مکرمی،پرانے وقتوں کی بات ہے کہ مارچ کا مہینہ قراردادپاکستان کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا مگر پھر وقت بدلااور مارچ کو قرارداد پاکستان کے ساتھ ساتھ وومن ڈے یا عورت مارچ کے حوالے سے بھی جاناجانے لگا اور تو اور یہ دن نہ صرف پاکستان میںبلکہ دوسرے ممالک میں بھی منایا جاتا ہے جہاں خواتین ریلیاں اور جلوس نکالتی ہیں اور ہاتھوں میں بینرز اورپوسٹر زلیے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں ۔۔۔لیکن میرا ان سب خواتین سے سوال ہے کہ کیا ایسا کرنے سے ان کو ان کے حقوق مل جاتے ہیں یا اپنے مطالبات منوالیتی ہیں ۔۔نہیں نا؟تو پھر؟جب اسلام نے عورت کو ایک خاص مقام اور مرتبہ دیا ہے تو یہ سٹرکوں پر نکل کر احتجاج کی کیا ضرورت ہے؟چلیں پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ یہ عورت مارچ یا وومن ڈے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ویسے تو فیمینزم کا تصوربہت پرانا ہے مگر صحیح معنوں میں یہ تحریک مارکس ازم سے شروع ہوئی اور کالونیل ازم میں اس نے زور پکڑا ۔خواتین کے عالمی دن یعنی وومن ڈے کا آغاز نیویارک شہر میں ہواجب پندرہ ہزار خواتین نے کم گھنٹے کام،بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیاپھر اس سال کے بعدسوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلی بار قومی یوم نسواں منایا۔۔۔اس دن کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارازتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کمیونسٹ تھی۔۔اسلام نے خواتین کو ماں کا رتبہ دے کر اس کے ایک خاص مقام اور مرتبہ عطا کیا ہے ۔۔۔دراصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خواتین خود کو اور اپنے خاندان کو اسلامی قوانین اور نظریے کے مطابق ڈھال لیں تا کہ ہمیں کسی بھی حقوق کے مطالبے کے لیے عورت مارچ یا وومن ٖڈے کا سہارا نہ لینا پڑے۔۔۔ (انور سلطانہ)