ایسے میں جب ہر گھرانے کو داخلی معاشی بحران کا سامنا ہے‘ مثبت اشاریوں پر توجہ دینے کا دماغ ہی کہاں رہا۔ چنانچہ ایسا ہی ایک مثبت اشاریہ خبر کی صورت شائع ہوا لیکن محروم توجہ رہا۔ خبر یہ تھی کہ ملک میں نشئیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو وزیر نے بتایا کہ یہ تعداد بڑھ کر اب ستر لاکھ ہو گئی ہے جو دنیا کے 42(چھوٹے) ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، یہ بات اگرچہ سمجھ میں نہیں آئی کہ نشیئوں کی تعداد بڑھنے کی یہ رپورٹ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کمیٹی میں کیوں پیش کی گئی کہ معاملہ بظاہر انسانی ترقی یا ثقافتی ماحولیات سے لگتا ہے۔ خیر‘ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگرچہ نشئیوں کی تعداد ہر دور میں گھٹتی بڑھتی رہی ہے لیکن اچانک اتنا بڑا اضافہ کیوں ہو گیا‘ خاص طور سے گزرے بارہ چودہ مہینے تو اس باب میں بہت ہی بابرکت رہے۔کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی‘ آج نہیں تو آنے والے زمانے میں کھل جائے گی۔ ٭٭٭٭٭ نشئی کا لفظ کچھ توہین آمیز اور منفی سا لگتا ہے۔ اس کے بجائے ’’مست‘‘ کا لفظ کیوں نہ استعمال کیا جائے جو مثبت بھی ہے اور نغماتی بھی۔ اس کے ساتھ المست کا واقعہ بھی لگا دیا جائے تو اثباتی رنگ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔۔ چنانچہ یوں کہنا چاہیے کہ مست ہر دور کے معاشرے کا اہم‘ لاینفک بلکہ بڑی حد تک قابل احترام جزو رہے ہیں اور اب تو خیر بہت ہی محترم ہو گئے ہیں۔ ان محترمین کے الگ الگ روپ رنگ رہے ہیں۔ بڑی عمر والوں کو یاد ہو گا کہ فلم دیوداس میں ناکام محّب دلیپ کمار نے کیسی ہمدردی کمائی تھی۔ جب وہ دن رات’’مست‘‘ رہ رہ کر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا تھا اور ریل پر سوار ہو کر بے مقصد ہندوستان بھرگھومتا رہا تھا۔ راتوں رات ہندوستان بھر کے ’’قومی دکھیارے‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا تھا پھر اسی مستی میں انتقال فرما گیا تھا۔ بھلا ہو اس بات کا کہ لوگوں نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی ورنہ حالت یہ تھی کہ تب ہر محفل میں موضوع بحث وہی تھا۔ ٭٭٭٭٭ مست لوگ کبھی دہشت کی علامت بھی بن جاتے ہیں جیسا کہ قلعہ الموت کے شیخ الجبال کے فدائیں۔ کروڑوں لوگ انہوں نے مار ڈالے تھے یہ بوتل نہیں بھنگ کے گھوٹے کا نشہ کرتے تھے۔ فلم کی ہیروئن مستی میں جھومے اور لہرائے تو تھری ڈائمنشل شاعری بن جاتی ہے بھنگ کے ملنگ جب گھوٹا پی کر دھمال ڈالتے ہیں تو عوام کی عقیدت کا مرکز ہو جاتے ہیں۔ اشرافیہ کے لئے مستی ان کے لائف سٹائل کا لازمی جزو ہے اور قانون نے اس جزو کا ہمیشہ احترام کیا ہے۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب غیر مستحق افراد مستی میں اپنا حصہ مانگیں۔ایسے لوگوں کو غل غپاڑے کی دفعہ لگا کر اندر کر دیا جاتا ہے۔ علمائے کرام ان پر تھوتھو کرتے ہیں۔ سارے نہیں‘ صرف ان بعض علمائے کرام و عظام کا ذکر ہے جو اشرافیہ کے دربار میں جا کر گھنٹوں انتظار کرتے ہیں کہ صاحب مستی سے فارغ ہوں تو شرف دیدار سے مشرف کریں۔ ٭٭٭٭٭ دو روز پہلے دو مست آپس میں لڑ پڑے۔ تقریب شادی کی تھی ایک نے جاتے ہی دوسرے کو گھونسوں پر دھر لیا۔ دوسرے نے بھی جوابی کارروائی کی۔ شادی کے منتظمین نے معاملہ سنبھال لیا۔ بہرحال سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہا لڑائی کا۔ سیاق و سباق کسی حریم شاہ نامی ماڈل گرل کی ویڈیو لائبریری سے متعلق بتایا جاتا ہے۔ اس ویڈیو لائبریری کی جھلکیاں گاہے گاہے سوشل میڈیا پر آتی ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کو خیرہ کرتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نظام دربار شاہی میں کیسے کیسے شریمان ازقم ریسک رام اور کنول پرشاد جلوہ افروز ہیں۔ ایک وزیر کہ سدا بہار مست ہیں‘ اپنی ویڈیو لیک ہوتے ہی عمرے پر نکل گئے اور وہاں سے اپنی تصویر ہائے عبادات جاری فرمائیں۔ ایک اور صحتمند سطح کے مست نے ویڈیو لیک ہونے کے بعد سے اپنی شبانہ روز کی گولہ باری میں قدرے کمی کر دی ہے۔ سنا ہے حریم شاہ کے پاس بہت سی ویڈیو ہیں۔ کئی ایک تو بہت ہی ’’بلند پایہ‘‘ بتائی جاتی ہیں۔ لوگ باگ انہیں محض ماڈل گرل تصور کرتے ہیں دو آنی لیکہ وہ ہماری نافذ ثقافت کا اہم اثاثہ ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر بہت بڑی علامت نگار ان کی چند ماہ پہلے کی ایک ویڈیو وہ تھی جس میں وہ پارلیمنٹ ہائوس کا دروازہ پائوں سے ٹھوکر مار کر کھول رہی ہیں۔ اس سے بڑی علامت نگاری اور کیا ہوں گی۔ انہیں ادیبہ کے لئے۔ وہ پائوں سے علامتی ادب اور کیمرے سے ملامتی ادب لکھتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مست حضرات تجزیہ نگاروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایسے ہی ایک مست نے وفور مستی میں مطالبہ کیا کہ حکومت منڈی کی قوتوں پر ہاتھ ڈالے جو مہنگائی بڑھا رہی ہیں۔ منڈی کی قوتیں کہاں سے اس بیچ آ گئیں‘ کیا تیل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ منڈی کی قوتیں کر رہی ہیں؟کیا چینی کی قیمت میں 25روپے کلو کا اضافہ منڈی کی قوتوں نے کیا؟ (واضح ہے کہ چینی کی صنعت پر اس وقت انصاف کی اجارہ داری ہے)کیا ٹیکسوں کی آندھی منڈی کی قوتوں نے چلائی؟ خبر ہے کہ ٹیکسوں کی مدمیں حکومت نے سال بھر میں عوام کی جیبوں سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے نکلوا لئے اور ابھی اس سے زیادہ اگلے ماہ کے منی بجٹ میں اور اس سے بھی زیادہ جون کے بجٹ میں نکلوائے جائیں گے۔ رواں ہفتہ‘ آج ہی کے اخبار کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں میں 32فیصد اضافہ ہوا۔ بہرحال مستوں کا کیا اعتبار‘ منڈی کی قوتوں ہی کو نہ دھر لیں۔ نتیجہ اور کیا ہو گا کہ دستیاب چیزیں بھی نادستیاب ہو جائیں گی۔