افریقہ کے کسی کے قحط زدہ ملک کی ایک تصویر اس قدر خوف ناک اور دل دہلا دینے والی ہے کہ کسی بھی صاحب دل شخص کی آنکھ میں آنسو لرزنے لگیں۔ تصویر میں بھوک سے نڈھال بچہ تقریباً بے ہوش پڑا ہے اور اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک گدھ اسکی موت کا انتظار کر رہا ہے۔ جدید سودی بینکاری نظام وہ گدھ ہے جو قرضوں کے میٹھے زہر سے حکومتوں کو معاشی موت کا شکار کرتا ہے۔ ایک ایسی موت جس کے بعد آئی ایم ایف کے انجکشن سے معیشت کو اس مقصد کے لیے زندہ کیا جاتا ہے کہ یہ سودی بینکاری کے گدھوں کو برضا و رغبت اپنا گوشت نوچنے دے۔ کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی کی بات ہے کہ مقروض قوموں اور بدحال معیشتوں کو لوٹنے کے لیے دنیا بھر میں جو فنڈ قائم کیے جاتے ہیں انہیں "Vulture Fund" (گدھ فنڈ) کہا جاتا ہے۔ اس فنڈ میں دنیا کے بڑے بڑے سودی بینکار سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ ان بیمار معیشتوں، دیوالیہ ہوتی ہوئی کمپنیوں اور نقصان کی جانب بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کو اونے پونے داموں خرید کر اس ملک کے تمام وسائل یا اس کمپنی کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے۔ اسکے بعد شکسپیر کے سودخور کردار شائی لاک (Shylock) کی طرح گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے۔ یہ حکومتوں کے قرضے خریدتا ہے، پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرتا ہے اور قرض میں جکڑی ہوئی مضبوط ساکھ والی کمپنیوں کو قرض کی دلدل سے نکالنے کے نام پر سرمایہ فراہم کرتا ہے اور پھر وہ اسکے ہاتھ میں گروی ہوتے ہیں۔ ان "گدھوں" کے لئے اس ’’مردار‘‘ کا بندوبست دنیا پر آکٹوپس کی طرح چھایا ہوا عالمی سودی مالیاتی نظام غریب ملکوں کو سب سے پہلے قرض کے زہر آلود ٹیکے لگا کر کرتا ہے۔ معیشتیں اس سے نڈھال ہو جاتی ہیں، ان میں قرض ادائیگی کی سکت باقی نہیں رہتی، انکی گندم ، چاول، کپاس، معدنیات غرض ہر قسم کا خام مال سستے داموں خرید کر قرضوں کی قسطیں وصول کی جارہی ہوتی ہے، جبکہ انکے پاس چاٹنے کے لیے خوبصورت موٹرویز، ایئرپورٹ، میٹروز، اور بلٹ ٹرینیں رہ جاتی ہیں۔ یہ کہانیاں نہیں حقیقتیں ہیں۔ ایسا دنیا کے غریب ملکوں کے ساتھ 60 کی دہائی سے ہو رہا ہے اور 90کی دہائی تک آتے آتے اور قرض ادا کرتے کرتے انکی کمریں ٹوٹ گئی تھیں۔ اب وہ مزید کما کر قرض ادا کرنے کے قابل بھی نہ رہے تھے۔ ایسے میں اس سودی بینکاری کے محافظ و نگہبان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میدان میں کودے اور 1996ء میں آئی ایم ایف کا HIPC (Heavily inhibited poor countries initiative) پروگرام آیا۔ اسکے ذریعے 39 غریب ملکوں کی معیشتوں میں جان ڈالی گئی تاکہ وہ قرض کی قسط ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ ایسے غریب ملک "گدھ فنڈ" کا اولین شکار ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ارجنٹائن کی مثال اس "مردارخور" سودی گھن چکر کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ 2001 تک ارجنٹائن کی بددیانت اور کرپٹ حکومتوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ہٹ مینوں (Hitmen) کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر کر خوب قرضے لے کر دل کھول کر عیاشی کی اور مال بنایا اور 2001ء تک آتے آتے، قرضے کی رقم 132 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ ایسے ملکوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے گماشتے قرض اتارنے کے لیے ایک مسلسل ترغیب دیتے رہتے ہیں کہ تم عالمی مارکیٹ میں بانڈ بیچ کر سرمایہ کا حاصل کرو اور قرض اتارو۔ ارجنٹائن نے بھی ایسا ہی کیا۔جب ارجنٹائن کے پاس آئی ایم ایف ان قرضوں کی ازسرنو ترتیب (Restructuring) کے لیے جا پہنچا تو اسوقت اس ملک کی حالت یہ ہو چکی تھی کہ 58 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے تھے، بیروزگاری 20 فیصد ہو چکی تھی اور جی ڈی پی 28 فیصد تک نیچے گر گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے ارجنٹائن کے بانڈز کی قیمت کم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تجویز نہ ماننے والے وہ سودی سرمایہ کار تھے جنہوں نے ایک "گدھ فنڈ" فنڈ قائم کیا تھا اور ارجنٹائن کے بونڈ اونے پونے داموں خریدے ہوئے تھے۔ ان کمپنیوں میں "Hedge Fund"(ہیج فنڈ) سب سے اہم تھا۔ ایسے فنڈ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری نظام کا بھی تحفظ کرتے ہیں۔ ہیج فنڈ امریکی رپبلکن پارٹی کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔ اس گدھ فنڈ نے امریکی عدالت میں مقدمہ کردیا کیوں کہ بانڈ تو وہاں بیچے گئے تھے۔ ارجنٹائن نے انکار کی کوشش کی تو ساری جمہوری قوتیں اس گدھ فنڈ کی پشت پناہی پر آگئیں۔ اور یہاں تک کہ گھانا میں ارجنٹائن کا ایک مال بردار بحری جہاز تک روک لیا گیا۔ بالآخر فروری 2016 ء کو ارجنٹائن ہیج فنڈ جیسی چھ "گدھ فنڈ" کمپنیوں کو ساڑھے چھ ارب ڈالر ادا کرنے پر راضی ہوگیا۔ ان کمپنیوں میں NML کیپیٹل اور Aurelius کیپیٹل بھی شامل تھیں ،یہ دونوں کمپنیاں امریکہ کی دوسری جمہوری پارٹی ڈیموکریٹ کی ڈونر ہیں۔ سودی بینکاری اور جدید جمہوری قوتوں کا گٹھ جوڑ دراصل ان بینک کاروں کے تحفظ اور ان کے منافع میں اضافہ کے لئے ہوتا ہے۔ یہ عالمی طاقتیں مقروض ممالک میں کرپٹ اور بد دیانت حکمرانوں کو مسلط کروانے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ حکمران پہلے انکے کہنے پر قرضے لیتے ہیں، پھر کرپشن اور منی لانڈرنگ سے لوٹ مار کا مال بیرون ملک انہی بڑے بڑے بینکوں میں منتقل کرتے ہیں اور جب ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہو جاتا ہے تو اس طرح کے "گدھ فنڈ" ان ملکوں کو لوٹنے آجاتے ہیں ،کیونکہ ان بدیانت حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے بانڈز کی صورت معیشت گروی رکھی ہوتی ہے اور اس طرح لوٹ مار آسان ہو چکی ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام غریب ممالک پر قرضہ 1,776 ارب ڈالر ہے۔ اسکے ساتھ وہ قرضہ جو براہ راست بینکوں کی سرمایہ کاری یا بانڈز کی صورت میں ہے وہ 130 ارب ڈالر ہے جبکہ ان غریب ملکوں کے بددیانت لیڈروں اور سرمایہ داروں کے امیر ملکوں کے بینکوں میں 2,380 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار دیوانے کی بڑ نہیںBank of international settlementکی 84ویں رپورٹ کے صفحہ نمبر 102 اور ورلڈ بینک کی 2014ء کی عالمی قرضوں کی رپورٹ کے ٹیبل نمبر V.1 میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یعنی اگر ان غریب ملکوں کے بددیانت حکمرانوں کا سرمایہ واپس ان ملکوں کو دے دیا جائے تو تمام قرضے اتار کر ان تمام ملکوں کے پاس 484 ارب ڈالر زیادہ موجود ہوں گے۔ لیکن سودی بینکاری کی عالمی مالیاتی غنڈہ گردی اور انکا زر خریدعالمی جمہوری نظام ایسا کبھی بھی نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان اسوقت ارجنٹائن اور پورٹو ریکو جیسے المیے سے گزر رہا ہے۔ عالمی قرضوں کے گھن چکر اور منی لانڈرنگ سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی نے اسے نڈھال کر دیا ہے۔ اس پر سونے کا سہاگہ یہ ہے کہ 1990ء میں نوازشریف حکومت نے معیشت کو آزاد کرنے کے نام پر بانڈز کا اجراء کیا اور انہیں تمام حکومتوں نے جاری رکھا اور اب اسوقت انکی مالیت جی ڈی پی کے تیس فیصد کے قریب ہے۔ انکی مالیت قریباً پانچ ہزار 800 ارب روپے ہے اور یہ وہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں جنکے عوض آپکو اس ملک کا کچھ بھی بیچنا پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ اپنی گذشتہ ستر سال کی بدمعاشی کا تحفظ کرنے کے لیے اب پاکستان آ چکا ہے۔ پاکستان کے قرضے کو خریدنے کے لیے عالمی منڈی میں گدھ چاروں جانب منڈلا رہے ہیں۔ پہلے ایسے " گدھ فنڈ"صرف امریکہ اور یورپ میں پائے جاتے تھے۔ لیکن اب چین کی دو" گدھ فنڈ "کمپنیاں زنگ (zhang) اور لیو (Liu) بھی میدان میں اتر چکی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون سی گدھوں کے حوالے یہ ملک ہونے جارہا ہے۔ کیونکہ اس ملک کے لٹیروں نے منی لانڈرنگ سے جو مال امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں رکھا ہے، اسے کوئی واپس نہیں کرے گا۔ اسی کے تحفظ کے لئے تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قائم ہوا تھا اور اسی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے سود پرست عالمی جمہوری قوتوں کا نظام ہے جو ان گدھوں کے پیسوں سے چلتا ہے۔