معروف سکالر ڈاکٹر اشوک آنند نے کہا ہے کہ اگر عوام خود غرض اور لالچی ہوں گے تو ان پر کرپٹ افراد حکمرانی کریں گے وہ لالچ ‘ انا‘ غصہ اور لگائو کو بہن بھائی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اکٹھے آتے ہیں اور ان سے نجات بھی اکٹھے ایک ہی وقت میں ممکن ہو سکتی ہے۔ اشکوک آنند کی خود غرض عوام پر کرپٹ افراد کی حکمرانی کرنے کی منطق بھارتی نژاد امریکی سکالر اور ریسرچر پی ایس جگدیش کمار نے بتائی دی جگدیش نے قانون کو ایسا ’’بلیک ہول‘‘ بتایا ہے جہاں طاقتور اپنی انا‘ خود غرضی اور لالچ کے نشہ خمار میںخود لذتی کرتے ہیں۔ جگدیش نے اپنی تحقیق کا آغاز حضرت علیؓ کے اس قول سے متاثر ہو کر کیا تھا۔’’کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم اور ناانصافی کی نہیں‘‘۔جب جرمنی نے انگلینڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی اس وقت بھی سر ونسٹن چرچل کو حضرت علیؓ کے قول پر اس حد تک یقین تھا کہ دعویٰ کر دیا کہ اگر برطانیہ کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت برطانیہ کو شکست نہیں دے سکتی۔ ہم پاکستانیوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ اسلام کے آفاقی اصولوں پر ایمان سے بڑھ کر تحقیق اور ان کا پرچار اہلیان مغرب و مشرق کر رہے ہیں مگر اسلام کے نام پر بننے والی دنیا کی پہلی ریاست کے علماء اور اشرافیہ دین کے آفاقی اصولوں کو تقریروں کے زریعے عوام کو ورغلا کر اپنے اقتدار کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔طاقت ور اشرافیہ نے قانون کو جگدیش کا بلیک ہول بنا کر رکھ دیا ہے۔طاقتور لالچ اور انا کی تسکین کے قانون بنانا اور ختم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔بدقسمتی سے جسٹس منیر کا ’’نظریہ ضرورت‘‘ ہمارے طالع آزمائوں کا ہی نہیں جمہوریت کے دعویداروں کا بھی ہتھیار رہا ۔ یہاں سچ وہ ہے جو طاقتور کہے حکمرانوں کی ضرورت پوری کرے وہی قانون۔ حکمرانوں کے غیر قانونی اور غیر آئین اقدام کے ’’داغ‘‘ نظریہ ضرورت کے ڈیٹرجنٹ سے دھلتے آئے ہیں۔اسی نظریہ ضرورت نے ایوب کو من مانی کرنے اور جمہوریت کی من چاہی تشریح و توضیع کرنے کا جواز فراہم کیا۔بھٹو کے اقتدار کی راہ ہموار کی بھلے ہی ملک دولخت ہو گیا۔ ضیاء الحق کو نوے دن میں الیکشن کروانے کے بجائے نو سال تک حکمرانی کا راستہ دکھایا۔مشرف کے ہر غلط یا صحیح اقدام کے لئے قانونی چھتری فراہم کی۔ سونے پر سہاگہ کے مصداق نوبت با ایں جا رسید کہ طاقتور اشرافیہ قانون کے بلیک ہول میں عوام کو بھی گھسیٹ کر لے گئی۔ان کو اقتدار کے کون اورکب لائق ہے یہ فیصلہ بھی عوام سے ہی کروا یا جانے لگا کس طرح !! مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پارلیمنٹ میں دھائی دی ۔’’ آج تحریک انصاف اقتدار میں ہے عمران خان کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے چور لٹیرے نظر آ رہے ہیں جب ہم اقتدار میں تھے ہمیں بھی ایسا ہی نظر آتا تھا پھر ہمیں سمجھ آ گئی آپ بھی جلد یا بدیر سمجھ جائیں گے‘‘ اللہ کی کرنی تھی شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی اور دہائیوں، برسوں نہیں مہینوں میں ہی عمران خان پر سچ آشکار ہونا شروع ہو گیا ،اقتدار کا فیصلہ کرنے والوں کی ضرورت اور نظریہ بدلہ تو بقول عمران خان کے بذریعہ سیفردھمکی ملی، عمران خان سے نجات کے لئے قانون کا بلیک ہول ایسا کام آیا کہ نجات کے لئے قانونی اور آئینی طریقہ کار خود بخود بروکار آنے لگے آئینی طریقہ سے عمران خان اقتدار سے الگ ہوئے کرسی سے اترتے ہی ایمانداری کا چوغہ بھی اتر گیا۔ گھڑی چوری‘ وہ بھی نقش والی مقدس گھڑی کو بیچنے کے الزامات لگنا شروع ہوئے کل تک جس کے سر پر شفافیت کا تاج تھا اس پر بدعنوانی ،ہیلی کاپٹر کی عیاشی کے مقدمات سے بات نہ بنی تو دہشت گردی اور غداری کے مقدمات کی سنچری مکمل ہو گئی۔ نظریہ ضرورت نے ماضی کے سیسلین مافیا اور چوروں کے داغ دھوناچاہیے تو پبلک ہول سے یہ آواز گونجنے لگی کہ غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو ترقی کی پٹڑی سے اتارنے کے لئے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نااہل کیا گیا اب انصاف کا تقاضا یہ ٹھہرا کہ جب تک انصاف کے پلڑے مساوی نہیں ہو جاتے الیکشن کا اخلاقی جواز ہے نا ہی قانونی۔ پلڑوں کے برابر ہونے میں اگر آئین اور قانون حائل ہے تو ایسے قانون کا بدل جانے میں ہی پاکستان اور پاکستانیوں کی بہتری ہے۔ جج اگر نظریہ ضرورت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو معزز جج صاحبان کے انصاف پر سوال اٹھا دو ،کردار کشی کرو ،عدالت آئین و قانون کی بات کر ے تو پارلیمنٹ قانون تبدیل کر دے۔ پاکستان ہو گا تو قانون بھی ہو گا ۔ عدالتیں بھی اور انتخابات بھی۔ اس عظیم مقصد کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کا بھاری بوجھ اٹھانے کے لئے پارلیمنٹ کا کندھا حاضر ۔ طاقتور اشرافیہ پاکستان کے لئے عوام قانون آئین سب سے قربانی کا تقاضا کر رہی ہے!! ایسا پہلی بار نہیں ماضی میں جب بھی وطن نے قوم کو پکارا، قوم نے کہا ’’حاضر لہو ہمارا‘‘۔البتہ اس بار عوام پتہ نہیں کیوں اڑیل ٹٹو کی طرح اڑ گئے کہ پہلے بتائو کہ سیسلین مافیا اور کرپٹ والی کل کی بات درست تھی یا آج کی اگر کل کا کہا جھوٹ تھا تو اس بات کا امکان تو بہرحال ہے کہ عمران خان کی دہشت گردی چوری اور غدار والی آج کی بات بھی غلط ہو۔ سوال گندم جواب چنا کے مصداق جواب آج بھی بہت سارے مل رہے ہیں مگر اڑیل ٹٹو بنتے نہیں بن رہا ۔اب ایک ہی مشق ہے جو حکمرانوں کی نیا کو پار لگا سکتی ہے اور وہ ہے عمران خان کا یہ تسلیم کرنا کہ اب تحریک انصاف بشمول عمران کو وہ بات سمجھ آ گئی ہے جو سعد رفیق کے بقول مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو پہلے سمجھ آ چکی تھی مگر اس کے لئے صرف اعتراف اور دعوے سے کام چلتا محسوس نہیں ہوتا۔عمران خان آصف علی زرداری نواز شریف کو عوام کے سامنے ناصرف یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ سب حقیقت کو جان چکے ہیں بلکہ میاں شہباز شریف اور عمران خان کو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر پبلک ہول سے نکلنے کے لئے راستہ تلاش کرنا ہو گا۔مگر ایسا ہو گا تب جب انا‘ لالچ ، لگائواورغصہ سب بہن بھائی ہیں اکٹھے جائیں گے۔