فرمایا: انسان کی اُفتاد طبع ہی اس کا مقدر ہے۔ یہ بھی کہ خود پسندی عقل کے حریفوں میں سے ہے۔ اور انسان ہے کہ کھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ وقت کی سان پر …دنیا کی انتہا طاقت، دولت اور وہ کچھ ہے جس کی انتہا فنا ہی فنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کھیل میں جیت بھی اکثر مات ہی ہوتی ہے۔ خالق کے اصول نہیں بدلتے۔ انسان دھوکا کھاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی آج کل ہی نہیں عرصہ دراز سے ایسا ہورہا ہے۔ طاقت کے ایوان …سرگوشیاں کرتی غلام گردشیں …آنکھوں سے اشارے کرنے والے اور پھر سازشیں رچانے والے۔ کیا آئین …کیا جمہوریت؟ لبادے ہیں مکھوٹے ہیں۔ بنیادی کھیل وہی ہے طاقت اور صرف طاقت کا کھیل۔ کوئی غلام محمد کو کوستا ہے تو کوئی سکندر مرزا کو۔ کہیں ایوب کا ذکر تو کہیں مشرف اور ضیائ۔ ان کے سائے میں قابل اور نالائق ہر دو طرح کے سیاستدان آئے، مگر چلتے بنے۔ کیوں؟ کبھی آئین نہ تھا اور کبھی آئین کو نہ ماننے والے۔ حال کیا ہوتا ہے؟ ماضی کے سائے … مستقبل کیا ہوتا ہے؟ ماضی اور حال کی صدائے بازگشت۔ تو آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ہمارا ماضی چلتے چلتے ہمیں لے آیا۔ پاکستان، جسے بھارت عالمی پلیٹ فارمز پر ایسا ایسا طعنہ دیتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کی بہترین تقریر کے باوجود پرنالہ وہیں رہتا ہے۔ کشمیر پر اور گورننس پر کیا عمران خان کی فصاحت کام آئے گی؟ Politics Among Nations ایک کتاب ہے جس میں ایک لائن یہ بھی ہے کہ خارجہ پالیسی آپ کی ڈومیسٹک پالیسی کا پرتو ہوتی ہے، یعنی عکس۔ یہاں سرِ آئینہ کوئی اور ہے اور پسِ آئینہ کوئی اور ۔ ایسے میں نتیجہ سامنے دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ اس وقت ریاست اور حکومت کے زخم اوپن سیکرٹ ہیں۔ بھارت صرف پڑوسی ہی نہیں مکار، کائیاں اور گھاگ پڑوسی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اکانومی ہے۔ جنگیں صرف جذبوں سے ہی نہیں لڑی جاتیں۔ جنگ اگر طول پکڑ جائے … ذرا سا طول تو حکمت عملی کے ساتھ فلو آف منی بھی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ اب یہ خلا کہاں سے پر ہوسکتا ہے؟ اکانومی کا ایک بڑا حجم تو وہ تھا جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہ تھا۔ حساب مانگا …پہچان مانگی تو انوسٹمنٹ رک گئی۔ رئیل اسٹیٹ والے بھی اور دیگر سبھی۔ سب نے ہاتھ کھینچ لیا۔ گورننس کیا ہے؟ دن پھرے ہیں بس وزیروں کے۔ علی زیدی سے خسرو بختیار تک۔ سب سے بڑا صوبہ پنجاب، اس پر کس کی حکومت ہے؟ اور خیبرپختونخواہ پر بھی۔ باقی کو چھوڑیں ان دو صوبوں میں بنامِ گورننس کیا ہورہا ہے؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ جس طرح آج تاریخ شہباز شریف سے پوچھتی ہے کہ حضور یہ میٹرو اور اورنج لائن کی کیا ضرورت تھی۔ ایسے ملک میں اور شہر میں بھی جہاں بچے سکول نہیں جاتے، جہاں تعلیم شدید مہنگی ہے۔ جہاں عورتیں بچوں کو ایمرجنسی کے اندر نہیں باہر جنم دے دیتی ہیں۔ جہاں پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ ایسے ہی تاریخ کپتان سے بھی سوال کرے گی کہ آپ حضرت بزدار کو کیا سوچ کر سب سے بڑے صوبے پر لے آئے۔ ان کے پہلو میں آپ نے پرویز الٰہی صاحب اور جناب محمد سرور کو بٹھادیا۔ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ مگر پھر سہی! پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا۔ لاہور پنجاب کی نبض ہے۔ ایسے میں پنجاب اور لاہور میں عام آدمی تک حکومت بدلنے کا احساس پہنچتا تو نون کے ووٹ بینک میں ڈینٹ پڑتا۔ اگر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس ڈلیور کرتے تو ثمرات فٹ پاتھ تک پہنچتے۔ جنہیں ہم سیاستدان کہتے ہیں ان کا وژن اور تجربہ صاف نظر آرہا ہے۔ بیوروکریسی نیب کے خوف سے بطور احتجاج مسکرا مسکرا کر کام نہیں کررہی۔ یہ ساری صورتحال کیا جوں کی توں ہی رہے گی؟ ناممکن۔ ہمارے موورز اور شیکرز سر پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ بہت سے کمپرومائز ہوگئے۔ کچھ ہونے جارہے ہیں ٹرمپ کا داماد اور شہزادہ سلمان مل جل کر پاکستان کو انگیج کر رہے ہیں۔ سعودیہ برادر اسلامی ملک سہی مگر طاقت لوکل ہو یا عالمی اس کے کھیل میں اخلاقیات اور نظریات سائیڈ لائن ہوجاتے ہیں۔ تمام گلوبل ڈونر ادارے …ٹرمپ کی آشیرباد پر شکنجہ کس رہے ہیں پاکستان کے گرد۔ وزیراعظم یو این او کے پلیٹ فارم پر ایک خوبصورت تقریر کرکے صرف داد سمیٹ سکتا ہے مگر زمینی حقائق خاصے خوفناک ہیں۔ ایک پہلو گورننس کا ہے، دوسرا اکانومی کا …تیسرا ان سیاسی حقائق کا جو پاکستان کے اندر فضل الرحمن سے بلاول اور شریفس تک ٹی وی سکرین پر رونق لگائے ہوئے ہیں۔ مگر ان سب کے پس پردہ معاملات کسی اور جانب بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان کا عہد کس طرح تمام ہو کہ پاکستان کسی بھی سطح پر اس طرح کی گورننس اور فیصلے افورڈ نہیں کرسکتا۔ صاحب بصیرت حلقے کہتے ہیں کہ بزنس کمیونٹی آرمی چیف سے ملے تو کیا ہوتا ہے؟ کیا کبھی بھارت اور امریکہ یہاں تک کہ بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہوا ہے۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے۔ کچھ ادھر کے صحافی یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاستدان اور حکومت صلح کرلیں تو بگڑی ہوئی بات بن جائے گی۔ مگر یہ دلیل بالکل بے وزن ہے۔ ایسے میں عوام ہیں کہ ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگ رہے ہیں، آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان بند راستوں سے کوئی راستہ نکلے۔ کیا یہ صرف عوام کے لیے بند گلی ہے؟ حکومت کے لیے؟ یا ریاست کے لیے بھی؟ بڑھتے بڑھتے بڑھ چلا دست ہوس گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا