مارگلہ کی پہاڑیوں کے بالکل قریب واقع ایک مقام پر کل شام جب مونس الٰہی سے ملاقات ہوئی تو موسلا دھار بارش برس رہی تھی۔ کھڑکی سے باہر مارگلہ پر برستی بارش کی بوندیں بار بار اپنی جانب کھینچتی تھیں اور مونس الٰہی کی گفتگو سے ٹپکتی گرماگرم خبریں اپنی جانب۔ پنجاب حکومت ق لیگ کو ملنے کے بعد یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ بہت سے اہم سوال ان سے پوچھے گئے جن کے جوابات میں کہی گئی بہت سی باتیں بطور صحافی میرے لیے خبر کا درجہ رکھتی تھیں۔ میں نے چھوٹتے ہی سوال کیا کہ ق لیگ تحریک انصاف کی طرح فوری انتخابات میں جانا چاہتی ہے یا پنجاب حکومت کی مدت پوری کرنا ان کی ترجیح ہو گی۔ میرا خیال تھا وہ اس سوال کا مبہم جواب دیں گے کیونکہ تاثر یہی ہے کہ ق لیگ اب وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد فوری الیکشن میں جانا نہیں چاہے گی۔ مگر بغیر لگی لپٹی رکھے انہوں نے کہا عمران خان کی طرح ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ بلا تاخیر فورا الیکشن میں جایا جائے۔مونس الٰہی کی اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ویسے ہی سوچتے ہیں جیسے تحریک انصاف سوچتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت رائے عامہ تحریک انصاف کے حق میں ہے اور اس کا فائدہ اگلے پانچ سال کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے ضرور اٹھانا چاہیے۔ میں نے سوال کیا اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے تعلقات میں تنائو ختم کرنے کے لیے پرویز الٰہی نے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ صرف ہمارے ہی نہیں عمران خان کے اپنے اسٹیبلشمنٹ سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں ۔ وقتی طور پر تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے ،آنے والے دنوں میں تعلقات میں بہتری کے واضح امکانات موجود ہیں۔ میں نے ایک اور اہم سوال مونس الٰہی کی جانب اچھال دیا۔ میں نے پوچھا کیا اس بات کا امکان ہے کہ ق لیگ کے امیدوار اگلا الیکشن بلے کے نشان پر لڑیں ۔ انہوں نے فورا کہا فیصلہ تو وقت آنے پر کریں گے لیکن امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔ میرے نزدیک مونس الٰہی کی یہ بات بہت اہم تھی۔ ماضی میں بھی یہ باتیں سامنے آ چکی ہیں کہ عمران خان ق لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ کچھ ذرائع کے مطابق ایک وقت میں عمران خان نے پرویز الہٰی کو وزیر اعلی بنانے کے لیے یہ شرط بھی رکھی۔اب بھی اس بات کا امکان ہے کہ اگر ق لیگ کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کے ساتھ دعوت دی جائے کہ وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں تو وہ اس بات پہ غور کر سکتے ہیں ۔ مونس الٰہی سے چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت کے تعلقات پر بھی گفتگو ہوئی۔سوال ہوا کہ کیا دونوں کے درمیان سیاسی رابطے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا جب سے چودھری شجاعت نے سیاسی راہیں جدا کی ہیں دونوں بھائیوں کے بیچ کوئی سیاسی رابطہ نہیں ہوا۔ صرف ایک بار رابطہ ہوا ہے وہ بھی ایک مشترکہ کاروباری معاملے پر، جس میں سیاست پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ چودھری شجاعت کا ذکر نکلا تو طارق بشیر چیمہ کی بھی بات ہوئی۔ سوال ہوا کہ اس سارے معاملے میں طارق بشیر چیمہ کا کیا کردار رہا ۔ مونس الٰہی نے سوچتے ہوئے جواب دیا کہ طارق بشیر چیمہ کے کردار پر تفتیش ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا چیمہ صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ میری بس اب دو ہی خواہشات ہیں ، ایک یہ کہ وہ اپنے بیٹے کو ایم این اے دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ مرنے سے پہلے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مونس الٰہی نے حیرت سے کہا پھر چیمہ صاحب کو اچانک نہ جانے کیا ہو گیا۔ عمران خان کے ساتھ تعلقات اور حالیہ ملاقاتوں پر مونس الٰہی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہمیں لانگ مارچ کی تیاری کا کہا ہے ،لانگ مارچ کی کال پر ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ق لیگ کے کارکنان بھی لانگ مارچ میں سڑکوں پر نظر آئیں گے۔ان سے سوال ہوا کہ اگر عمران خان نے پنجاب اسمبلی توڑنے کا کہا تو کیا کریں گے۔ مونس الٰہی نے بغیر توقف کے جواب دیا کہ عمران خان نے کہا تو اسمبلیاں توڑنے میں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا دستخط کرنے میں لگتا ہے ۔ ایک سوال یہ بھی ہوا کہ کیا مستقبل میں ان کان لیگ کے ساتھ اتحاد ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب توقع کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ ن لیگ کے ساتھ سیاسی تعلقات استوار ہو سکیں ۔ ن لیگ کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کی صورت میں پنجاب حکومت ق لیگ کے ہاتھ سے جانے کے امکانات پر بھی گفتگو ہوئی۔ جس کے جواب میں مونس الٰہی کافی پُر اعتماد نظر آئے۔ انہوں نے ایک ایک رکن پنجاب اسمبلی کا نام لے کر کہا کہ ان میں سے کوئی بھی شخص ق لیگ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت گرانے کی باتیں کر کے ن لیگ اپنی خفت مٹانے اور پنجاب میں ریلیونٹ رہنے کی کوشش کرتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ حمزہ شہباز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب میں حمزہ کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں کیونکہ نواز شریف ان کی پرفارمنس سے بہت نا خوش ہوں ۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جس دن حمزہ شہباز کی حکومت گئی سب سے زیادہ مریم نواز خوش تھیں ۔ مونس الٰہی کی مجموعی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مستقبل کی اپنی سیاست کو تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ دیکھتے ہیں اور ن لیگ کو اپنے اتحاد کا آپشن نہیں سمجھتے۔ وہ اس بات پر بہت فخر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ فیصلہ کن گھڑی میں انہوں نے صحیح آپشن کا استعمال کیا ۔ مونس الٰہی کے فیصلے کتنے درست ہیں اور کتنے غلط اس کا فیصلہ تو بحرحال مستقبل نے ہی کرنا ہے مگر آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ مونس الٰہی اب تک اپنی سیاسی چالیں صحیح طریقے سے چلنے میں کامیاب رہے۔