اندازہ کریں کہ اگر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی یا آکسفیم جیسے خیراتی اور تحقیقی ادارہ کے دفاتر پر چین یا تیسری دنیا کے کسی ملک کی حکومتی ایجنسیوں نے ریڈ کی ہوتی، تو مغربی دنیا میں کس طرح کی ہا ہا کار مچ گئی ہوتی۔اس ملک کو سبق سکھانے کیلئے اقوام متحدہ سے لیکر سبھی فورمز ایکشن میں آگئے ہوتے۔ کچھ نہیں تو پابندیا ں لگ چکی ہوتیں۔ عراق اور لیبیا پر تو اسی جمہوریت کے نام پرفوج کشی کرکے لاکھوں افراد کو ہلاک اور بے گھر کردیا گیا۔جمہوریت کی دیوی کو حاضر کرنے اور ان ممالک کے سپرد کرنے سے پیدا شدہ عدم استحکام سے یہ ممالک ابھی بھی سنبھل نہیں پا رہے ہیں۔ مگرمغربی دنیا کے بگڑے ہوئے شہزادے یعنی وزیر اعظم نریندو مودی کی حکومت نے ایمنسٹی کے ذمہ داروں کو تو اتنا تنگ کیا گیا کہ انہوں نے بوریا بسترسمیٹنے میں ہی عافیت جانی۔ دارالحکومت دہلی کے وسط میںبی بی سی کے دفاتر پر تین دن تک حکومتی ایجنسیوں نے دھاوا بو ل دیا، مگر پوری دنیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے بس جمع خرچ کیلئے ایک ہلکا سا زبانی بیان داغا۔ اگر برطانیہ میں آل انڈیا ریڈیو کے ہی دفتر کو اس طرح کا نشانہ بنایا جاتا، بھارت میں تو طوفان مچ گیا ہوتا۔ جس دن بی بی سی کے دفتر پر انکم ٹیکس کے محکمہ ریڈ کر رہا تھا، اسی وقت لند ن میں ائیر انڈیا کے ذمہ داران بوئنگ اور ایئربس جیٹ طیاروں کے حصول کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاہدے سے بھارت ایرو اسپیس سیکٹر کے لیے دنیا کی سب سے اہم ابھرتی ہوئی مارکیٹ بن جائیگا۔ اب جمہوری اقدار کی بحالی، صحافتی آزادی جیسے ’’بے معنی‘‘ نعروں کیلئے کون اس اہم معاہدہ کو کھٹائی میں ڈالنے کی ہمت کرتا۔ گذشتہ ہفتے، نئی دہلی نے جی 20ممالک کے وزراء خارجہ کی میزبانی کی، پھر اسی دن چار فریقی سکیورٹی ڈائیلاگ (جسے کوارڈکے نام سے جانا جاتا ہے) اور جس میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل ہیں کی میٹنگ کی میزبانی کی۔ اسی ہفتے رائسینا ڈائیلاگ کا انعقاد کرکے دنیا بھر کے اسٹریٹیجک ماہرین کا اجلاس منعقد کرنے کے علاوہ جرمن چانسلر اولاف شولز اور اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی کا بھی خیر مقدم کیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیس نئی دہلی کا دورہ کرکے ڈیکن یونیورسٹی کیمپس قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کر رہے ہیں، جو بھارت میں قائم ہونے والی پہلی غیر ملکی یونیورسٹی ہوگی۔ امریکی تھنک ٹینک ولسن انسٹیٹیوٹ میں شعبہ ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کے مطابق گو کہ مغربی دنیا بشمول امریکہ کو احساس ہے کہ بھارت میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، مگر چونکہ یہ اسوقت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم مہرہ ہے، اسلئے اسکو پریشانی سے بچانے کیلئے بین الاقوامی برادری نے بڑی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مسلم دنیا کے رہنما وں نے بھی بھارت میںآئے دن مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف ہو رہی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ آزاد پریس کو ڈرانے سے لیکر سول سوسائٹی کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے علاوہ منی لانڈرنگ اور غیر ملکی فنڈنگ کے قوانین کا استعمال کرکے ملک میں اپوزیشن اور اسکے لیڈروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2014میں مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے لیکر ابھی تک صرف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے ہی تین ہزا ر کے قریب ریڈز کئے ہیں اور ایک ٹریلین سے زائد کی جائیدادیں ضبط کی ہیں۔خبر رساں ادارے کے آرٹیکل 14 کے جائزے کے مطابق مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے پہلے چھ سالوں میںہی 7,100 سے زیادہ افراد پرسڈیشن یعنی بغاوت کے الزامات میں مقدمات درج کئے گئے تھے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش میں 2017 اور 2021 کے درمیان 8,500 پولیس مقابلے ہوئے ہیں اور ان میں 40فیصد ہلاک شدگان مسلمان تھے۔ فریڈم ہاؤس نے اپنی سالانہ "فریڈم ان دی ورلڈ" رپورٹ میں بھارت کی پوزیشن کو "آزاد" کے درجہ سے "جزوی طور پر فری" میں منتقل کر دیا ہے۔ سویڈن کے V-Dem انسٹی ٹیوٹ نے اپنے سالانہ ڈیموکریسی لیگ ٹیبلز میں اس تجزیے کی بازگشت کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں جمہوریت انتخابات کے انعقاد تک محدود ہو کر رہی گئی ہے۔ طرہ تو یہ ہے کہ بھارت دنیا میں اپنے آپ کو ایک جمہوری چیمپئن کے بطور پیش کرتا ہے۔ بقول کوگل مین، چین کے مقابل بھارتی لیڈران اپنی آستینوں پر "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" کا لیبل پہن کے دنیا بھر میں گھومتے ہیں۔ وہ کامیاب آزادانہ اور متواتر انتخابات سے لے کر فوج کی سویلین قیادت کے تابع ہونے کی کہانیاں سناکر جمہورت کے پٹارہ کو بجاتے ہیں۔ مزید برآں، چین کا مقابلہ کرنے کے لیے کواڈ او ، جو جمہوری ممالک کا اتحاد بھی ہے، میں ایک نقیب کا رول ادا کرتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک طرف امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کو خارجہ پالیسی میں ترجیح کے طور پرشامل کیا ہے، اور اس سمت میں دنیا کے متعدد ممالک کے خلاف اس نے کارروائیاں بھی کی ہیں۔ وہیں وہ بھارت کے معاملے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر ہے ۔کوگل مین کے مطابق نئی دہلی کو جتنے زیادہ مفت پاس ملیں گے، اتنی ہی حوصلہ افزائی ہوگی اور ملک میں جمہوری اداروں ، اقلیتوں اور اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن اور تیز ہوگا۔ اسکالر فرانسس فوکویاما دلیل دیتے ہیں کہ لبرل جمہوریت قانون کی حکمرانی، جمہوری احتساب، اور ایک موثر ریاستی اپریٹس پر مبنی ایک میکانزم ہے۔ اگرچہ بھارت نے قانون کی حکمرانی کے نفاذ اور مضبوط ریاستی اداروں کے قیام میں کامیابی حاصل کی ہے، مگر اسکی جمہوری سند اس وقت انتہائی تنائوکا شکار ہے۔ جب بھارت کی جمہوریت کی تنزلی کی بات آتی ہے، تو اس تشویش کے تین اہم جز ہیں۔ سیاست میں ہندو اکثریتی برانڈ کے عنصر کا داخل ہونا،ایگزیکٹو کے ہاتھوں میں ضرورت سے زیادہ طاقت کا ارتکاز ، آزاد اداروں میں تنزلی اور سیاسی اختلاف اور آزادی صحافت پر پابندی اور گودی میڈیا کا قیام اور اسکی حوصلہ افزائی۔ ان میں سے زیادہ اہم ہندو قوم پرستی کا عروج ہے۔ بی جے پی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کا ایک سیاسی بازو ہے جو کم از کم تین درجن ہندو قوم پرست تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہے۔آر ایس ایس اور اس کے اتحادیوں کا استدلال ہے کہ ہندو ثقافت کو 12 صدیوں سے مسلم حکمرانوں اور پھر برطانوی نو آبادی نے دبا کر رکھا تھا، حتیٰ کہ 1950 کے آئین کو بھی وہ برطانیہ کے زیر اثر لبرل عناصر کی دین سمجھتے ہیں اور اسکو بھی ایک غیر ملکی استعمار کی نشانی کے طور پر مانتے ہیں۔گو کہ کانگریس بھی آزادی اظہار پر حملوںکے معاملے میں کچھ کم نہیں تھی۔ ہمارے کئی سینئر کولیگ اندرا گاندھی کے دور کو یاد کرکے اس کے ذریعے 1975میں لگائی گئی ایمرجنسی کی یاد دلاتے ہیں۔ مگر اگر دیکھا جائے، کانگریس موقع پرستی کا استعمال کرتے ہوئے ان کو لوگوں نشانہ بناتی تھی، جو اس کے سیاسی مفادات کی راہ کاکا نٹا ہوتے تھے۔ مگر بی جے پی کا محور نظریاتی تنگ نظری کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اس نے تو اب ہندو قوم پرستی کی حمایت کو بھارت کے ساتھ وفاداری کے ساتھ نتھی کیا ہوا ہے۔ دنیا کی سب سے اس بڑی جمہوریت میں اقدار کی تنزلی جلد یا بدیر اس کے سماجی استحکام کو نشانہ بناکر خوشحالی اور اقتصادی ترقی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ مغربی دنیا چین کے خلاف جس مہرہ کو استعمال کرنا چا رہے ہیں، وہ کام کرنے سے قبل ہی پٹ جائیگا۔ یہ ان ممالک کے مفاد میں بھی ہے کہ بھارت میں جمہوری اقدار کو بچانے کیلئے فعال کردار ادا کریں اور اپنے تعلقات کو ادراوں کی آزادی، اقلیتوں کے تحفظ نیز دیگر ایسے ایشوز کے ساتھ مشروط کردیں۔