شہباز شریف پارٹی کا ماضی اور مریم نواز مستقبل بن رہی ہیں ۔آنے والے چند دنوں میں سینئر قیادت کے ضمیر بھی جاگنے کی قوی امید ۔کچھ ابھی سے پس منظر میں چلے گئے،کئی چوہدری نثار بننے پر آمادہ ۔حمزہ شہباز گروپ بھی بے چین ۔جاوید اختر نے کہا تھا : دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا ہمارے ہاں قیادت و امامت کا تصورخاندان کو نوازنا ہے۔مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی ،اے این پی اور جے یو آئی تو خاندانی پارٹیاں بن چکیں ۔ملک میں یہ جمہوریت کی چیمپئن۔ کوئی قوم اور ریاست صحیح قیادت کے بغیر منظم نہیں ہوسکتی۔سیاسی و معاشی استحکام ختم ہوتا جاتاہے۔چوہدری نثارملک کے سینئر سیاستدان ہیں ،ان کا تجربہ ،لیاقت،مسائل کا فہم اورسیاسی رکھ رکھائو کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اگر وہ مسلم لیگ میں ہوتے تو آج اس کا سیاسی گراف بلند ہوتا۔آنے والے چند دنوں میں تین آدمی جو مسلم لیگ میں سینئر ہیں مگر اس وقت وہ حکومتی سیٹ اپ کا حصہ نہیں ،وہ مریم نواز کی قیادت میں نہ چلنے کا اعلان کریں گے ،اگر وہ کھل کر سامنے نہ بھی آ سکے تو خاموشی سے ایک طرف ہو جائیں گے ۔مسلم لیگ (ن) میں شامل کچھ لوگ عورت کی سربراہی قبول کرنے کو تیار نہیں۔لہذا آنے والے دنوں میں خصوصا جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے کئی لوگ علیحدگی کا اعلان کرنے کے لیے پَر تول رہے ہیں ۔اس وقت مسلم لیگیوں کی فکر میں خلفشار کے آثار نمایاں ہیں۔ عظیم دانشور نے کہا تھا : قوم کے افکار میں وحدت تب آتی ہے جب قومی قیادت کی فکر ان کی راہنمائی کرے ۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے ،کیا کبھی جونیئر ،سینئر کی رہنمائی کر سکتا ہے ۔ہمیشہ وہی لوگ مشعل راہ بنتے ہیں،جنہیں تجربہ اور سیاسی سوجھ بوجھ ہو۔ کبھی اندھیرے سے بھی کوئی راہ پاتا نظر آیا۔روشنی ہی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے ۔ قوموں پر زوال کب آتا ہے ؟ جب قیادت نااہل اور ناتجربہ کار لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے ۔ قوم، وحدتِ فکرو عمل کے ذریعے ہی مضبوط و مستحکم ہوتی ہے، کوئی بھی قوم، ملت، ریاست اپنے نصب العین کی طرف قائد و راہنما اور امام و رہبر کے بغیر گامزن نہیں ہوسکتی۔اورنگ زیب عالمگیر کے بعد مغل سلطنت کیوںنہ سنبھل سکی ۔اورنگزیب نے 49برس حکومت کی ،پورے ہندوستان کو ایک مٹھی میں جکڑ کر رکھا۔ ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی 1526ء سے لے کر اورنگ زیب کی وفات 1707ء تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181 سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا1540ء تا 1555ء نکال دئے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھ بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے۔ بابر، ہمایوں، اکبر ، جہانگیر، شاہجہاں، اورنگ زیب۔ 1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہد زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔یاد رکھیں !جب جماعتیں خاندانی لمیٹڈ بن جائیں تو انھیں دنیا کی کوئی طاقت ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتی۔ خواجہ آصف، تنویر حسین، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، راجہ ظفر الحق جیسے رہنما اب مریم نواز کے ماتحت ہوں گے ۔ابھی دھیمی آواز میں ہر کوئی نواز شریف کے اس فیصلے پر تنقید کر رہا ہے۔جب یہ چنگاری شعلہ بن جائے گی تو پھر (ن) لیگ صرف جاتی امرا تک محدود ہو جائے گی ۔ اس وقت (ن) لیگ کے سپریم لیڈر نواز شریف ہیں اور ان کے بھائی نون لیگ کے صدر اور وزیراعظم۔ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر ۔ شہباز شریف کے بڑے صاحبزادے حمزہ شہباز پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔حمزہ شہباز کو جب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر مقرر کیاگیا تھا تب بھی پنجاب اسمبلی میں ان سے سینئر خواجہ سعد رفیق موجود تھے ۔اگرپنجاب میں اپوزیشن لیڈر کی پگ خواجہ سعد رفیق کے سر پر رکھی ہوتی تو پنجاب کے ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ایک قدم بھی نہ چل سکتے ۔ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا ،جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ۔ان سے نظام چل ہی نہیں سکا۔مسلم لیگ نون اگر مستقبل میں کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے تو اپنے آپ کو گڑھے میں گرائے گی ۔ آج ہمارے نظام حکومت کو اہل، محب وطن اور تجربہ کار افراد کی ضرورت ہے۔جو اپنے اندر مومنانہ فراست رکھتے ہوں، جو اپنے کردار میں بے مثال اور لاجواب ہوں، ایسی قیادت معاشرے کے اداروں کی مضبوطی اور استحکام کا ذریعہ بنتی ہے ۔قوی قیادت کی اہل شخصیت کا پہلا وصف صداقت ہے، وہ قیادت ایسی ہو ،جو زبان سے سچ بولے اور عمل سے سچ کا اظہار کرے، جھوٹ، فریب، خیانت، بددیانتی اور دوسری برائیوں سے بچتی ہو تاکہ اس کا وصف صداقت اپنے کمال کو پہنچے۔قوی قیادت کے لیے دوسرا وصف عدالت کا ہے۔ عدالت سے مراد وہ اپنے کردار میں بے مثال ہو۔ وہ قیادت ایسی ہو، جس کا کردار، عدل و انصاف کی اقدار کو فروغ دے، وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی عادل ہو اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی منصف پرور ہو۔ تیسرا وصف قومی مسئلوں کو حل کرنے میں دلیری اور بہادری کی صفات سے آراستہ ہو۔ قوم کی قیادت کرنا یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے ،یہ مشکلات سے گھرا ہوا منصب ہے۔ اس میں اپنی ذات کے آرام کو بے آرامی میں بدلنا پڑتا ہے۔ اپنی قیادت کے نفوذ کے لیے طرح طرح کی قربانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیا مریم نواز میں ان میں سے کوئی وصف موجود ہے ؟اگر وہ واقعی قوم کی قیادت کرنا چاہتی ہیں ،تو انھیں اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے چاہییں۔ اس وقت انتخابات کی باگ ڈور مریم کے ہاتھ میں دینے سے پارٹی کے کچھ جہاندیدہ سیاست دانوں میں تلخی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کا سیاسی موقف میں انتہاپسندی کی طرف ہے۔ جبکہ سینئر قیادت اداروں کو ان کے آئینی دائرے میں رکھتے ہوئے ساتھ لے کر چلنے کی قائل ہے۔مردہ پارٹی میں جذبات سے نئی روح پھونکنا ہی کامیابی نہیں،بلکہ اس نائو کو منجدھار سے لیکر نکالنا اصل امتحان ہے۔ قومی قیادت کو کئی قسم کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اور بعض لوگ اچانک بڑے بڑے فتنے پیدا کردیتے ہیں، ان فتنوں کو حل کرنے کے لیے مضبوط اعصاب کی قیادت درکار ہے، جو جرات و بہادری اور ہمت و قوت سے آراستہ ہو۔ قوم کی قیادت اور ریاست کا نظام چلانا کسی بزدل اور کم ہمت اور آرام طلب آدمی کا کام نہیں ہے۔مریم نواز کے بیانات اور ناتجربہ کاری پی ٹی آئی کے مفاد میں جائے گی ۔اسی بنا پر پی ٹی آئی اس پر فیصلے خوش،ن لیگی بزرگ مایوس۔