سموگ کا سیدھا اور آسان مطلب ہے۔ نظر آنے والی آلودگی اور ہم جیسے لوگ آلودگی کے معاملے کو اسی وقت اہمیت دیتے ہیں جب وہ جان کو آ جائے۔ یہی معاملہ سموگ کا ہے۔ چندروز سے گردو غبار کی ایک موٹی تہہ شہر لاہور کے اوپر تنی ہوئی ہے۔ زہریلی گیسوں کا یہ اکٹھ سانس لینا دشوار کر رہا ہے۔ آنکھوں میں چھبن کے مسائل الگ ہیں اور وہ لوگ جنہیں پہلے سے ہی سانس کی بیماری کا مسئلہ درپیش ہے ان کے لئے سموگ اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ لاہور بڑا شہر ہے۔ ٹریفک کا بہائو سڑکوں پر بہت زیادہ ہے ایسے میں اس کی فضا آلودہ ہی رہتی ہے۔ لیکن ہم جیسے لوگ جو تیسری دنیا کے غریب ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ماحولیات کا مسئلہ ہمارے مسئلوں کی فہرست میں کبھی بھی ترجیحات میں نہیں ہوتا۔ وجہ اس بے خبری کی بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ جہاں زندگیاں پیٹ کا ایندھن اکٹھا کرنے کی تگ و دوکے ساتھ بندھی ہوں وہاں ماحولیات اہم مسئلہ دکھائی نہیں دیتا، جہاں اصل مسائل مہنگائی اور بھی روز بڑھتی ہوئی مہنگائی ہو۔ بیماری میں دوا دارو کا انتظام کرنا ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔ بچے اگر سکول جاتے ہیں تو ان کی فیس بروقت ادا کرنا ایک پہاڑ نظر آئے۔ جہاں دیہاڑی دار کی دیہاڑی نہ لگے تو اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا رہتا ہو۔ جہاں نوکریوں پر بے یقینی اور خدشات کے بادل ہمہ وقت چھائے رہیں کہ جانے کب کسی کی باری آ جائے۔ ایسے معاشروں میں آلودگی اسی وقت توجہ حاصل کرتی ہے جب وہ سموگ کی شکل میں نظر آنے لگے۔ آلودگی کے اس دھوئیں سے آنکھیں لال ہونے لگیں اور سانس لینا دشوار ہو جائے۔ smoyجو انگریزی کے دو لفظوں کو آپس میں ملا کر ایک نیا لفظ گھڑا گیا ہے۔ جسے ہم انگریزی لسانیات میں Coined worldکہتے ہیں۔ یہ لفظ smokاور fogسے مل کر بنا ہے۔ سموک کی طرح اس میں دھوئیں کی خصوصیات بھی ہیں اور فوگ کی طرح اس میں منظر کو دھندلانے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ سموگ اور فوگ سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں زہریلی گیس نائٹروجن آکسائیڈ اور سفلر ڈائی اکسائیڈ کے کیمیکل موجود ہوتے ہیں یہ دونوں زہریلے کیمیائی مادے ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ یہ ہے جدیدانسان کا المیہ کہ فضا جو فطرت کے مظاہر ہیں انسان نے اسے اس قدر زہریلا کر لیا ہے اس میں اب سانس لینا دوبھر ہو چکا ہے۔ سموگ زیادہ تر بڑے شہروں کا مسئلہ ہے کھلی اور سرسبز جگہوں پر اس کی شدت میں کمی ہوتی ہے۔ اس لئے لاہور شہر میں بھی سموگ کی شدت مختلف آبادیوں اور ٹائون کے لحاظ سے مختلف ہو گی۔ صبح ہماری ملازمہ آئی تو بتانے لگی کہ اس کا پورا گھر دھوئیں سے بھر گیا ہے اور بچوں کو الٹیاں آنے لگی ہیں۔ ڈبن پورہ کی رہائشی ہے۔ وہ علاقہ سبزے سے محروم ہے ۔ صفائی کا ناقص انتظام ہے اور ویسے ہی ملتان روڈ کا سایہ پڑا ہوا ہے تو فضا آلودگی سے پہلے ہی بھری ہوئی ہے۔ ملتان روڈ پر اورنج ٹرین کی تعمیر کے لئے گزشتہ چھ برسوں سے تو دکانیں ڈھانے ‘ کھدائیاں کرنے سڑکیں کھودنے کے مراحل جاری ہیں۔ گزشتہ حکمرانوں نے بھی اس پراجیکٹ کو لٹکا کر ملتان روڈ کے آس پاس رہائشی آبادیوں کو ایک عذاب میں مبتلا کئے رکھا۔ اور اب موجودہ حکومت نے بھی اس پر بغض معاویہ میں کام روکا ہوا ہے۔ سو یہاں ہر طرف اکھاڑ پچھاڑ کے مناظر ہیں۔ جگہ جگہ کھدائیاں اور کھڈے موجود ہیں۔ فضا میں ہمہ وقت گرد تیرتی رہتی ہے جو آس پاس کی ٹریفک کے دھوئیں سے مل کر انسانی صحت کے لئے بے حد خطرناک ہو چکی ہے۔ بس آپ یہ سمجھ لیں کہ اس علاقے میں اورنج ٹرین پراجیکٹ کی وجہ سے ہمہ وقت ہی سموگ کا منظر رہتا ہے۔ یہاں اکثر لوگ منہ پر ماسک چڑھائے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتوں کی نااہلی اور ایک دوسرے کے میگا پراجیکٹ کے خلاف بغض اور نفرت سے یہ علاقہ فضائی آلودگی کا گڑھ بن چکا ہے۔ اب اس صورت حال میں سموگ کا وار خود اندازہ لگائیں کہ آلودگی کی شدت کیا ہو گی۔ کل چھ نومبر بروز بدھ حکومت پنجاب نے سکول ایک روز کے لئے بند کئے۔ لیکن کیا سموگ ایک دن میں ختم ہو جائے گی پھر ایک دن کی چھٹی کا کیا فائدہ۔؟ کل سے بچے پھر سکولوں میں جائیں گے نائٹروجن اور سلفر سے بھری ہوئی زہریلی فضا میں سانس لینا ان کی ننھی زندگیوں کے لئے کس قدر نقصان دہ ہو گا۔ فضا کو آلودہ کرنے میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ پلاسٹک کے لفافے چونکہ وقت کے ساتھ زمین میں تحلیل نہیں ہوتے تو کوڑا اکٹھا کرنے والے عموماً پلاسٹک کی تھیلیوں کو اکٹھا کر کے آگ لگا دیتے ہیں۔ اس دھوئیں میں بہت زہریلے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو ہوا میں شامل ہو کر ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی لگانا ہے تو بنگلہ دیش سے سبق سیکھیں کہ پہلے انہوں نے شاپر بیگز سے وابستہ لاکھوں غریب افراد کو جیوٹ کی انڈسٹری سے وابستہ کیا کچھ کو اپنے روزگار کے لئے آسان قرضے دیے تاکہ شاپروں کے کارخانے بند ہوں گے تو لاکھوں لوگ بے روزگار نہ ہوں۔ ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں حکومتیں ویژن اور صلاحیت رکھتی ہوں۔ حکمران اپنے غریب عوام کے مسائل کا ادراک رکھتے ہوں۔ شاپروں کے خلاف اس حکومت نے ایکشن ضرور لیاہے ابھی صرف اسلام آباد میں۔ لیکن اس انڈسٹری سے وابستہ لوگ اس بات پر سراپا احتجاج ہیں کہ شاپروں کے کارخانے بند ہو گئے تو ان کا کیا بنے گا؟یہاں حکومت کو چاہیے کہ بنگلہ دیش والا ماڈل اپنائے۔ فی الحال ہماری حکومت دھرنے سے نبردآزما ہونے میں مصروف ہے اس وقت ماحولیات کا ایشو ترجیحات کی فہرست میں کہیں نہیں ہے۔