آپا دھاپی پڑی ہوئی ہے۔ اسے ایک فلسفے کی شکل دے دی گئی ہے۔ برا نہ مانئے ‘آج کے زمانے میں فلسفے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے جنرل مشرف کو اس طرح کے نسخے ایک یہودی نظریہ باز نے بتائے تھے جسے ہنری کسنجر کہتے ہیں۔ نعرہ خاصا چلا ‘ پہلے پاکستان امریکہ کے صدر ٹرمپ اسی نعرے پر عمل کر رہے ہیں کہ پہلے امریکہ کے لئے یہ نعرہ امریکیوں کے دل کو بھا گیا۔ جب دنیا گلوبل ویلیج کے سحر میں مبتلا تھی‘ ٹرمپ نے اپنے اس رویے سے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یورپ جو امریکہ کا اتحادی تھا‘ ہر معاملے میں ساتھ چلتا تھا‘ اس کے لیڈروں کو دھتکارنا اور ڈانٹنا شروع کر دیا۔ چین جس کے ساتھ معیشت جڑی ہوئی تھی‘ اس سے بھی تصادم شروع کر دیا حتیٰ کہ لاطینی امریکہ جسے وہ ایک زمانے میں اپنا پائیںباغ Back yardکہتا تھا اور دنیا کو گھورتا تھا کہ خبردار جو ادھر نظر کی اسے بھی نظر انداز کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار کھڑی کر دوں گا حالانکہ 11فیصد میکسیکن امریکہ میں بستے ہیں اور میکسیکو کی پیداوار اور مصنوعات کا تقریباً سارا ہی حصہ امریکہ میں جاتا ہے۔ دنیا کی معیشت ایسی سمٹ گئی ہے کہ اب جنوبی امریکہ‘ کینیڈا یا یورپ ہی کا انحصار ایک دوسرے پر نہیں امریکہ کے کارخانے بھی چین کی سستی لیز پر چین میں چلتے تھے۔ دنیا اس طرح ملی ہوتی ہے کہ کوئی ملک اکیلا ترقی کے راستے پر نہیں چل سکتا۔ کسی پراڈکٹ کا ایک پرزہ امریکہ میں بنتا ہے تو دوسرا چین سے آتا ہے۔ خیال تھا کہ دنیا سکڑتی جائے گی اور بنی نوع انسان میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ زر پرست اور زرنہاد معاشرے میں ایسا ممکن نہ تھا۔ سرمایہ کاروں نے یہ سارا نظام بھی اسی خاطر بنایا تھاکہ ان کو فائدہ پہنچے۔ اس کا اگرچہ ایک فائدہ یہ ہوا کہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک ترقی کی دوڑ میں کئی منزلیں طے کر کے آگے بڑھ گئے۔ وہاں ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو یہ سہولت ملی کہ انہیں سستی اشیائے صرف ملنے لگی۔ سرمایہ داری کا یہ حربہ ایسا تھا جسے بظاہر عالمگیر سطح پر مقبولیت ملی۔ اسی دوران متوازی طور پر ایسی فسطائی فکر بھی پروان چڑھنے لگی جو ہزار دلائل سے لیس تھی اور کہتی تھی کہ ہمیں عالمی سطح پر نہیں قومی سطح پر سوچنا چاہیے۔ امریکہ میں گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے دوسرے نصف میں یہ فکر خاص طور پر ایک فلسفے کے طور پر پروان چڑھی۔ یہ تو قدامت پرست یا نیو کنزرویٹو (نیوکان) کہلاتے تھے۔ دنیا نے کئی برس اس فکر سے لڑتے گزارے۔ میں کہا کرتا تھا یہ فکر بنیاد پرستانہ بھی ہے‘ سامراجی بھی ہے اور فسطائی بھی۔ ٹرمپ کے وہاں آ نے سے گویا قیامت آ گئی۔ وہ ہر ایک سے لڑتا جھگڑتا حتیٰ کہ کورونا نے دنیا کو ایک کر دیا‘ ایک اور معنی میں گلوبل ویلیج بنا دیا اس وبا نے غریب کو دیکھا نہ امیر کو‘ اس بات کی پروا کی کہ اس کی زد میں آنے والا امریکی ہے یا غیر امریکی۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک اس کے ریلے میں کچلے گئے۔ اس وقت اس بلا نے امریکہ‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ سپین‘ فرانس کو روند کر رکھ دیا ہے۔ جرمنی‘ جاپان دوسرے ممالک بھی اس کے نشانے پر ہیں۔ انسان قید ہو گئے اور صنعتیں کاروبار بند ہو گئے۔ انسان اور اس کا سرمایہ دار اس کی ٹیکنالوجی سب بے کار ہو گئے۔ اب امریکہ میں بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس بیماری کا مقابلہ قومی سطح پر کرے یا اسے عالمی قوتوں سے تعاون کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کا امریکہ باز نہیں آ رہا۔ تاہم امریکہ میں سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 97فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ دنیا سے مل کر اس جنگ سے لڑائی کی جائے۔ اس میں 86فیصد تو وہ ہیں جن کا شدت سے یہ خیال ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔11فیصد اگرچہ نرم رویہ رکھتے ہیں اور صرف 3فیصد ایسے ہیں کہ امریکہ اپنی نبیڑے‘ اسے پرائی کیا پڑی ہے۔ دوسری طرف بڑی بڑی فرمیں اور ادارے اس خود غرضانہ سوچ میں لگے ہوئے ہیں کہ امریکہ باقی دنیا سے کٹ کر اپنی فکر کرے۔ مگر کیسے کرے۔ یہ ایک گلوبل مسئلہ ہے۔ اگر دنیا میں کوئی ایک مریض بھی اس بیماری میں مبتلا رہا تو امریکہ نہ تجارت کر سکے گا نہ مسافرت۔ امریکہ نے یہ غلطی شروع میں کی اور چین کو کوسنے دیتا رہا۔ وہ اب بھی یہی کر رہا ہے کہ ہم جلد ثابت کریں گے کہ یہ بیماری قدرتی طور پر نہیں پیدا ہوئی بلکہ چین کی کسی لیب میں تیار ہوئی ہے۔اگرچہ چین کے حوالے سے ایک اس سے بھی زیادہ الف لیلوی کہانی امریکہ کے بارے میں آئی ہے۔ اس وقت جنگ اس مسئلے پر جاری ہے کہ پہلے ویکسین کون بناتا ہے۔ امریکہ کا سرمایہ دار اس بات پر مطمئن نہیں ہو گا کہ یہ ویکسین تیار ہو جائے بلکہ وہ چاہتا ہے وہ تیار کرے۔ اس نے ابھی سے چین پر الزام لگانا شروع کر دیا ہے کہ اس نے اپنی فارماسوٹیکل انڈسٹری کو رعائتیں دے رکھی ہیں۔ غالباً چار ادارے اس کام میں جت گئے ہیں‘ مگر صاحب ان اداروں کی تو ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے۔ یہ غیر معیاری ویکسین تیار کرتی رہی ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ’’پنڈوسیا نہیں اور اچکے پہلے‘‘(گائوں آباد نہیں ہوا اور اچکے پہلے ہی آن پہنچے ہیں)۔ اس وقت بھی 50فیصد ماسک امریکہ سے آ رہے ہیں۔ امریکہ کا ادارہ ایف ڈی اے کہتا ہے امریکیوں کی خوراک کا 15فیصد باہر سے آتا ہے۔ وہاں کے ماہرین نہیں جانتے کہ بین الاقوامی اداروں کا ایک جال ہے جو ایک ایک شے کی پیداوار میں مل کر کام کرتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت امریکی تھنک ٹینک میں سے صرف ایک نے اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ کورونا کی جنگ ہمیں صرف اندرون ملک نہیں بلکہ بیرون ملک بھی لڑنا ہے۔ ان کے الفاظ میں Homeہی نہیںAbroadبھی۔ یہ ادارہ امرلس انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ ہے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہ ادارہ تھا جہاں گویا نو قدامت پسندوں کی پیدائش ہوتی تھی۔ یہاں بش نے عراق کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کیا تھا اور جس بلڈنگ میں یہ دفتر ہے‘ اس کی اوپری منزل پر (جو غالباً15ویں منزل ہے) وہ دستاویز تیار ہوئی جسے پراجیکٹ فار نیو امریکن سنچری کہتے ہیں۔ یہ قوم پرست ادارہ یا جسے رائٹ آف سنٹر کہتے ہیں یہ رویہ رکھتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پہلے امریکہ کے نعرے کو ٹرمپ ازم کی عینک سے دیکھنے میں کتنا خطرہ ہے۔ آخر میں جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات پاکستان کے حوالے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ہم تو اس عالمی جنگ میں کہیں نہیں ہیں مگر پہلے میں کی آپا دھاپی ہمارے ہاں اپنے انداز اور اپنی اوقات کے مطابق جاری ہے۔ مثال کے طور پر وفاق کہہ رہا ہے‘ میں ٹھیک ہوں‘ صوبے کہتے ہیں ہم سب سے آگے ہیں۔ یہاں صوبوں سے مراد صرف ایک صوبہ ہے یعنی سندھ۔ سیاسی جماعتیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں جس طرح امریکی کمپنیاں اس فکر میں ہیں کہ کورونا کا فائدہ بعد میں کسے ہو گا۔ اس طرح ہمارے ہاں یہ پڑی ہوئی ہے کہ کورونا تو چلا جائے گا مگر اقتدار کا کیا بنے گا۔ حکومت کی خاص توجہ آج کل مسلم لیگ ن پر ہے۔ نیب پھر سے اچانک فعال ہو گئی ہے۔ نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ رانا ثناء اللہ وغیرہ عید کے بعد جیل میں ہوں گے۔ پیپلز پارٹی البتہ اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے تگنی کا ناچ نچائے ہوئے ہے۔ پہلے کون میں ہماری اوقات صرف اتنی ہے۔