سابق صدر جنرل پرویز مشرف ان دنوں زیرِعتاب ہیں۔ سنگین غداری کے مقدمہ میں ان کو خصوصی عدالت سے سزا ہوچکی۔ جنرل مشرف کم سے کم نو سال پاکستان کے ایک طاقتور حکمران رہے‘ آئین سے انحراف کے الزامات اپنی جگہ لیکن ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اپنے دور میں انہوں نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کے ملک و قوم پر مثبت اثرات ہوئے ۔ اکتوبر دو ہزار نو میں جنرل مشرف نے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کرکے حکومت سنبھالی تو اپوزیشن کی بڑی جمہوری رہنما بے نظیر بھٹو نے بھی اِس اقدام کی کھُل کر حمایت کی تھی۔ نواز شریف ایک سول آمر تھے۔ میڈیا ان کی چیرہ دستیوںاور استبداد سے محفوظ نہیں تھا۔ صرف ایک سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشن تھا‘ کوئی نجی چینل نہیں تھا۔ سرکاری ٹی وی حکومت کی تعریفوں اور اپوزیشن کی مذمت‘ کردار کشی کے لیے مختص تھا۔ایک انگریزی ہفت روزہ کے مدیرنے نواز شریف کی کرپشن بے نقاب کرتے ہوئے اپنے میگزین میں مضامین شائع کیے تو انہیںآدھی رات کو انکے گھر بلکہ بیڈ رُوم میں داخل ہوکر پولیس نے گرفتار کرلیا ‘ ان پر صرف اس بنیاد پر مقدمہ بنا یا گیا کہ انہوں نے بھارت جا کر پاکستان کے بارے میں ایک لیکچر دیا تھا۔ یُوں تو جنرل مشرف فوجی حکمران تھے لیکن انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار میڈیا کوآزادی سے کام کرنے دیا ۔ میڈیا کے بارے میں ان کی پالیسی جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے برعکس تھی۔ اخبارات میں ان کی حکومت پر سخت تنقید کی جاتی تھی۔ جلد ہی انہوں نے نجی ٹیلیویژن اسٹیشن اور ایف ایم ریڈیو قائم کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ یہ آزادی ایک گیم چینجر تھی جس سے ہمارے ملک کی تاریخ بدل کر رہ گئی۔ جنرل مشرف سے پہلے عام لوگوںکی آزادانہ خبروں تک رسائی غیرملکی نشریاتی اداروں کے ذریعے تھی۔اپنے ملک کے نجی ٹیلی ویژن آگئے تو لوگوں کا رُخ ان کی طرف ہوگیا۔ ہمارا قومی بیانیہ کسی حد تک بیرونی اثرات سے پاک ہوگیا۔ آزاد الیکٹرانک میڈیا آنے سے پہلے عام طور پر کہا جاتا تھا کہ لوگ ڈی پولیٹسائز ہوگئے ہیں۔ جیسے ہی نجی ٹیلی ویژن چینلز شروع ہوئے ‘ ان پر حالات حاضرہ کے پروگرام نشر ہونے لگے‘عام لوگوں کی سیاست میں رغبت بڑھ گئی۔ ہر نقطہ نظر گھر گھر پہنچنے لگا۔ سیاسی حرکیات بدل کر رہ گئیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل مشرف آمر سے زیادہ ایک جمہوری حکمران نظر آتے ہیں۔ ستمبر دو ہزارایک میں امریکہ میں حملے جنرل مشرف دور کاایک اور اہم ترین واقعہ ہے۔ انہیں اقتدار میں آئے تقریبا دو سال ہوگئے تھے۔ امریکیوں نے اس کارروائی کا الزام افغانستان میں موجود القاعدہ پر لگایا‘امریکہ کے خیال میں افغانستان میں حکمران طالبان بھی ذمہ دار تھے جو اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر تیار نہ تھے۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت تھا۔ وہ ایک بدمست ہاتھی تھا جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کچل کر رکھ دینا چاہتا تھا۔اعلان کردیا گیا تھا کہ آپ امریکہ کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف۔درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔پاکستان کو پیغام دیا گیا کہ اگر آپ نے ہمارا ساتھ نہیںدیا توآپ کومار مار کر پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا۔ بھارت تاک میں تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون سے انکار کرے تو وہ امریکہ کو ہر وہ چیز پیش کردے جو اسے اس خطہ میں کارروائی کرنے کو درکار تھی‘ پاکستان کو پیس کر رکھ دیا جائے‘ اسکی فوجی طاقت تہس نہس کردی جائے۔ اس نازک موقع پر جنرل مشرف نے فوجی قیادت اور بزرگ سفارت کاروں سے صلح مشورہ کرکے امریکہ سے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ پاکستان کی ایٹمی اور فوجی طاقت کو تباہ ہونے سے محفوظ کیا۔ امریکہ سے تعاون کے بدلہ میںجنرل مشرف نے پاک فوج کو جدید ترین امریکی اسلحہ سے لیس کیا جو آج تک بھارت کے مقابلہ میں ہمارے کام آرہا ہے۔ امریکی مالی امداد آنے لگی‘ عالمی اداروں سے قرضے ری شیڈول ہوئے۔ ملکی معیشت تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگی۔ پاکستان کی سڑکوں نے کبھی اتنی کاریں نہیں دیکھی تھیں جو جنرل مشرف کے دور میں دوڑنے لگیں۔ نائن الیون سے پہلے پاکستان میںباہر سے آنے والی ترسیلاتِ زر تقریبا اسّی کروڑ ڈالرسالانہ تھیں ۔ بین الاقوامی اتحاد کا حصّہ بننے کے بعدیہ رقم بڑھ کر تین ارب ڈالرسالانہ ہوگئی جو اب اکیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔اسی عرصہ میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں ہزار گنا تک بڑھ گئیں۔ جوبے مثال معاشی خوشحالی جنرل مشرف کے دور میں آئی اس سے ایک نیاشہری متوسط طبقہ وجود میں آیا ۔یہ اس ملک کی معاشرت میں ایک بڑا انقلاب تھا۔ کراچی پاکستان کا معاشی انجن ہے اور ملک کو ملنے والے ٹیکس کا ساٹھ فیصد مہیا کرتا ہے۔ مشرف دور سے پہلے کراچی کو اتنا نظر انداز کیا گیا تھا کہ یہ شہر ایک کھنڈر بن چکا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں‘ ٹریفک کے نہ ختم ہونے والے ہجوم اور دیگر شہری مسائل تلے سسک رہا تھا۔ سنہ دو ہزار ایک میں لائے گئے مقامی حکومتوں کے نظام نے کراچی کی شہری حکومت کووسیع اختیارات دیے ۔ وفاقی حکومت نے شہر کو اربوں روپے کے فراخ دلانہ فنڈز فراہم کیے جن سے سڑکیںتعمیر کی گئیں‘ کشادہ بنائی گئیں‘ فلائی اوور بنا کر ٹریفک کے ہجوم کوقابو کیا گیا ۔ جیسے ہی جنرل مشرف کا دور ختم ہوا ‘ کراچی کو نظر انداز کرنے کا عمل دوبارہ شروع ہوگیا‘ آج یہ شہر ایک بار پھر کوڑے کا ڈھیر ہے۔ جمہوریت بہت اچھی چیز ہوگی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹھوس معاشی ترقی جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی ادوار میں ہوئی۔ ان تینوں ادوار میںہی پاکستان میں استحکام رہا ‘ متوسط طبقہ میں توسیع ہوئی‘اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کرنے کو مقامی حکومتوں کے نظام وجود میں آئے۔جنرل ایوب خان نے اسلام کی جدید زمانے کے مطابق تعبیر کرتے ہوئے فیملی لاز بنائے جو آج تک رائج ہیں۔جنرل مشرف نے حدود قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے عورتوں کے جائز حقوق کا تحفظ یقینی بنایا۔ عورتوں کی سیاسی نظام میں نمائندگی میں نمایاں اضافہ کیا۔یہ تینوں فوجی حکمران نہ جاگیر دار تھے‘ نہ سرمایہ دار۔ ان تینوں میں ایک بھی ایسا نہیںجس نے منی لانڈرنگ کی ہو‘اپنے اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے ذاتی کاروبارقائم کیے ہوں ‘ سرکاری وسائل کی لُوٹ کھسوٹ کی ہو۔