علامہ اقبالؒ نے سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں لادینی نظاموں کو ٹھکرا دیا تھا کیونکہ ان دونوں نظاموں میں احترام آدمیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اخلاقی اصولوں کو پرے پھینک دیا جاتا ہے۔ اشتراکی نظام میں سرے سے معاشی پروگرام موجود نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کارل مارکس نے معاشی پروگرام مانگنے والوں کا مذاق اڑایا۔ دونوں لادینی نظام ہیں۔ دونوں نظام فلسفہ اسلام سے ٹکراؤ رکھتے ہیں جبکہ اسلام کا نقطہ نظر اخلاق ہے، فرد کی انفرادی حیثیت برقرار رہتی۔ اسلامی ہدایت کے تحت نظام معیشت چلتا ہے۔ سیاسی، تمدنی، اخلاقی اور معاشی خطوط کے حوالے سے اقبالؒ کا نصب العین احکامِ الٰہی کی اطاعت تھی۔ اس بنا پر وہ کسی بھی مادہ پرستانہ نظام معیشت کی طرف نہ آسکے۔ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ اسلام دین فطرت ہے جس میں فرد عافیت انسانی کو مقام و مرتبہ سے عطا کیا گیا جبکہ اشتراکیت و ملوکیت دونوں کی مظلوموں کی کمائی پر عیاشی کرتے ہیں یہ دونوں نظام طبقاتی فرق اور قتل و غارت پر مبنی ہیں۔ عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست منعقدہ 5 اکتوبر2022ء کو عثمان غازی نے اپنے خطاب میںکلام اقبالؒ کی روشنی میں بتایا کہ اس وقت اسلام کے مقابلے میں سرمایاداری نظام اور اشتراکیت برسرپیکار تھے۔ سرمایادارانہ نظام معیشت میں زرو جواہرات اوردھن دولت کے انبارلگانے کی کوئی قید نہیں جب کہ اشتراکیت ذاتی ملکیت پرپوری قوت سے پابندی لگاکر سب کچھ ریاست کی ملکیت میں دینے کا نظریہ رکھتی ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی نظام معیشت ایک متوازن اورانسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلامی نظام معیشت میں انسان کاکچھ بھی اپنا نہیں ہوتا بلکہ سب اللہ تعالی کی عنایت وامانت ہوتی ہے۔ علامہؒ نے واشگاف الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ سرمایادارانہ نظام،اشتراکیت اورمغربی جمہوریت میں انسان کے لیے صرف استحصال،ظلم اور بے انصافی ہے جب کہ آسودگی،راحت اورپیار و محبت کا درس صرف اسلام کے نظام معیشت میںہے جہاں صدقات فی سبیل اللہ سے معاشرے کی آبیاری کی جاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ اورمولانامودودیؒ کے افکارکی روشنی میں اسلام کا عادلانہ معاشرتی ومعاشی و سیاسی نظام وطن عزیزمیںنافذکرنا ہوگا تب ہی ہماری سمت اورقبلہ درست ہوسکتا ہے اورہم ترقی کرسکیں گے۔ علامہ اقبالؒ کے افکار معیشت کا پہلا بھر پور اظہار اور اس موضوع کے ساتھ ان کی دل بستگی ان کی تصنیف علم الاقتصاد سے سامنے آئی۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اقبالؒ کی علمی کوششوں کا پہلا ثمر 1903ء میں علم الاقتصاد کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ مشہور ماہر اقبالؒیات ممتاز حسن کے بقول علم الاقتصاد اردو زبان کی جدید معاشیات پر پہلی کتاب ہے۔ اس لحاظ سے اقبالؒ کی علم الاقتصاد اردو میں اپنی اولیت اور اہمیت کے اعتبار سے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبالؒ طبعاً انقلاب پسند تھے اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے نقیب تھے۔ انہوں نے اشتراکیت کی چند پہلووں کی تعریف کے سوا اس کے دیگر عملی پہلووں کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرمایہ داری نظام پر بھی کھل کر تنقید کی۔ پیام َ مشرق میں اس موضوع پر ان کی تین نظمیں ہیں جن میں سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور مزدور کی بے بسی کا نقشہ کھینچاگیا ہے۔اقبالؒ سوشلزم کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ زمین پر کسی کی شخصی ملکیت نہیں۔ زمین کی ملکیت کے بارے اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ اقبالؒ زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ریاستی اتھارٹی پیداوار کا کچھ حصہ ملکی ضروریات کے لئے طلب کر سکتی ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا اس پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبالؒ نے بڑے زور شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ آج ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوں کو ایک نظر علامہ اقبالؒ کی پہلی کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ پر بھی ڈال لینی چاہیے اور اقبالؒ کے آخری شعری کارناموں میں سے ’’پس چہ باید کرد‘‘ میں پوشیدہ حکمت اور حکمتِ عملی پر بھی بار بار غور کرنا چاہیے۔ اقبالؒ نے آج سے ایک صدی پیشتر لکھا تھا کہ تعلیم اور اقتصادی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ اقبالؒ کے خیال میں جب تک تعلیم عام نہ ہوگی تب تک اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اسی طرح اقبالؒ نے آبادی کی منصوبہ بندی کی اہمیت کو اْجاگر کرتے ہوئے شادی بیاہ اور اْس سے متعلق خاندانی رسوم کی اصلاح کو بھی وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا تھا۔ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور اپنی فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کے خلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اقبالؒ کے تصورات کو پاکستان میں ایک عادلانہ معاشی نظام کے نفاذ کی بنیاد بنائیں۔ اقبالؒ کے فکر کا نچوڑ یہ ہے کہ معاشرت ہو یا معیشت اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جو مساوات، انسان کی عزت و آبرو اور اس کے روح و شکم کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اقبالؒ اپنی شاعری اور فکر میں اس امر کے داعی ہیں کہ مسلمانوںکی نشاۃ ثانیہ کا ظہور ممکن ہے اگر مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات، نئے علم و ہنر کی تخلیق و تحصیل ، اجتہاد، خود انحصاری اور عشق و مستی کے اسی جذبے کو پھر سے اپنا سکیں جس کی وجہ سے مسلمان کئی سو سال دنیا کے افق پر غالب رہے۔ ٭٭٭٭٭