ڈاکٹرمحمد اقبال چشتی 

اسلامی تاریخ میں خیر و شر، حق و باطل، رشد وگمراہی اور اسلام وکفر کے مابین ہونے والے سیکڑوں واقعات کا تذکرہ ملتا ہے اور ایسے واقعات قیامت تک کے لیے ہوتے رہیں گے۔اسلام اور کفر کے مابین ہونے والے غزوات میں لاکھوں مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔  تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس طرح شہزادۂ بتول، نواسۂ رسول سیدنا امام حسین کی شہادت کو جس قدر قبولیت اور عالمگیریت تذکرہ نصیب ہوا کسی اور شہادت کو میسر نہیں ہوا۔ شہادت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم المرتبت نعمت ہے۔ جن  کو شہادت جیسی عظیم نعمت میسر آتی ہے اللہ رب العزت ان انعام یا فتہ بندوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے:

مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُو لٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہَ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصَّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَالصَّالِحِیْنَ         (النسائ، ۴:۶۹)

’’جو کوئی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے۔ پس وہی ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے جو کہ انبیا، صدیقین شہداء اور صالحین ہیں۔‘‘

مذکورہ آیہ کریمہ میں شہداء کو اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں میں شامل کیا گیا ہے اور شہداء کو صالحین پر فضیلت دی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی جو نعمتیں اور فضل و کمال باقی مخلوق کو عطا فرمائے ان تمام کو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات مبارکہ میں جمع فرمایا ہے۔ شہادت ایک کمال اور اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے بلکہ یہ تو ایسی نعمت ہے کہ اس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی آرزو تھی چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا:

’’ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں‘‘ (بخاری، ج۳، ص۰۱۳۰، رقم:۲۶۴۴)

مگر اللہ کا وعدہ ہے: وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مَنَ النَّاسِ، ’’اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا‘‘ آپ کے اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے مانع تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ نبی کی دعا قبول ہو اور یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ شہادت کی خواہش پوری نہ ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہش کو یوں پورا فرمایا کہ آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کہ جنہیں آپ اپنا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے، کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوہر شہادت کے ظہور تام کے لئے منتخب فرمایا۔ چنانچہ شہادت حسین سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باب بھی بن گئی۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہونے کی حیثیت سے شہادت امام حسین کو دوسری شہادتوں میں ایک خاص امتیاز تو حاصل ہے ہی مگر بعض دیگر امور کی بناء پر بھی اسے ایک انفرادیت حاصل ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

شہرت کے اعتبار سے انفرادیت

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت چونکہ اصل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت تھی اور یہ محض حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہی نہ تھی بلکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس شہادت کو اتنا چرچا اور شہرت ملے کہ اس کے مقابلے میں کسی اور شہادت کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی شہادت کی شہرت اور چرچا ان کے شہید ہونے کے بعد ہوتا ہے مگر حضرت امام حسین ص کی شہادت کا چرچا ان کے شہید ہونے سے پہلے ہو چکا تھا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ابھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں کھیلتے تھے اس وقت سے ہی آپ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ عام کر دیا تھا۔ چنانچہ حضرت ام فضل بنت حارث جو کہ حضرت عباس علیہ السلام کی زوجہ اور آنحضرت کی چچی ہیں، ان سے مروی ہے کہ ایک روز وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بولیں کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج رات میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ حضرت ام فضل نے عرض کیا کہ سخت ڈراؤنا ہے۔ (نہ تو میں اس کو بیان کرنا پسند کرتی ہوں اور نہ آپ اس کو سن کر پسند کریں گے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مجھے سناؤ تو سہی) وہ کیا ہے؟ حضرت ام فضل نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا گویا آپ کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹا گیا ہے اور میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ (اس کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاء اللہ سیدہ فاطمہ ؓکے ہاں لڑکا پیدا ہو گا جو تمہاری گود میں دیا جائے گا (کیونکہ خاندان کی عورتوں میں تمہارا ہی رشتہ بڑا ہے اور تم اس لڑکے کی زیادہ بہتر طور پر تربیت کر سکو گی) چنانچہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حضرت امام حسین علیہ السلام پیدا ہوئے اور (جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا) انہیں میری گود میں دے دیا گیا۔ پھر ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی اورسیدنا حسین علیہ السلام کو آپ کی گود میں دے کر ذرا دوسری طرف متوجہ ہو گئی اور پھر (مڑ کر میں نے جو آپ کی طرف نظر اٹھائی تو ) کیا دیکھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔حضرت ام فضل کہتی ہیں:

’’میں نے پوچھا اے اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کو کیا ہوا؟آپ نے فرمایا ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ میری امت (یعنی مسلمانوں ہی سے بعض لوگوں کی جماعت) میرے اس بیٹے کو عنقریب قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا ’’کیا اس بیٹے کو؟‘‘ آپ نے کہا ’’ہاں‘‘ یاد رہے مجھے اس خاک زمین کی مٹی میں سے کچھ مٹی دی جو کہ سرخ تھی۔‘‘

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو مٹی عطا فرمانا

سیدنا امام حسین علیہ السلام ابھی بچے تھے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکو اس جگہ کی مٹی عطا فرمائی جہاں امام حسین علیہ السلام نے شہادت پانا تھی۔

چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبریل امین خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک آپ کی امت میں سے ایک جماعت آپ کے اس بیٹے حسین کو آپ کے بعد قتل کر دے گی اور آپ کو (وہاں کی تھوڑی سی) مٹی دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا اور روئے پھر فرمایا:

’’اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہو گیا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہانے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہو جائے گی وہ دن عظیم ہو گا۔‘‘ (حاکم، المستدرک، ج۴، ص۴۴۰، رقم:۸۲۰۲، طبرانی،المعجم الکبیر، ۲۴: ۵۴، رقم:۱۴۱)

مقام شہادت کی نشاندھی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ حضرت امام حسین ص کی شہادت سے پہلے ہی خبر دے دی تھی بلکہ جس مقام پر سیدنا امام حسین علیہ السلام نے شہادت پانا تھی اس مقام کی نشاندہی بھی فرما دی تھی۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہافرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’مجھ کو جبرئیل امین نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد ’طف‘ کی زمین میں قتل کر دیا جائے گا اور جبرئیل میرے پاس (اس زمین کی) یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ یہی مٹی حسین کا مدفن ہے۔‘‘(طبرانی، المعجم الکبیر، ۳:۱۰۷، رقم:۲۸۱۴)

ارض کربلا۔۔۔۔شہادت گاہ حسین علیہ السلام 

سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے کئی سال پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان یہ بات شہرت پا چکی تھی کہ آپ کی شہادت کربلا کے مقام پر ہو گی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بارش برسانے پر مامور فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی اجازت مانگی جو مل گئی۔ اس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے فرشتے کی آمد پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

’’اے ام سلمہ! دروازے کا خیال رکھنا کوئی اندر داخل نہ ہو۔‘‘

اس اثناء میں کہ آپ دروازے پر نگہبان تھیں حضرت امام حسین علیہ السلام آئے اور اندر چلے گئے۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کندھوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو گود میں لے کر چومنے لگے تو فرشتے نے عرض کی:

أتحبہ؟ قال النبي: نعم، قال: فإن أمتک تقتلہ، وإن شئت أریتک المکان الذی یقتل فیہ فضرب بیدہ۔ فأراہ ترابا أحمر فأخذتہ أم سلمۃ فصرتہ في ثوبہا فکنا نسمع أنہ یقتل بکربلاء (الخصائص الکبریٰ، ۲:۲۱۲)

’’کیا آپ اس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں‘‘ فرشتے نے کہا ’’بے شک آپ کی امت اس کو تل کر دے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ دکھادوں جہاں یہ قتل کئے جائیں گے پس اس نے اپنا ہاتھ مارا اور آپ کو سرخ مٹی دکھا دی۔ وہ مٹی ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے لے لی اور اپنے کپڑے کے کونے میں باندھ لی۔ راوی فرماتے ہیں ’’ہم سنا کرتے تھے کہ حسین کربلا میں شہید ہوں گے۔‘‘

اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایات ہے کہ ایک دن محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کروٹ کے بل سو رہے تھے کہ اچانک جاگ پڑے اور آپ پریشان و ملول تھے۔ آپ کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ الٹتے تھے میں نے عرض کیا۔’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کیسی مٹی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبرئیل امین نے خبر دی ہے کہ یہ حسین عراق کی سر زمین پر قتل کر دیا جائے گا اور یہ وہاں کی مٹی ہے۔

یہ مٹی آقا علیہ الصلوۃ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے سپرد فرمائی تھی اور فرمایا تھا:

’’اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسینؓ قتل ہو گیا ہے۔‘‘ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳:۱۰۸، رقم:۲۸۱۷)

ایک لطیف نکتہ

یہ بات قابل غور ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی سب ازواج میں سے زیادہ محبوب تھیں ان کو مٹی عطا نہیں فرمائی اور نہ ہی کسی اور زوجہ مطہرہ کے سپرد فرمائی بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے فرمائی اور فرمایا کہ اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو یہ سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنی نگاہ نبوت سے یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے بیٹے کی شہادت کے وقت ازواج مطہرات میں سے صرف ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی زندہ ہوں گی۔ چنانچہ جب واقعہ کربلا ظہور پذیر ہوا اس وقت صرف حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاہی زندہ تھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی تمام ازواج مطہرات وفات پا چکی تھیں۔

سن شہادت کی نشاندہی

محبوب خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس جگہ کی نشاندہی فرما دی تھی جہاں حضرت امام حسین علیہ السلام نے شہادت فرمانا تھی بلکہ اس سن کی طرف اشارہ بھی فرما دیا تھا جس سن و سال حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہونے والی تھی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:تعوذوا باللّٰہ من رأس السبعین وإمارۃ الصبیان۔

(البدایہ و النہایہ لابن کثیر، ۶:۲۳۴)

 ’’ستر ہجری کی ابتداء اور  لڑکوں کی امارت (حکومت) سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساٹھ ہجری کے سال سے پناہ مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ساٹھ ہجری میں میرے جگر کے ٹکڑوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے اور انہیں بڑی بے دردی سے شہید کر دیا جائے گا۔ یہ صرف چند افراد کی ہلاکت ہی نہیں ہو گی بلکہ اس سے پوری امت مسلمہ اس طرح ہلاکت کا شکار ہو گی کہ ہمیشہ کے لئے اس کا شیرازہ بکھر جائے گا ور آپس میں اس قسم کے اختلافات پیدا ہوں گے جو ہمیشہ امت کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے رہیں گے۔

امارۃ الصبیان، سے پناہ مانگنے کا حکم ارشاد فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ اس وقت کے حکمران فہم و فراست سے عاری اور دین میں کمزور و ضعیف ہوں گے۔ نیز مذکورہ حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ دین میں کمزور لوگوں کی حکومت و امارت ساٹھ ہجری سے شروع ہو گی اور یزید ساٹھ ہجری میں ہی تخت نشین ہوا تھا بلکہ یزید کے بارے میں تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے کہ یہ پہلا شخص ہو گا جو عدل و انصاف کے نطام کو تباہ کرے گا۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا یزال أمر أمتی قائما بالقسط حتی یثلمہ رجل من بنی أمیۃ یقال لہ یزید۔(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۸: ۲۳۱)

’’میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔‘‘

علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یزید کے بارے میں جو باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کا علم تھا۔ اسی لئے وہ دعا کیا کرتے تھے:’’اے اللہ! میں ساٹھ ہجری کی ابتداء اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو انسٹھ ہجری میں وفات دے دی۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان اقدس سے نہ صرف یہ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت، جائے شہادت اور سن شہادت کو پہلے سے بتلا دیا گیا تھا بلکہ اس بات کی بھی پہلے سے نشاندہی کی جا چکی تھی کہ میدان کربلا میں اہل بیت کرام کے خیمے کس کس جگہ نصب ہوں گے اور کس کس جگہ پر ان کا خون بہے گا۔ 

حضرت یحییٰ حضرمی کہتے ہیں کہ میں سفر صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ تھا۔ جب آپ نینوا کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا:’’اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا۔آپ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبریل نے بتایا ہے: ’حسین فرات کے کنارے قتل ہو گا اور مجھے وہاں کی مٹی دکھائی۔‘(الخصائص الکبری، ۲: ۲۱۴)

الغرض شہادت حسین علیہ السلام پر اتنی صریح شہادتیں اور واضح دلائل موجودہ ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی ہر خاص و عام میں سیدنا امام حسین علیہ اسلام کی شہادت کا چرچا ہو چکا تھا۔

امام حسین کا راہِ عزیمت اختیار کرنے کا سبب:

جب سیدنا امام حسین علیہ السلام مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں نے رخصت کی راہ دکھائی اور کہا کہ کوفی بے دفا ہیں، وہ دھوکہ کرں گے۔ اس کے باوجود آپ کے قدم منزل شہادت کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ جانتے تھے کہ اتنی مدت کے انتظار کے بعد آج وہ مبارک گھڑی آ رہی ہے جس گھڑی میں میرے نانا جی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوہر شہادت کا ظہور تام ہونا قرار پایا ہے۔ وہ خود کو خوش نصیب تصور کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے جسم کو شہادت عظمیٰ کے لئے منتخب فرمایا ہے، لہٰذا وہ لوگوں کے مشوروں سے رک کر اپنے آپ کو اس عظیم نعمت سے محروم کیوں کر لیتے؟

چنانچہ سیدنا امام حسین علیہ السلام جب میدان کربلا پہنچے تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو بار ہا کہا کہ شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے۔ مجھ کو شہید ہونا ہے لیکن میں تم پر شہادت ٹھونسنا نہیں چاہتا۔ تم میں سے جس کسی نے جانا ہے رات کے اندھیرے میں چلا جائے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ چونکہ آپ کو معلوم تھا کہ میری شہادت جوہر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور تام کے لئے مقدر کر دی گئی ہے اس لئے آپ نے جان دینے سے خود کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وہ کسی بھی لمحہ زندگی میں بار گاہ خدا وندی میں اس انجام سے بچنے کی دعا کرتے نظر نہیں آتے۔ اگر آپ دعا کرتے تو ممکن تھا کہ کربلا میں پانسا پلٹ جاتا اور اہل بیت کے ایک ایک فرد کے شہید ہونے کی بجائے یزید لشکر تہس نہس ہو جاتا۔ دعا سے حالات تو بدل جاتے لیکن اس طرح جوہر شہادت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کا ظہور ممکن نہ ہوتا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اگر چاہتے تو آسمان کی طرف توجہ فرماتے، خدا کی ذات قدیر بادلوں کو حکم کرتی، وہ برستے اور پیاس کی کوئی صورت نہ رہتی لیکن یہ شہادت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور تھا اور شہادت جتنی مظلومیت اور غربت کی حالت میں ہو،جتنی بے کسی کی حالت میں ہو، اسی قدر رتبے میں بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام پانی پی کر بھی شہید ہو سکتے تھے لیکن پانی پی کر شہید ہونا اور بات تھی اور پیاس کی شدت میں تڑپ تڑپ کر شہید ہونا اور بات ہے۔ مظلومیت کی یہ ساری کیفیات جوہر شہادت کے ظہور کو نقطہ کمال تک پہنچانے کے لئے تھیں۔ اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑی رگڑنے سے چشمہ پیدا ہو سکتا ہاے تو نواسۂ رسول کے لئے یہ بعید نہ تھا کہ آپ کے حکم سے میدان کربلا میں پانی کے کئی چشمے بہہ نکلتے۔ اگر آپ فرات کی طرف اشارہ کرتے تو فرات اپنا رخ بدل کر آپ کے قدموں میں آ جاتا۔ الغرض آپ جو چاہتے خدا تعالیٰ کی ذات وہ کر دیتی مگر نہ آپ نے چاہا اور نہ خدا تعالیٰ کی ذات نے ایسا کیا۔ اس لئے کہ یہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایسا باب رقم ہونے والا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری زندگی میں رقم نہ ہو سکا تھا۔

تمام آزمائشیں شہادت حسین علیہ السلام میں مجتمع

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت دس محرم الحرام کو بڑی شہرت، چرچے اور تحمل کے ساتھ رونما ہوئی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو آزمانے کی جو جو صورتیں بیان کی ہیں مثلاً وطن سے نکال دی جانا، پریشانیوں میں بتلا کیا جانا اور اللہ کی راہ میں جان کا قربان کرنا وغیرہ، وہ سارے کے سارے طریقے اور سب کی سب آزمائشیں شہادت امام حسین علیہ السلام اور معرکہ کربلا میں مجتمع نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جو ہر شہادت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور تھا۔ اگر کوئی ایک آزمائش بھی باقی رہ جاتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوہر شہادت کا ظہور نقطہ کمال پر نہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے شہادت امام حسین علیہ السلام میں تمام آزمائشوں کو جمع کر دیا۔

شہادت امام حسین علیہ السلام  کا مشہود بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا

شہادت امام حسین علیہ السلام کو دوسری شہادتوں سے اس اعتبار سے بھی امتیاز حال ہے کہ دوسری شہادتیں مشہود بالملائکہ ہوتی ہیں جب کہ سیدناامام حسین علیہ السلام کی شہادت مشہود بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ دوسری شہادتوں میں چونکہ فرشتے حاضر ہوتے ہیں لہٰذا فرشتوں کی حاضری کے سبب وہ شہادتیں مشہود بالملائکہ ہوتی ہیں۔ مگرسیدناامام حسین علیہ السلام وہ خوش قسمت شہید ہیں کہ جب آپ کی شہادت کا وقت آیا ملائکہ تو ملائکہ خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسے کی شہادت کے وقت موجود تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودتی میں سیدناامام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک سے روح کو قبض کیا گیا۔

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:’’ایک دن دوپہر کے وقت میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح دیکھا جیسے کوئی سونے والا کو دیکھتا ہے (یعنی خواب میں) کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک بوتل ہے جو خون سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جس کو میں آج سارا دن (صبح سے لے کر اب تک بوتل میں) اکٹھا کرتا رہا ہوں۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے معلوم ہوگیا سیدنا امام حسین علیہ السلام  اس وقت شہید کئے گئے تھے۔(طبرانی، المعجم الکبیر، ۳: ۱۱۰، رقم:۲۸۲۲)

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت زندہ تھیں ان کے بارے میں حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں:’’میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے سر اور داڑھی مبارک پر گردو غبار ہے۔ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد و غبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا:میں نے ابھی ابھی حسین علیہ السلام کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔‘‘(ترمذی، السنن، ۵:۶۵۷، رقم:۳۷۷۱)

مذکورہ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت مشہود بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔

شہادت کے بعد گواہی دینا

شہادت کا ایک معنی گواہی دینا ہے۔ شہید اپنی جان قربان کر کے اللہ تعالیٰ کے ہونے اور اس کے دین کے برحق ہونے کی گوہی دیتا ہے۔ شہداء جن کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کر دیا گیا، کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘(البقرۃ، ۲:۱۵۴)

شہید زندہ ہوتے ہیں مگر ان کی زندگی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے کسی شخص نے شہید ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس قول کی کہ شہید زندہ ہوہتے ہیں، گواہی نہیں دی لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہے کہ آپ کے سر انور نے کٹ کر اور نیزے پر چڑھ کر شہداء کے زندہ ہونے کی گواہی دی اور یہ ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کا شہداء کے زندہ ہونے کے بارے میں قول سچا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام  کے کٹے ہوئے سر کا نیزے پر چڑھ کر بول پڑنا شہداء کے زندہ ہونے کی واضح اور نا قابل تردید دلیل ہے۔

حضرت منہال بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم: جب حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر کو نیزے کے اوپر چڑھائے گلیوں اور بازاروں میں پھرایا جا رہا تھا تو میں اس وقت دمشق میں تھا، میں نے بچشم خود دیکھا کہ سر مبارک کے سامنے ایک شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا۔ جب وہ اس آیت پر پہنچا ’’اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (الکھف، ۱۸:۹)کہ کیا تو نے نہیں جان کہ بے شک اصحاب کہف اور رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ تھے‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے سر مبارک کو قوت گویائی دی اور اس نے بزبانِ فصیح کہا:أعجب من أصحاب الکہف قتلي وحملي:(ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۶۰:۳۷۰)’اصحاب کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لئے پھرنا زیادہ عجیب ہے‘

بلاشبہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل کیا جانا اور آپ کو نیزے پر چڑھا کر پھرایا جانا یہ اصحاب کہف کے واقعہ سے عجیب تر ہے کیونکہ اصحاب کہف جن لوگوں کے خوف سے گھر بار، سازو سامان وغیرہ چھوڑ کر نکلے اور غار میں چھپے تھے، وہ کافر تھے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کے اہل بیت اور باقی ساتھیوں کے ساتھ ظلم و ستم اور انتہائی بے حرمتی کرنے والے ایمان اور اسلام کے دعوے دار تھے۔ اصحاب کہف ولی اللہ تھے اصحاب کہف سال ہا سال کی نیند کے بعد اٹھے اور بولے لیکن بہر حال وہ زندہ تھے مگر امام حسین علیہ السلام کے سر انور کا جسم سے جدا ہونے کے کئی روز بعد نیزے کی نوک پر بولنا یقینا اصحاب کہف کے واقعہ سے عجیب تر ہے۔

روایت کے اعتبار سے شہادتِ امام حسین

شہادت امام حسین علیہ السلام کا دوسری شہادتوں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ دوسری شہادتیں تو وقوع پذیر ہونے کے بعد لکھی اور درج کی جاتی ہیں یا بیان کیا جاتا ہے مگر شہادت امام حسین علیہ السلام ایسی شہادت ہے کہ جس کا ذکر شہادت سے پچاس برس پہلے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کر دیا تھا۔ پھر یہ کہ دوسری شہادتوں کے راوی عام لوگ ہوتے ہیں مگر اس شہادت کے راوی خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ دوسروں  کی شہادتیں عظیم سہی مگر ان کی شہادتوں اور سیدناامام حسین علیہ السلام کی شہادت میں فرق یہ ہے کہ دوسرے جب میدان شہادت کی طرف جاتے ہیں تو اگرچہ ان کا شہید ہونے کا عزم اور ارادہ ہوتا ہے مگر کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ واقعی اس کو شہادت نصیب ہو گی یا وہ غازی بن کر لوٹے گا۔ جب کہ امام عالی مقام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے روکنے کے باوجود کشاں کشاں میدان کربلا کی طرف بڑھ رہے تھے تو یقینا آپ اپنی شہادت کے انجام سے باخبر تھے۔ آپ جانتے تھے کہ کربلا میں شہادت میرا انتظار کر رہی ہے۔ آپ اپنا سفر کیسے ترک فرما دیتے کہ آپ نے تو پچاس برس سے زائد کا عرصہ عشق الٰہی میں اور محبوب حقیقی کے ہجرو فراق میں تڑپ تڑپ کر گزارا تھا۔ آپ کو تو اس لمحے کا انتظار تھا جب فراق ختم ہو گا اور پھر گردن پر تلوار چلے گی ادھر محبوب حقیقی کے حسن کا جلوہ بے نقاب ہو گا۔ یہ وجہ ہے کہ آپ نے ہر ہر منزل پر رک رک کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں کسی اقتدار کے حصول کے لئے نہیں جا رہا۔ اس سفر کا انجام درد ناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ ناراض نہیں ہوں گا۔ اگر کسی کو دن کے اجالے میں چھوڑ جانے میں جھجک ہے تو رات کے اندھیرے میں چلا جائے مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ لیکن ہر کسی نے کہا کہ امام عالی مقام: ’’آج اس غربت کے سفر میں آپ کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تو کل قیامت کے دن اللہ کی بار گاہ میں کیا منہ دکھائیں گے‘‘۔

تاریخ اسلام میں اور بھی بہت سی شہادتیں ہوئی ہیں اور ہر شہادت کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے مگر شہادت حسین علیہ السلام کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت اور اطراف و اکناف عالم میں اس کی شہرت دوسری سب شہادتوں سے بڑھ کر اس لئے ہے کہ اس میں شہید ہونے والوں کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص نسبتیں ہیں۔ پھر یہ کہ یہ داستان شہادت گلشن نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی ایک پھول پر مشتمل نہیں بلکہ یہ سارے کے سارے گلشن کی قربانی ہے۔ باقی واقعات شہادت ایک، دو، تین یا چار نفوس کی شہادت پر مشتمل ہیں مگر واقعہ کربلا گلشن نبوت کے بیسیوں پھولوں کے مسلے جانے کی داستان ہے۔ لہٰذا تاریخ کے کسی بھی دور میں امت مسلمہ واقعہ کربلا، اس کی تفصیلات اور اس کی اہمیت کو فراموش نہیں کر سکتی۔ مگر اس کے باوجود بعض نادان لوگ نادانی کے باعث یا اہل بیت پاک کی محبت سے محرومی اور اپنی بد بختی کے باعث جو کہ بغض اہل بیت کی شکل میں ان کے اندر جاگزیں ہے، واقعہ کربلا کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور وہ معاذ اللہ اس واقعہ کو دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں۔ واقعہ کربلا کو دو شہزادوں اور اقتدار کی جنگ قرار دینا بہت بڑا ظلم ہے، منافقت کی براہ راست حمایت ہے، حق سے عمداً اعراض ہے اور اسلام کی تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ مگر ان ساری کوششوں کے باوجود بالآخر یہ کہنا پڑتا ہے۔

؎قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد