افغان رہنماعبداللہ عبداللہ کا حالیہ دورہ پاکستان غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ پاک افغان تعلقات کا ایک نیا باب اس دورے میں رقم کیاگیا۔اس دورے نے احمد شاہ مسعود کے حامیوں اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی سردمہری کو گرم جوشی میں بدل دیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کا شمار سخت گیر پاکستان مخالف رہنماؤں میں ہوتاتھا۔ان کے کامیاب دورہ پاکستان نے کابل میں پائے جانے والے پاکستان مخالف عناصر کو کمزور کیا اور پاکستان کی حمایت میں قابل قدر اضافہ کیا۔پشتونوں کے بعد اب ازبک اور تاجک افغان لیڈر بھی پاکستان کے قریب سمجھے جارہے ہیں۔ خود عبداللہ عبداللہ نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی مثبت سمت میں گامزن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہموار ہیں اس لیے انہیں امید ہے کہ افغانستان میں استحکام کی راہ نکل آئے گی۔انہوں نے اس حقیقت کااظہار کیا کہ حکومت پاکستان نے اعتماد سازی کے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن کاافغانستان میں وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔ اسی کی دھائی سے مسلسل برسرپیکار گروہوں اور سیاسی دھڑوں کے مابین صلح کرانا اور انہیں ایک پیج پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے البتہ مذاکرات کی بساط بچھ جانا ،ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔متحارب فریقین میںاتفاق رائے پایاجاتاہے کہ پرتشدد طریقوں کے بجائے مکالمے اور مفاہمت کے ذریعے افغان مسئلہ حل کیاجانا چاہیے۔ چالیس برس بعد افغانستان میں امن اور استحکام کی نوید سنائی دی ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کے مابین قطر میں مذاکرات ہوچکے ہیں۔کل تلک ایک دوسرے پر بندوقیں تانے والے آج تبادلہ خیال کی مجالس برپا کیے ہوئے ہیں۔سرجوڑ کر افغانستان کو سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طورپر مضبوط بنانے کی تدبیریںسوچی جارہی ہیں۔ممکن ہے کہ شراکت اقتدار کا کوئی معاہدہ طے پا جائے۔ یہ جذبہ اگر سلامت رہاتو افغانستان رفتہ رفتہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ جنگی بندی بھی آج نہیں توکل ہوہی جائے گی۔دونوں ممالک نے تعلقات کو نئی جہت دینے کے لیے بہت سارے نمایاں اقدامات کا بھی اعلان کیا ،جن کے دوررس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مثال کے طور پر پاکستان افغان طلبہ کو دو سے پانچ برس تک کی مدت کے ویزہ دینے پر رضامند ہوچکا ہے۔ تاجروں اور سرمایاکاروں کے لیے ملٹی پل پانچ سالہ ویزے کے علاوہ افغان مریضوں کے لیے بھی آسان ویزہ پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ زخمی افراد کو باڈر پر ویزہ جاری کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔جو خاندان پاکستان میں آباد ہیں یا جن کی شادیاں پاکستان میں ہوئی ہیںان کو پانچ سال کا ویزہ دیا جائے گا۔ سیاحت کے لیے آنے افغانوں کو ایک سال تک کی مدت کا ویزہ جاری کیاجائے گا۔یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان افغانون کو سنگل انٹری ویزہ جاری کرتاتھا۔پاک افغان سرحد پر مقامی مارکیٹیں بھی قائم کی جارہی ہیں تاکہ سرحد کے قرب وجوار کے قبائل ان سے مستفید ہوسکیں۔دیر پا امن کی خاطر پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا چاہتاہے لیکن افغانستان کو کسی نئی علاقائی کشمکش کا شکار نہیں ہونے دینا چاہتا۔چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں تجویز دی کہ امریکہ افغانستان سے فوجی انخلا میں جلدی نہ کرے۔ اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں قائم امریکی دفاعی تنصیبات کو مسمار کیا جارہاہے۔ حساس نوعیت کے جدید آلات حرب ان تنصیبات میںنصب ہیں۔امریکی نہیں چاہتے کہ یہ ٹیکنالوجی کسی اور ملک کے ہاتھ لگے۔ وزیراعظم عمران خان کا امریکیوں کو مشورہ ہے کہ وہ بتدریج انخلا کریں۔ افغانستان میں استحکام آنے دیں۔ متحارب فریقین کے درمیان صلح صفائی کے بعد نظام حکومت کی تشکیل پر اتفاق رائے ہونے دیں ۔امریکیوں کے جلد انخلا کی صورت میں علاقائی ممالک کے درمیان افغانستان کی سرزمین پر اثر ورسوخ کی دوڑ شروع ہونے کا اندیشہ ہے۔ جو بہت تباہ کن ہوگی۔ منجھے ہوئے اور صلح جو سفارت کار محمدصادق کو افغانستان پر اپنا خصوصی ایلچی مقرر کرکے امن عمل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں پاکستان نے ممتاز کردار ادا کیا۔ محمد صادق افغانستان میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے سازگارفضا پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔محمد صادق ایران،چین اور دیگر ہمسائیہ ممالک کو بھی مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رکھتے ہیںتاکہ وہ باخبر رہیں اور امن عمل کی حمایت کریں۔ افغانستان میں کیے جانے والے کردار کی بدولت پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تناؤ کم کرنے اور معمول کے تعلقات استوار کرنے میں بھی بڑی مدد ملی ہے۔ واشنگٹن پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتاہے ۔دباؤ ڈالنے کے بجائے دوستانہ طور پر معاملات کرتاہے۔امکان ہے کہ موجودہ گرم جوشی کافی وقت تک برقراررہے گی۔ علاوہ ازیں مشرقی سرحد سے بھارت کا دباؤبڑی حد تک تحلیل ہوچکا ہے۔ البتہ بھارت کے اسٹرٹیجک شراکت دار تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ امن اور استحکام کا قیام جنگ شروع کرنے سے زیادہ دشوار کام ہے۔ جنگ کے لیے ریاست فوج تیار کرتی ہے ۔ سیاستدان اور میڈیا جذبات کی آگ بھڑکاتے ہیں ۔ امن اور مفاہمت کے لیے قیام میں فریقین کی ناک کٹتی ہے ۔ تالیاں بجتیں ہیں اور نہ بارود کا کاروبار کرنے والوں کی چمنیاںجلتی ہیں۔ لہٰذا امن کے لیے کام کرنے والوں کے پیغام کا اکثر اثر کم ہوتا ہے کیونکہ وہ جذبات سے کھیلتے نہیں لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں۔پاکستان کو تحمل سے اپنی موجودہ افغان پالیسی پر گامزن رہنا ہوگا کیونکہ افغانستان کے عمل سے پاکستان میں خوشحالی کا درخشاں باب رقم ہوگا۔