد بھائی اسے نوچتا رہا اور پھر جنگلی جانور بچی کی لاش کو کئی روز تک نوچتے اور بھنبوڑتے رہے۔ بچی کے اغوا کے فوراً بعد والدین رپٹ درج کرانے تھانے گئے تو وہاں تھانیدار یا جو بھی اہلکار تھا اس کا جواب تھا کہ خود تلاش کرو وہ کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ نہایت ہی دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ کم و بیش انہی تاریخوں میں گوجرانوالہ میں ایک کم سن ملازمہ کو اس کی مالکن بیگم وسیمہ نے پہلے بید سے وحشیانہ انداز میں بری طرح پیٹا اور پھر نہایت گرم استری سے بچی کے ننگے جسم کو داغا۔ بدقسمت ملازمہ خدیجہ کے والدین جب پرچہ درج کرانے گئے تو گوجرانوالہ پولیس نے بے حیثیت والدین کو تھانے سے اسی طرح بھگا دیا جیسے اسلام آباد پولیس نے لاپتہ فرشتہ کے والدین کو تھانے سے دھتکار کر نکال دیاتھا۔ اب یہ بچی لاہور میں زیر علاج ہے۔ پولیس کی بے حسی اور سنگدلی تو مشہور ہے مگر دونوں جگہ کی پولیس کو لمحے بھر کے لیے یہ خیال نہیں آیا کہ یہ نیا پاکستان ہے کہ جس کے حاکم نے کہا تھا کہ میں آئوں گا تو مظلوموں اور بے بس لوگوں کی آواز بن جائوں گا پھر میں دیکھوں گا کہ پولیس یا کوئی اور کیسے غریبوں کی توہین کرتا ہے۔ نئے پاکستان میں تو پولیس کچھ اور بھی دیدہ دلیری اور من مانی سے کام لے رہی ہے۔ جناب ارشاد احمد عارف نے اپنے کالم میں پاکستانی فلموں، ڈراموں، الیکٹرانک میڈیا پر بے ہودہ پروگراموں اور شتر بے مہار سوشل میڈیا میں جنسی و حیوانی جذبات بھڑکانے والی ویڈیوز وغیرہ پر بجا طور پر نہایت بھرپور تنقید کی ہے۔ دراصل قومی تربیت سازی ایک مشترکہ عمل ہے اور یہ عمل خیر اس وقت تک انجام نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ سارا معاشرہ اس سلسلے میں اپنی اپنی ذمہ داری پوری دیانتداری سے انجام نہ دے رہا ہو۔ ایک مہذب اور فرض شناس قوم کی تعمیر کے لیے سب سے بہترین چیز تعلیم و تربیت ہے۔ اس بنیادی تربیت کے بعد پولیس کی تربیت، ڈاکٹرز کی تربیت، ٹیچرز کی تربیت اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کی خصوصی تربیت کا کام آسان ہو جاتا ہے مگر پاکستان پرانا ہو یا نیا ہماری حکومتیں اس طرح کی تعلیم و تربیت کو ایک فالتو کام سمجھتی ہیں جس کے لیے حکومتوں کے پاس وقت ہے نہ سرمایہ۔ البتہ عمران خان سے قوم کا گلہ شکوہ اس لیے بجا ہے کہ وہ انہی باتوں کا اپنی انتخابی مہم میں ذکر کرتے رہے مگر برسراقتدار آ کر اسی پرانے روایتی بے حس رویے کو اپنا چکے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ اس واقعے میں کائونٹر ٹیررازم پولیس نے جس بے دردی کے ساتھ ایک معصوم خاندان اور ان کے پڑوسی کو بھون ڈالا اور پھر پولیس نے بار بار کہانی بدلی۔ اس واقعے میں عمران خان کی سربراہی میں ریاست کو پولیس کے خلاف مدعی ہونا چاہئے تھا مگر پھر آہستہ آہستہ مظلوم خاندان کے باقی ماندہ بچوں اور ورثا کو کچھ دے دلا کر خاموش کر دیا گیا اور پولیس کی سفاکانہ مہم جوئی پر ’’مٹی پائو‘‘ والا بے رحم رویہ اختیار کر لیا گیا۔ گزشتہ حکومت نے قوم کو موٹروے اور اس سے بڑھ کر موٹروے پولیس کا تحفہ دیا تھا۔ موٹروے پولیس آئیڈیل نہ سہی مگر بہت غنیمت ہے اور ہر کوئی اس کا احترام کرتا ہے۔ جناب عمران خان کی جماعت کا نام ہی تحریک انصاف ہے مگر ابھی تک گھر کی دہلیز کیا دھکے کھا کر بھی انصاف ملنے والی کوئی ریفارمز سامنے نہیں آئیں، یکساں تعلیم عمران خان کا ایک پرانا خواب تھا مگر اسے تو وہ بھول گئے ہیں، خان صاحب پولیس پر بڑی شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور اقتدار آتے ہی پولیس ریفارمز کرنے اور ان پر عملدرآمد کرنے کے دعوے کرتے رہے ہیں مگر خان صاحب نے بھی غالباً اب ان ریفارمز وغیرہ کو غیر ضروری سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ، یورپ، چین اور جاپان وغیرہ نے آئی ٹی ٹیکنالوجی سے کام لے کر بھیانک جرائم کو بڑی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ وژن نہ سہی اگر یہ ریفارمز کرنے کا ارادہ ہی ہو تو آپ کو اپنی ہی راکھ سے ایسی ایسی چنگاریاں مل جائیں گی جنہوں نے غیروں کے معاشروں میں اپنے علم کے چراغوں سے چراغاں کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ یہ چراغ اپنے معاشرے کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے ہر طرح کی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں مگر کوئی خدمت لینے والا ہو تو سہی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک یا استعماری قوتیں غیروں کے ساتھ تو ہر ظالمانہ سلوک روا رکھتی ہیں مگر اپنے معاشرے میں وہ عدل و انصاف کی علمبرداری اور انسانی حقوق کی سربلندی کا کلچر رائج کرتی ہیں۔ مثلاً امریکہ میں انسانی حقوق کا محکمہ انتہائی فعال ہے اور یہ کسی طرح کی رنگ و نسل کی تمیز کے بغیر وہاں مقیم ہر فرد حتیٰ کہ بچوں اور بوڑھوں تک کے حقوق کی نگرانی کرتا ہے۔ ایک دوست نے بتایا تھا کہ اس کی بیگم کو پاکستان سے امریکہ آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک روز اس نے بچی کے منہ پر زور دار چانٹا جڑ دیا۔ اگلے روز سکول میں امریکن مس نے بچی سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ پہلے بچی خاموش رہی مگر مس نے مزید پیار سے معلوم کیا تو بچی نے ساری کہانی سنا دی۔ مس نے ایک سیکنڈ کی تاخیر کے بغیر انسانی حقوق والوں کو اطلاع کر دی اور اگلے 20منٹوں کے اندر اندر بچی کے والدین زیر حراست تھے۔ محکمہ نے والدین کو قانون دکھایا جس کے مطابق کم از کم سزا تین سال قید تھی۔ بہر حال قانون نہ جاننے کا عذر پیش کر کے ان کی جان چھوٹی۔ یہاں بچوں کو اساتذہ سرکاری سکولوں میں الٹا لٹکا دیتے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں۔ ایک اور واقعے میں ایک مصری فیملی کے نو دس افراد کو امریکن امیگریشن ملی وہ مصر سے ہی ایک خاتون ملازمہ کا بھی ویزا کسی نہ کسی طرح لگوا کر اسے ساتھ لے آئے تھے یہ مصری خاندان ملازمہ سے رات دن کام لیتا اور اسے الگ کمرے کے بجائے گیراج میں سونے کے لیے جگہ دی گئی۔ پڑوسیوں کو اس ظلم کا اندازہ ہوا تو انہوں نے انسانی حقوق والوں کو اطلاع دی۔ محکمے نے فی الفور سارے مصری خاندان کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش کے بعد سب کو سات سات سال قید۔ کئی ہزار ڈالر جرمانہ اور امیگریشن ختم کر کے قید پوری کرنے بعد انہیں ڈی پورٹ کرنے کی سزا دی گئی جبکہ مصری ملازمہ کو امریکی شہریت دے کر اس کی انگریزی تعلیم کا بندوبست کیا گیا اور اسے سرکاری وظیفہ دیا گیا۔ یہ ہیں انسانی حقوق یہاں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے مظلوم خاندان کو سڑکیں بند کرنا پڑتی ہیں، صدائے احتجاج بلند کرنا پڑتی ہے اور پھر تھانوں اور عدالتوں میں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ جناب عمران خان کی باز پرس دوسرے حکمرانوں سے زیادہ ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب ریاست مدینہ کے علمبردار ہیں اور عدل و انصاف کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے نام پر برسراقتدار آئے ہیں۔ اب عمران خان اپنا جواب سوچ لیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ فرشتہ کے قتل اور اس طرح کے دوسرے مظالم کی ذمہ دار پولیس ہے یا حکومت۔ حق بات تو یہ ہے کہ دونوں ذمہ دار ہیں۔