یوم اساتذہ پر میں نہیں لکھوں گا تو کون لکھے گا! اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کوئی غیر معمولی استاد تھا اور میں نے 33سال تک انگریزی زبان و ادب پڑھایا۔ میرا اعزاز اصل میں یہ ہے کہ میں نے عظیم اساتذہ کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ استاد کے حوالے سے پہلی اور آخری بات تو یہی ہے کہ ُامّی لقب پانے والے نے اپنا پہلا تعارف یہ کروایا کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ علم ویسے بھی پیغمبروں کی وراثت ہے۔ بات میں کروں گا اپنے اساتذہ کی جنہوں نے میرے لئے لفظوں کو روشن کیا۔ ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ ہمارے اساتذہ کا خوف ہمارے حواس پر سوار تھا مگر ان کی سزا میں ان کی محبت اور خلوص شامل ہوتا تھا۔ ہم نے ہاتھ پر ان گنت ڈنڈے کھائے اور اس کا ہمیں ذرا ملال نہیں کہ تب کا یاد کیا ہوا سبق کبھی نہیں بھولا۔ اردو کے استاد احمد حسن صاحب کے لئے اب بھی دل سے دعائیں نکلتی ہیں تب وہ ہمیں ذرا بھی اچھے نہیں لگتے تھے کہ انہوں نے کبھی ایک بھی چھٹی کی ہو اور پھر روزانہ ہوم ورک چیک نہ کیا ہو۔ میرے ایک استاد نور احمد تھے جنہوں نے ہمیں چھٹی جماعت میں چند دنوں میں اے بی سی اور لفظ بنانے سکھا دیے۔ وہ اتنے جلالی تھے کہ بس۔ پتہ نہیں انہوں نے کراٹے کہاں سے سیکھے تھے کہ بھول جانے پر وہ اپنا پائوں کراٹے کے کھلاڑی کی طرح گردن پر مارتے تھے۔ ان کا ایک فقرہ میں زندگی بھر نہیں بھولا کہ میری پٹائی کرتے ہوئے کہنے لگے ’’اوئے توں نصراللہ شاہ دا پتر ایں جہدا میٹرک دا ریکارڈ 25سال بعد ٹٹیا سی‘‘ ان کا تخلیقی جملہ ذہن میں آتا ہے تو میں مسکرا دیتا ہوں۔ کیا اچھے دن تھے۔ بزم ادب ہوتی تقریر کرنا سکھائی جاتی اشعار یاد کروائے جاتے اور صفائی ستھرائی کا پیریڈ ہوتا۔ اساتذہ ایک گھر کے ماحول کو اجاگر کرتے۔ کالج میں آئے تو سیاست میں پڑ گئے میں یونین میں آ گیا مگر سائنس کے طالب علم کا سیاست سے کیا کام۔ ہم سائنس اساتذہ کی نظروں میں آ گئے جو سالٹ اینیلسز کے لئے ہمیں ملتا تھا ہم سے کبھی دریافت نہ ہو سکا۔ گویا ہم سپیشل کیس تھے۔ شاعری تب بھی ہم کرتے تھے اور کالج کی طرف سے بین الاقوامی مشاعروں میں جاتے تھے۔ یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں آئے تو کیسے کیسے کمال اساتذہ ہمیں میسر آئے۔ ہر طرف کی تازہ اور معطر ہوائیں۔ ہمارے ساتھ فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور سامنے سڑک پار نیشنل کالج آف آرٹس اور چند قدموں پر انارکلی بازار گویا زیب داستان بہت کچھ تھا۔ اساتذہ میں اسماعیل بھٹی مرحوم‘ رضی عابدی‘ پروفیسر افتخار احمد‘ نوید شہزاد‘ شائستہ سراج‘ میڈم کنیز اسلم اور فریدہ جاوید۔ یہ نام ادب کی دنیا میں بہت زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ان میں میڈم نوید شہزاد نے تو قوی کے ساتھ مشہور پلے ’’دورِ جنوں‘‘ کیا تھا۔ بہرحال میں پروفیسر افتخار احمد کے چہیتے شاگردوں میں تھا۔ ان کے ساتھ پیدل ہی امریکن سنٹر اور برٹش کونسل جاتا۔ سفر میں سیکھنے کا عمل جاری رہتا۔ ایک واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ میں امریکن سنٹر گیا اور افتخارصاحب کو نہ پایا تو وہاں کی لائبریری انچارج محترمہ سے دریافت کیا تو کہنے لگیں میں افتخار احمد کو نہیں پہچانتی۔ مجھے تو ان سے ضروری ملنا تھا میں نے میڈم سے کہا کہ وہ میرا ایک کام کر دیں کہ امریکن سنٹر میں جو بھی سب سے خوبصورت آدمی آئے اسے بتا دیں کہ آپ کا شاگرد آپ کو ڈھونڈتے ہوئے برٹش کونسل چلا گیا ہے۔ وہ محترمہ مسکرا دیں۔ ایک گھنٹے کے بعد سر برٹش کونسل آئے اور ہنستے ہوئے بولے ’’بھئی تم نے میڈم کو کیا کہا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ آپ کا ایک شاگرد کہہ کر گیا ہے کہ جو بھی سب سے خوبصورت آدمی آئے تو وہ میرے استاد افتخار احمد ہونگے تو انہیں برٹش کونسل میں بھیج دیجیے گا۔وہ کہنے لگی فی الحال تو سب سے خوبصورت مجھے آپ ہی لگے ہیں‘‘ سچ مچ یہی اساتذہ تھے جو چلتے پھرتے بھی سکھاتے اور تربیت کرتے۔ وہ درس و تدریس سے نکل کر بھی ادھر ادھرکا علم دیتے جو شخصیت میں نکھار پیدا کرتا۔ تب اساتذہ کی عزت بھی تو اسی طرح کی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اسلامیہ کالج سول لائن میں استاد بن کر آیا تو مجھے سب سے بڑی خوشی یہ ہوئی کہ وہاں میرے دادا استاد اختر الدین صاحب پرنسپل تھے اور ایک حوالہ اس کالج کا معروف ادیب حمید احمد خاں بھی تھے۔ وہ اتنے غیر معمولی لوگ تھے کہ اب تک لوگ ان کے لئے رطب اللسان ہیں۔ ایک مرتبہ کالج میں لڑکوں نے سٹرائیک کر دی تو حمید احمد خاں اپنا گائون پہن کر آئے کالج پر لگے ہوئے پاکستان کے جھنڈے کو سرنگوں کیا اور نیچے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک احتجاج تھا کہ ان کے ہوتے ہوئے طلباء نے بائیکاٹ کیا ہے۔ اساتذہ اور طلبا نے ان کی منت سماجت کر کے منایا اور احتجاج ختم ہو گیا۔ ڈاکٹر معروف جیسا فلاسفر بھی میرا پرنسپل رہا۔ پائندہ ارمغان ملک بھی۔ اپنے پیارے دوست علی ظہیر منہاس کو بھی کیوں یاد نہ کریں۔ ماشاء اللہ وہ اب بھی جوان ہیں۔ وہ بھی پرنسپل رہے ۔ ان کا ایک شعر یہاں ضروری ہے: کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے معزز قارئین: میں ایک بات کہا کرتا ہوں کہ آپ کے شاگردوں کو آپ کی شہرت ورتبے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کو تو وہی ملے گا جو آپ ان کے دامن میں ڈالیں گے۔ آپ اگر انہیں دیانتداری سے پڑھاتے ہیں تو وہ مرتے دم تک آپ کی عزت کریں گے۔ وہ آپ کا مکمل اور مسلسل تعارف ہیں۔ وہ اساتذہ جو کلاس نہیں لیتے اور طلباء کو پسندہوتے ہیں‘ بعد میں طلبا ان کا ذکر اچھا نہیں کرتے۔ ان باتوں کو چھوڑ کر ویسے بھی یہ حلال اور حرام کا معاملہ ہے۔ یہ کوئی خودستائی کی بات نہیں۔ مجھ سے بھی غفلت ہوئی ہو گی لیکن میں کوئی عادی نہیں تھا۔ کلاس پڑھانے کی پوری کوشش کرتا تھا۔