عمران خاںکی کپتانی کے طفیل کرکٹ نے سیاست کو کئی اصطلاحیں عطا کی ہیں مگر جو کامرانی وسیم اکرم پلس کو ملی ہے‘ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اب لگتا ہے یہ قرض چکانے کا وقت آ گیا ہے۔ آسٹریلیا سے ہماری ٹیم لوٹی ہے اور اپنے ساتھ ایک اور کردار لے کر آئی ہے۔ کیا خیال ہے مصباح الحق کی ڈسکوری بزدار پلس کی دریافت کے مترادف نہیں ہے۔ ساری دنیا چیخ رہی ہے کہ ایک ہی شخص کی جھولی میں سب کچھ نہ ڈالتے جائو۔ نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ مگر کپتان ہے کہ مان کر نہیں دے رہا وہ کہہ رہا ہے۔ میں نے دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی ہے جو مجھے پتا ہے۔ کسی کو نہیں پتا۔ جاوید میانداد کہتے ہیں بھئی میں نے بھی اسی دشت کی خاک چھانی ہے اپنی سی نہ چلائو۔ ایک نہیں ایک سے ایک تجربہ کارکرکٹر اس حکمت عملی کی مخالفت کر رہا جو عمران نے کرکٹ میں اختیار کی ہے وہ کہیں باہر سے دیکھ آیا تھا۔ اس نے دنیا دیکھی ہے۔ پاکستان ایک غریب ملک تھا یہاں کھیلوں کے فروغ کے لئے بعض بڑے بڑے محکموں اور اداروں کو کھیلوں کی سرپرستی سونپی گئی۔ وہ اپنی ٹیمیں بناتے۔ کھلاڑیوں کو ملازمتیں دیتے۔ ان میں جو پڑھ لکھ جاتے وہ محکمانہ وار بھی ترقی کرتے جاتے۔ ایک پورا نظام بن گیا تھا۔ بعض اداروں کی ٹیمیں تو ملک بھر میں معروف تھیں۔ ہاکی میں کسٹمز‘ پی آئی اے ‘ حبیب بنک ‘ واپڈا سبھی ادارے اپنی اپنی ٹیموں کی تلاش میں رہتے۔ اس طرح وہ افسر بھی ڈھونڈتے رہتے۔ ابتدائی دن تھے تو یہ حال بھی تھا کہ ریلوے میں دنیا کا عظیم بلے باز حنیف محمد کوئی چپڑاسی ‘ قلی یا کسی ایسے یہ منصب پر بٹھا دیا گیا تاکہ گھر کا خرچہ چل سکے۔ اب تو بنک ائر لائن اور دوسرے قومی اداروں میں یہ کھلاڑی اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچتے ہیں۔ نور خاں کو تین تین کھیلوں کی سرپرستی سونپی گئی۔ کرکٹ‘ ہاکی ‘ سکواش ۔وسائل اداروں کے ہوتے درمیان میں مقابلہ سخت ہوتا علاقائی بنیادوں پر بھی کھیلوں کی تقسیم کی ہوتی تھی وہ نظام بھی چلتا رہتا۔ کلبیں اپنا رنگ دکھائی رہتیں۔ عمران خاں نے کہا میں نے جب سے کرکٹ چھوڑی ہے یہ کہہ رہا ہوں ان ڈیپارٹمنٹس کی ٹیموں کو ختم کرو۔ ملک کو علاقوں میں تقسیم کرو ان میں مقابلہ ہو گا سپانسر آئیں گے۔ کھیلوں کا ایک منفعت بخش نظام بھی کفالت کر رہا تھا یہ اگلے زمانے کے نوابوں کی سرپرستی نہ تھی۔ نئے دور کے تقاضوں کے مطابق کھیلوں میں کارپوریٹ کلچر کو اپنے حالات کے مطابق نافذ کرنے کی بات تھی۔ کپتان وزیر اعظم بن کر کرکٹ کے لئے کچھ نہ کرتا تو کیا کرتا۔ نجم سیٹھی نے تو فوراً جان چھڑائی۔ اب لندن سے ایک چیئرمین احسان مانی پکڑ کر لائے جو پہلے بھی جانے کیوں کرکٹ میں کام دکھا چکے تھے۔ پھر ایک چیف ایگزیکٹو ڈھونڈا اور تبدیلیاں بھی کیں۔ مگر کیوں کیں بس کپتان کا حکم ہے۔ نیا بورڈ بن گیا۔ نئی ٹیم تیار ہو گئی۔ اس عرصے میں نظر انتخاب مصباح الحق پر پڑی۔ یہ بھلا آدمی تھا کرکٹ میں کامیاب ہونے میں کئی سال لگ گئے۔ جب کھلاڑی کے طور پر نیا نیا آیا تھا تو عمران کو کسی نے بتایا کہ میانوالی کے نیازیوں میں ایک لڑکا آیا ہے۔ اچھا لگتا ہے اس وقت عمران کی نظر پلس‘ مائنس کو نہ پہچان سکی جب کئی سال کے رگڑے کھانے کے بعد مصباح الحق رواں ہوا اور لوگوں نے تعریفیں کیں تو عمران بھی بول اٹھا کہ ہم ایسی قوم ہیں جب کسی کے کھیلنے کی عمر ہوتی ہے ہم اسے چانس نہیں دیتے اور جب چانس دیتے ہیں تو اس کی عمر گزر چکی ہوتی ہے۔ اس بار مگر عمران نے اس کے تدارک کا فیصلہ کیا۔ سب کچھ مصباح کو سونپ دیا۔ کرکٹ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے اعتراض کیا۔ اس کی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھائے وہ کوچ تو کبھی رہا نہیں۔ کھلاڑی ہی نہیں کپتان بھی وہ ٹک ٹک تھا۔ آپ کو اس وقت جارحانہ کرکٹ کی ضرورت ہے۔ تجزیہ نگار جیسے سیاست میں ہیں ویسے ہی کرکٹ میں بھی ہیں‘ ان کے دلچسپ تجزیے مزہ تو دیتے تھے مگر بتاتے تھے کہ کہیں خرابی ضرور ہے۔ مگر جواب ملتا اسے وقت تو دو۔ ایسے لگتا ہے ابھی پاکستان بنا ہے ٹیم نئی نئی بن رہی ہے۔ اسے کھیلنے جانا ہے۔ اس سے کوئی لمبی چوڑی امید نہ لگائو۔وہ کوئی اوول میں فضل محمود کے کارنامے دکھا کر نہیں آئے گی۔ یعنی پرانی ٹیم ہے کھیلتی ہوئی آتی ہے۔ کم از کم ٹی 20میں دنیا میں نمبر ایک تھی۔ بلکہ اب تک بری طرح پٹ کر بھی نمبر ایک ہے۔ ساری کرکٹ کی دنیا چیخ رہی ہے۔ ایک سے ایک بڑا پلیئر بول رہا ہے۔ صاف صاف نظر آتا ہے کہ نہ یہ نظام چلنے والا ہے نہ یہ ٹیم۔ بھئی آپ نے سسٹم اور حالات میں دیکھا تھا۔ آپ کو ٹیم بنی بنائی ملی تھی۔ ایک سے ایک بڑا نام تھا تب بھی یہ کہا جاتا تھا کہ عمران لیڈر اچھا ہے مگر کرکٹ کا علم دوسروں کے پاس بہتر ہے۔ ویسے بھی اچھا کھلاڑی ہونا اور کھیل کا اچھا علم رکھنا دوالگ الگ باتیں ہیں۔ اصل خرابی یہ ہے کہ اگر کرکٹ میں یونہی ناکامی چلتی رہی اور کپتان ڈٹا رہا تو کہنے والے کہیں گے اسے جو کام کرنا تھا وہ نہیں چلا سکا۔ ملک خاک چلائے گا۔ غلط نظام پر اصرار اور غلط ٹیم کا انتخاب ہر میدان میں ناکامی کی علامت ہے۔ آپ اپنے تجربات کی بنیاد پر اصرار کرتے ہیں تو آپ ضدی تو ہو سکتے ہیں بااستقامت اور اولوالعزم نہیں۔ آپ نے ہسپتال بنایا ‘ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہیلتھ سسٹم بھی اچھا بنا سکیں۔ جب لاہور میں کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کا جھگڑا چلا تو کہنے والوں کو یقین تھا کہ وہ چونکہ شوکت خانم کا تجربہ رکھتا ہے اس لئے اس نئے سٹیٹ آف آرٹ تجربے کو سراہیں گے مگر ہوا اس سے الٹ ‘صحت کے میدان میں ایک لاجواب منصوبے کو تباہ کر دیا گیا۔ نمل یونیورسٹی کوئی غیر معمولی یونیورسٹی کی مثال نہ تھی۔ اس کی تو اس وقت میانوالی میں توقع ہی نہ کر سکتے تھے کہاں سے سٹاف‘ کہاں سے لوگ۔ البتہ ایک اچھے ماڈل پر تیار کی گئی۔ پس ماندہ علاقے کے لئے ٹیکنیشن تیار کرنا جنہیں فوراً نوکری مل جائے مگر یہ نہ لمس ہے نہ نسٹ۔ اس کا ماڈل اعلیٰ تعلیم کے لئے پورے ملک میں نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اور صحیح معنوں میں یہ یونیورسٹی ایجوکیشن کا متبادل نہیں ہے۔ آپ اگر وسیم اکرم پلس اور اب بزدار پلس ڈھونڈنے بیٹھیں گے تو اس کا مذاق ہی اڑائیں گے۔ ملک اور نظام اس طرح نہیں چلا کرتے۔ بعض ماڈل تو دلچسپ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک صاحب اینل مسرت کا چرچا تھا کہ پاکستان آ کر نیا پاکستان گھر سکیم میں انقلاب برپا کر دے گا۔ بڑا کامیاب بزنس ماڈل ہے۔ جانے کتنے رئیل سٹیٹ کے ادارے اس نے برطانیہ میں بنا رکھے ہیں۔ وہ گاہے گاہے نثار ثاقب اور دوسری پارٹی سرگرمیوں کے ساتھ نظر آئے۔ بالآخر کرتار پور میں بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ سلفیاں بنانے کی ناکام کوشش کرتے پائے گئے۔ اس سے ان کا اور ان کے بزنس کا لیول معلوم ہوتا ہے۔ آج کل ہمارے میڈیا پر ایسے میڈیا سٹار کا بڑا تذکرہ آ رہا ہے جو بڑی غربت میں ملک سے نکلے اور اب گویا عالمی سطح پر ایک مثال بنے ہوئے ہیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ ٹیم بنانا ‘ صحیح آدمی کا انتخاب کرنا‘ اپنی ضد چھوڑنا پڑے تو عقلمندی کی تلاش میں اسے برا نہ سمجھنا‘ یہ ہیں وہ باتیں جو آپ کے لئے ہر فیلڈ میں کامیابی کے لئے ضروری ہیں۔ وگرنہ جانے کتنے پلس ہماری راہ کی رکاوٹ بنتے جائیں گے۔ ویسے تو کرکٹ میں بھی ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے اب تو مگر لگتا ہے کہ ہم ہر میدان میں پلس مارنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔ ہر روز کوئی باہر سے چلا آتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ ہم نے بہت بڑا ہیرا تلاش کیا ہے۔ ایسا ہیرا جو کوہ نور بھی نہ تھا۔