بہ قول جناب انور مسعود: ؎ سرہانے سے یہ کیوں اُٹھے ، وہ دنیا سے نہیں اٹھتا مسیحا ہاتھ دھو کر پڑ گیا، بیمار کے پیچھے کہتے ہیں ایک شخص کسی ایسے جنبی ملک میں جا کر بیمار پڑ گیا، جہاں پہ یہ رواج تھا کہ جس ڈاکٹر سے بھی دورانِ علاج کوئی مریض مر جاتا، اسے اپنے کلینک کے باہر اس کی یاد میں ایک بلب روشن کرنا پڑتا۔ وہ شخص، شہر میں جب ڈاکٹر کی تلاش میں نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ڈاکٹروں کے گھروں اور کلینکوں کے باہر چراغاں کی سی کیفیت ہے۔یہ دیکھ کے وہ بہت سٹپٹایا۔ کسی کلینک کے اندر جانے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے، ان صاحب کو بھی گھومتے گھماتے ایک ایسا ڈاکٹر نظر آ گیا، جس کے کلینک کے باہر محض پانچ سات بلب روشن تھے۔اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور دل ہی دل میں تعریفی جملے سوچتا ہوا کلینک میں داخل ہو گیا۔اپنا مرض بتانے سے بھی پہلے اس نے ڈاکٹر کی جی بھر کے ستائش کی اور باتوں ہی باتوں میں پوچھ لیا کہ آخر وہ کون سا کمال ہے، جس کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے سب سے کم مریضوں کو موت کی سرحد عبور کرنے دی؟ڈاکٹر نے اس کی ساری رطب اللسانی اورستائشِ طولانی کو پورے تحمل کے ساتھ گوش گزار کیا اورپھرنہایت روانی کے ساتھ اس ہنر کی عقدہ کشائی کی۔ کہنے لگا: ’’ اس قحط الاموات کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مجھے ابھی پریکٹس کرتے ہوئے ایک ہی ہفتہ ہوا ہے۔ ‘‘ اب تو ہمارے ہاں کے اکثر ہسپتالوں کی صورتِ حال دیکھ کے دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا کسی بَیری دشمن کو بھی اس وادیِ پُرخارمیں نہ لے جائے۔ لیکن ہماری زندگی میں چونکہ دعاؤں کی قبولیت کا گراف کبھی قابلِ رشک نہیں رہا۔ لہٰذا گذشتہ دنوں دلی طور پر نہ چاہنے کے باوجود ایک سرکاری ہسپتال کی ’ دشت نوردی ‘ کرنا پڑ گئی۔ ہسپتال میں حکیم جی سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ یہاں اپنے گُردے مثانے کی رام کہانی سنانے کے لیے کسی دل گُردے والے یورالوجسٹ کی تلاش میں آئے تھے۔ ہم نے بھی ان کی معیت میںہسپتال کی خاک چھاننا شروع کر دی، لیکن جب کسی بھی طرح ڈاکٹروں کے کمروں کے باہر اپنی مطلوبہ تختی تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو کسی بھیدی سے پوچھتے ہی بنی کہ بھائی میاں یہاں کبھی ایک یورالوجسٹ ہوا کرتے تھے؟ ان صاحب نے ایک اچٹتی سی نظر حکیم جی کے شاعرانہ حلیے پر ڈالی اور میرؔ کا مصرع پڑھتے ہوئے بولے:ع وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے کیا مطلب؟ ہم دونوں نے بہ یک زبان پوچھا۔ بڑے میاں آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ یہاں کسی زمانے میں ایک یورالوجسٹ ہوا کرتے تھے۔ اب ان کی سیٹ ختم کر کے ایک گائناکالوجسٹ کو ایڈجسٹ کر دیا گیا ہے۔ ان کی خدمات سے استفادہ کرنے کی ہمت ہے تو فرمائیں؟ ’’ یورالوجسٹ کی جگہ گائناکالوجسٹ۔۔۔۔۔۔۔۔چہ معنی دارد؟ ’’ بھائی میاں آپ یہاں ہر کام میں مطلب یا مقصد تلاش کرنے کی زحمت نہ فرمائیں ۔ یہاں سفارش اور پیسہ پاس ہو تو ہم نے مرد ملازمین کو تین تین مہینے کی میٹرنٹی لیو پہ جاتے دیکھا ہے۔ پچیس ہزار روپے آپ کی جیب میں ہوں تو کوئی بھی سرکاری ملازم میڈیکل ان فِٹ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے بھری جوانی میں ریٹائرمنٹ کے مزے لوٹ سکتا ہے۔حکیم جی تو اتنا سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے اور میرزا غالبؔ کا یہ شعر پڑھتے ہوئے وہاں سے کھسک لیے کہ: ؎ درد منت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا، بُرا نہ ہوا لیکن ہمیں چونکہ ایک مریض کو دیکھنے جانا تھا، اس لیے جب متعلقہ وارڈ میں پہنچے تو پورا عملہ دونوں ہاتھوں سے بستروں کی چادریں بدلنے میں یوں مگن تھا، جیسے انھیں چادر اور چار دیواری کا تازہ تازہ احساس ہوا ہے۔ایک مالی نما شخص تازہ کٹی ٹہنیوں کو گیلی مٹی سے لبا لب بھرے گملو ںمیں اُڑسنے میں بے پناہ مصروف دکھائی دیا۔دوسری طرف دیکھا تو ایک ریڑھی سچ مچ کی دوائیوں سے لدی پھندی مٹکتی چلی آ رہی ہے۔ کسی بھیدی نے بتایا کہ محکمہ صحت کے کوئی اعلیٰ عہدے دار ہسپتال کا اچانک دورہ کرنے پہنچنے والے ہیں۔یہ سارا تردّد ا ن کو ’سب اچھا‘ دکھانے کی خاطر کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنے مریض کو مل کے و اپس جانے ہی والے تھے کہ خبر آ گئی : افسرِ مذکور نے بروقت ٹی وی کیمرے کا بندوبست نہ ہو سکنے کی بنا پر ارادہ تبدیل کر دیا ہے۔ اس خبر کا آنا تھا کہ ہسپتال میں ایک اور طرح کا طوفانِ بد تمیزی شروع ہو گیا۔لاچار مریضوں کے نیچے سے چادریں ان کی کھال کی طرح کھینچی جانے لگیں، دوائیوں والی ٹرالی صفر پر ایل بی ڈبلیو ہو جانے والے بلّے باز کی مانند لڑکھڑاتی ہوئی واپس جاتی نظر آئی۔ جاتے جاتے ہمارا متعلقہ مالی سے بھی آمنا سامنا ہو گیا۔ ہم نے دریافت کیا کہ بغیر جڑوں کے پودے لگانا شجر کاری کی کوئی نئی دریافت ہے کیا؟بندہ کچھ سمجھ دار تھا کہنے لگا: ’’ باؤ جی! اس ہسپتال میں ایک سال میں چار ایم۔ ایس بدل چکے ہیں، تمام ڈاکٹر اپنے اپنے کلینک اور ذاتی ہسپتال لشکانے میں مصروف ہیں۔ اس سرکاری ہسپتال کے اندر اِن کے ذاتی کلینکوں کے کارڈ اور اشتہار(بروشر) سرِ عام تقسیم کیے جاتے ہیں۔میڈیکل رَیپ اور جعلی لیبارٹریوں والے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ چاروں جانب سب کچھ نقلی اور جعلی ہے،ایسے ماحول میں اصلی پودے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘ ڈاکٹروں کی ایسی صورتِ حال دیکھ کے ہمیں وہ سردار جی یاد آگئے، جو بلاناغہ اپنی محبوبہ کو ایک تروتازہ سیب تحفے میں دیا کرتے تھے۔ کسی نے اس عنایتِ مسلسل کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: ’ میرا رقیب ایک ڈاکٹر ہے اور میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ روزانہ کا ایک سیب آپ کو ڈاکٹر سے دور لے جاتا ہے۔‘ خواتین و حضرات! آخری بات یہ کہ ڈاکٹروں کا احترام ہمیں صرف سردار صاحبان کے لیے نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ ایک سیانے نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ : ’’ ڈاکٹر اور اللہ کو کبھی ناراض مت کرنا، کیونکہ جب اللہ ناراض ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتا ہے ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ جب ڈاکٹر ناراض ہوجاتا ہے تو وہ آپ کو اللہ کے پاس بھیجنے میں کسی طرح کی تاخیر برداشت نہیں کرتا۔‘‘