نسانی ذہن کے ارتقائی، استعمال اور اس سے متعلق مغالطوں کا احوال

 

شبیر سومرو

 

ہمارے دماغ کا ہر خلیہ ایک سپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے

دماغ انسانی جسم کا2 فیصد حصہ ہے مگر یہ20فیصد توانائی کھاجاتا ہے 

صرف 10 فیصد انسانی دماغ استعمال ہونے کی بات بڑا مغالطہ ہے

دماغ کے 10فیصد استعمال کی ہوائی ڈیل کارنیگی کی ایک کتاب میںاڑائی گئی 

 بعد میں مختلف مصنوعات کی تشہیر کرنے والی کمپنیوں، میڈیا نے اسے مشہور کیا

جسم کو خوراک سے ملنے والی توانائی سب سے زیادہ دماغ ہی استعمال کرتا ہے 

 انسان چاہے حرکت کرے یامحض سوچتا ہی رہے، اس کے دماغ کا ہر حصہ متحرک رہتا ہے

انسانی ذہن کی صلاحیتوں کی گنجائش محدود نہیں، مشقوں، ورزشوں سے بڑھائی جاسکتی ہے

 

 کہا جاتا ہے کہ اگر انسان اپنا دماغ پچاس فی صد یا اس سے زیادہ استعمال کر لے تو کائنات کے سارے راز اس پر منکشف ہو جائیں!۔مگر ایسا نہیںہے اور یہ بھی درست نہیں ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں ذہن کی صلاحیتوں کا صرف دس فی صد ہی استعمال کر پاتا ہے۔ تازہ ریسرچ بتاتی ہے کہ ہر انسان روزانہ ہی اپنے دماغ کے تمام حصّے استعمال کرتا ہے۔یہ بھی غلط کہا جاتا ہے کہ آئن سٹائن جو عام انسانوں سے کہیں زیادہ ذہین تھا ،وہ اپنے ذہن کا بمشکل بیس فی صد استعمال کر پایا۔یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ امریکا جیسے ملک میں 65 فی صد لوگ اس مغالطے پریقین رکھتے ہیںکہ دنیا کی تمام تر ترقی اور ارتقا ،انسانی دماغ کے صرف 10 فیصد استعمال کے مرہونِ منّت ہوئی ہے!۔

اگر امریکی ایسا سمجھتے ہیں تو اندازہ کیجیے کہ ان ملکوں کے لوگوں کے خیالات کیا ہونگے، جہاں اس موضوع پر ریسرچ نہیں ہوئی اور تعلیم کو بھی زیادہ پوچھا نہیں جاتا۔ یہ مغالطہ کہ انسان اپنی پوری زندگی میں ذہن کی صلاحیتوں کا بہت کم یا صرف دس فی صد ہی استعمال کر پاتا ہے، اس کا پس منظر بہت دلچسپ ہے۔

 یہ مغالطہ دراصل ریاضی دان ولیم جیمز سیڈس نے پھیلایا تھا جو1898ء میں پیدا ہوا ۔وہ ماہرِ نفسیات بھی تھا،جسے صرف گیارہ سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ دیاگیاتھا۔ کہا جا تا ہے کہ اسے چالیس زبانوں پر مہارت حاصل تھی اور اس نے کائنات کے قوانین کے حوالے سے بہترین کام بھی کیا۔ اس کے بارے میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس کا آئی کیو ٹیسٹ میں اسکور 250سے اوپر تھا جوآج تک کسی بھی انسان کا سب سے بڑا سکور سمجھا جاتا ہے۔ولیم جیمز سیڈس کی ذہانت میں کوئی شک نہیں لیکن بعد میں معلوم ہو ا کہ بہت سے معاملات میں اس کی ذہانت کے حوالے سے مبالغہ آرائی کی گئی تھی ۔جیسے 250سے اوپر اسکور والے آئی کیو ٹیسٹ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔یہ دعویٰ کہ وہ چالیس زبانوں پر عبور رکھتا تھا،اس کا ثبوت بھی نہیں ملا۔

۔۔۔اور اسی ولیم جیمز سیڈس نے 1908 ء میں لکھا تھاکہ آج تک انسان نے اپنے دماغ کا تھوڑا سا حصہ ہی استعمال کیا ہے!۔

اس کی اس ہوائی بات کو بعد میں مختلف مصنوعات کی تشہیر کرنے والی کمپنیوں اور میڈیا نے مسلسل آگے بڑھایا۔اس زمانے میں ایسے دعووں والے اشتہار سامنے آنے لگے کہ اگر آپ فلاںکمپنی کی فلاں چیز، دوا یا پروڈکٹ استعمال کریں گے تو آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ اپنے دماغ سے زیادہ کام لے سکیں گے اور یہاں تک کہ آپ جینیس بن کر عام انسانوں کی طرح ،دس فیصد کے بجائے اپنا دماغ بیس ،تیس یا چالیس فیصد بھی کام میں لے آئیں گے اور پھر دنیا اور کائنات کے ان دیکھے اسرار آپ پر منکشف ہونے لگیں گے!۔

 غلط تشہیر کا یہ سلسلہ یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہولی ووڈ میں ایسی موویز بھی بننے لگیں، جن میں دکھایا گیا کہ کسی خاص دوا کے حادثاتی استعمال یا کسی واقعے کے پیش آنے سے فلم کے کسی کردار کا دماغ بہت تیز چلنے لگ گیا اور وہ کردار مافوق الفطرت کارنامے انجام دینے لگ گیا۔اس کے علاوہ ایسے تربیتی ادارے کھلنے لگے جو اپنے تیارکردہ کورس یا ورزشی مشقیں کروا کے دماغ کے 50تک استعمال کی ’گارنٹی‘دینے لگے تھے!۔  

مگر اس دعویٰ کو غلط قرار دینے کے لیے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ کسی ماہر نے کبھی کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیںکیا، جس کی مدد سے یہ تصدیق کی جاسکتی کہ کسی انسان کے دماغ کا کتنا حصہ کسی خاص وقت یا عام طور پر استعمال ہو رہا ہے؟ اس لیے ایسے دروغ گو ’ماہر‘نے اگر یہ دعویٰ کیا کہ انسان نے اب تک دماغ کا معمولی استعمال کیا ہے تو پہلے اس دعویٰ کی تصدیق کی جاتی، ریسرچ ہوتی اور اس کے نتیجے میں اگر ولیم جیمز سیڈس سچا ثابت ہوتا، تب اس دعویٰ کو نظریے کی حیثیت سے آگے بڑھایا جاتا۔ 

اب تک کئی مغربی سائنس دان اس سوال کے ضمن میں چھان بین کر چکے ہیں۔ اس سوال کو اگر نیوروسائنس کی نظر سے پرکھا جائے تو بیشتر سائنسدان اس نظریے کے تردید کرچکے ہیں۔کیمبرج یونیورسٹی میں کلینیکل نیورو سائیکالوجی کے سائنسدانو ں کے مطابق غلط طور پریہ خیال عام ہوچکا ہے کہ ہم اپنے دماغ کا صرف پانچ یا دس فیصد حصہ استعمال کرتے ہیں اور عام انسانوں کی نوے فیصد دماغی صلاحیتیں پوشیدہ ہی رہتی ہیں۔کئی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تصور قطعاً بے بنیاد ہے کہ ہم عام طور پر اپنے دماغ کا ایک محدود حصہ ہی استعمال کرتے ہیں اور مکمل دماغ کواستعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کرکے ہم کوئی انوکھے کرشمے کر سکتے ہیں۔ درحقیقت لوگ 10فیصد کا تعلق دماغی خلیوں سے سمجھتے ہیں۔ لیکن تحقیق و تجربے سے یہ بات بھی درست ثابت نہیں ہوتی۔

ماہرین نے دماغ کے حصوں کا پتہ چلانے کے لیے فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (fMRI) تکنیک استعمال کرتے ہیں جو بتاتی ہے کہ انسان جب کچھ سوچتاہے یا حرکت کرتاہے تو دماغ کے کون کون سے حصے متحرک ہوتے ہیں؟۔ اس تجربے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ انسان چاہے کتنی ہی ہلکی یا سخت حرکت کرے یافقط سوچتا ہی رہے، تب بھی اس کے دماغ کا ہر حصہ متحرک رہتا ہے یعنی استعمال ہوتا ہے۔یہاں تک کہ نیند کے دوران بھی ہمارا پورا دماغ مسلسل کام کرتا ہے۔ وہ جسم کے مختلف افعال جیساکہ نظامِ تنفس اور دل کی دھڑکن وغیرہ کو کنٹرول کرتارہتا ہے۔

میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ انسان کا دماغ ، اس کے سارے عصبی خلیے اور عضلات ہر وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ دماغ اپنے ایک بھی عصبی خلیے کو فارغ نہیں بیٹھنے دیتا۔ اس کے جو عصبی (Nerve) خلیے فالتو ہو جاتے ہیں، وہ مر جاتے ہیں۔

 سوال یہ ہے کہ ٹھوس سائنسی حقائق موجود نہ ہونے کے باوجود، پوری دنیا میں یہ کیوں مشہور ہو گیا کہ انسان نے اب تک محض 10 فیصد دماغ استعمال کیا ہے؟

ولیم جیمز سیڈس کے بعد مشہور امریکی ماہرِنفسیات ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب’’ لوگوں کو کیسے دوست بنایا جائے؟‘‘ میں دماغ کے استعمال کے حوالے سے 10 فیصد کا ہندسہ تحریر کیاتھا۔

انسانی دماغ دنیاکے تیز تر ین کمپیوٹر سے کتنا تیز ہے؟

دنیا میں بہت اعلیٰ اور تیز کمپیوٹر بنائے جا چکے ہیں لیکن قدرت نے جو کمپیوٹر، ہمارے ذہن کی صورت میں بناکر ہمیں بخشا ہے،وہ دنیا کے کسی بھی تیز ترین کمپیوٹر سے بھی تیز ہے۔ جاپان اور جرمنی کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر اور الگ الگ اس پر تجربات اور مشاہدات کیے ہیں۔انھوں نے جاپان کے سپر کمپیوٹر  K computerکے 82ہزار پروسیسرز کا استعمال کرتے ہوئے، انسانی دماغ کے صرف ایک فیصد حصے کا ماڈل بناکر کوشش کی کہ ایک سیکنڈ کے لیے دماغ کی کارکردگی کا جائزہ لیاجا سکے۔انھوں نے اعصابی خلیوں سے ملتے جلتے 1.73ارب خلیے اور 10.4کھرب synapses(جن کے ذریعے نیوران کے درمیان الیکٹرک سگنل پاس ہوتا ہے)بنائے ۔ ان میں  سے ہر ایک 24بائیٹ میموری پر مشتمل تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی دماغ کی صرف ایک سیکنڈ کی کارکردگی دیکھنے کے لیے سائنسدانوں کو 40منٹ تک انتظار کرنا پڑا۔ان کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ سپر کمپیوٹر سے کروڑوں درجے تیز ثابت ہوا جو کہ 86ارب سے زائد نیوران اور کھربوں synapsesسے مل کر بنتا ہے۔ اس میں کھربوں طرح کے راستے ہوتے ہیں،جن سے سگنل گزرتے ہیں۔ یعنی ایک معمولی عمل کے لئے بھی ہمارا دماغ کھربوں سگنلز کے ذریعے کام کرتا ہے۔اس تجربے سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

ہمارا ’پیٹو‘دماغ

ایک نوزائیدہ بچہ ماں کے دودھ سے جو خوراک حاصل کرتا ہے ،اس کی توانائی کا 60 فی صد حصہ اس کادماغ ہڑپ کر جاتا ہے۔ایک بڑے بچے کا دماغ خوراک سے ملنے والی طاقت یاتوانائی کا 40 سے 50فی صد حصہ کھا جاتا ہے۔اور ایک جوان شخص کی کھائی ہوئی خوراک سے ملنے والی 20فی صد توانائی  اس کا دماغ لے لیتا ہے۔ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ توانائی کا غالب حصہ ہڑپ کرنے والا ہمارے دماغ کا وزن، ہمارے پورے جسم کے وزن کاصرف دو فی صد ہے تو بہت حیرت ہوتی ہے۔اور اگر یہ سو فیصد متحرک ہوجائے تو اس کی توانائی کی ضروریات پوری کرنا ممکن ہی نہ رہے۔مگر ارتقائی سفر میں دماغ نے اپنے آپ کو توانائی کی بچت کرنے کا عادی کر لیاہے۔

عام انسان اور ذہین انسان کے

 دماغ میں کیا فرق ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ سائنسدانوں،دانشوروں اور عام انسانوں کے پاس ایک ہی طرح کا دماغ ہے اور وہ ایک ہی طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ تین پائونڈ وزن رکھنے والا دماغ( Brain) انسانی جسم کا ایک نہایت اہم اور پیچیدہ حصہ ہے،جس کے اندرسیکڑوں ارب خلیے ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔ اگر ہم ان متحرک خلیوں کو گننے لگ جائیں تو اس میں 3 ہزار سال کا عرصہ لگ جائے گا۔

ہمارے دماغ کا ہر خلیہ ایک سپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔یعنی قدرت نے انسان کو کم از کم بھی ایک سو ارب(100 Billion) سپر کمپیوٹروں سے نوازا ہے۔دماغ کا ہرخلیہ دوسرے خلیے کو ایک سیکنڈ میں ایک ہزار بائٹ کی انفارمیشن پہنچاتا ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی دماغ کے بارے میں جاننے کے لیے سائنس دان صدیوں ریسرچ کرتے رہے ہیں۔ پچھلی صدی کے وسط میں جاکر دماغ کے خلیوں کا مناسب ادراک ہوسکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے سائنسدانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ دماغ کے اندر تک رسائی حاصل کرکے اس کے ارتعاشات اور حرکات کا صحیح طرح معائنہ کرسکیں۔ لیکن اب بھی دماغ کے کچھ ایسے پیچیدہ پہلو ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی دماغ قدرت کا ایک حیرت ناک عجو بہ ہے۔ ایک جانب تو دماغ کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ اس پر معمولی سا صدمہ شدید نوعیت کے نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ دوسری جانب بعض حیرتناک واقعات نے بالکل مخالف نتائج دیے ہیں۔ مثلاً 1980 ء میں برطانوی معالج ڈاکٹر جان لوربر نے مشہور سائنسی رسالے’’دی جرنل‘‘ میں انکشاف کیا کہ استسقائے دماغ کی بیماری میں مبتلاایک ایسا مریض ،جس کے تقریباً تمام نیرون خلیے مردہ ہو چکے ہیں،اس کے باوجود اس کا دماغ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔ میڈیکل سائنس میں کئی ایسے کیسز سامنے آئے ہیں، جب کسی حادثے کی صورت میں کسی انسان کے دماغ کا کوئی حصہ ختم ہوچکا ہو لیکن پھر بھی وہ اپنے تمام تر حواس کو استعمال کرنے پر قادر ہوتے ہیں اور صحتیاب ہوکر نارمل زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ 

اس وقت دنیا میں ایسے افراد بھی موجود ہیں، جن میں آدھا دماغ موجود ہی نہیں ہے! ۔۔۔جی ہاں،وہ صرف اپنے دائیں طرف والے دماغ کو کام میں لاتے ہیں اور بائیں طرف والے دماغ کے عدم استعمال کے باوجود ناصرف چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور ہنستے بولتے ہیں بلکہ وہ سارے کام سرانجام دیتے ہیں جو ایک نارمل انسان کرتا ہے۔اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی آج دنیا میں معمول کی زندگی گذار رہے ہیں ،جن کا کسی حادثے میں آدھا دماغ ختم ہو چکا ہے، یعنی وہ طنزاً نہیں بلکہ عملاً ’ادھ مغزی‘ ہیں۔

نئی سائنس نیورو پلاسٹی سٹی (Neuroplasticity )کی تحقیق یہی حقیقت واضح کرتی ہے کہ اگر ہم نت نئی باتیں سیکھتے رہیں، اپنے ذہن کو ہر وقت متحرک رکھیں تو وہ تیز ہو جاتا ہے۔نیورون خلیوں کے مابین نئے تعلق (کنکشن) کے جنم لینے سے ہماری ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ قبلfMRI کی تیکنیک کے ذریعے کی جانی والی ایک ریسرچ سے پتہ چلا تھا کہ لندن کے بعض ٹیکسی ڈرائیوروں کے ہپوکیمپس کا پچھلا حصہ نارمل سے بڑا ہوگیا اور سامنے والا حصّہ چھوٹا ہوگیا۔      اس سسٹم کا یہ حصہ مختلف امور مثلاً: آموزش، حافظے اور مکانی تعلقات کی تنظیم ِنو سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے یہ مطلب لیا گیاکہ شہر کے تفصیلی نقشے کو یاد کرنے کی کوشش میں دماغ کے اس متعلقہ حصّے نے اردگرد کے خلیوں کو بھی اپنی ٹیم میں بھرتی کرلیا تاکہ اپنی کارکردگی میں اضافہ کرسکے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دماغ کی کچھ ساخت ،انسان کے ہر عمل اور ہر ادراک کے ساتھ بدل بھی جاتی ہے۔

دماغ اور ذہن

مغربی دنیا میں اکثر ماہرِنفسیات ، سائیکو تھراپسٹ، فزیو تھراپسٹ اور روحانی معالجین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہمارا دماغ اور ہمارا ذہن دو مختلف چیزیں ہیں۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے جسم میں دو طرح کے دماغ موجود ہیں۔ ایک مادّی دماغ، وہ گوشت کا لوتھڑاجو انسانی کھوپڑی کے اندر ہوتا ہے اور دوسرا اصل دماغ ،یعنی ہمارا ذہن جو ہمارے دماغ کو تشکیل دیتا ہے۔ ہمارے مادی دماغ کے کسی حصے کے ناکارہ یا مفلوج ہوجانے یا دماغ سے جدا ہوجانے کی صورت میں بھی ،ہمارا اصل دماغ (ذہن) اپنا کام نہایت مستعدی اور نارمل طرح سے کرتا رہتاہے۔ جدید ریسرچ کے یہ نتائج ظاہر کررہے ہیں کہ دماغ کو تحریک ذہن سے ملتی ہے۔  

مگرکیا واقعی دماغ اور ذہن دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ہماری مختلف صلاحیتیں ہمارے دماغ کے مختلف حصوں میں موجود ہیں یا ہمارے ذہن میں؟اگر ہمارا ذہن ہی ہماری اصل ہے تو وہ ہمارے جسم میں کہاں ہے؟

ماہرین دماغ اور ذہن کو شعور اور لاشعور کہہ کر ان دونوں میں تمیز کرتے ہیں۔یعنی گوشت پوست سے بنا ہوا دماغ صرف شعور کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ لاشعور اس دماغ سے ماورا’’کہیں اور‘‘ موجود ہے اور وہ ہمارے اس دماغ اور شعور کو کنٹرول کررہا ہے۔ یہی لاشعور اس دماغ کے دو مختلف حصوں سے ایک جیسے کام لیتا ہے اور یہی لاشعور ہماری ذہنی قوتوں کا اصل سرچشمہ ہے۔اس طرح ذہن کی تعریف کا خلاصہ یہ ہوگا کہ ذہن ایک نظر نہ آنے والی ایسی ایجنسی ہے، جس نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ جسم کی ہر حرکت اْسی کے تابع ہے۔ ذہن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس کائنات سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ توانائی کا حصول اور اخراج اگر درست طریقوں پر انجام دیا جائے تو فرد ذہن کی مدد سے اپنے حواس کو مزید فعال بناکر اپنی لاشعوری صلاحیتوں میں اضافہ کرسکتا ہے۔

کیا انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں سے غیر معمولی کارنامے سرانجام سکتا ہے؟

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ جینیس بنتے نہیں، پیدا ہوتے ہیں۔مگر اصل بات یہ ہے کہ  کوئی شخص پیدائشی طور پر جینیس نہیں ہوتا بلکہ وہ’بنتا‘ہے اور اسے جینیس بنانے میں حادثات بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

آئن اسٹائن، آئزک نیوٹن، ونسٹن چرچل، بل گیٹس جیسے کئی بڑے آدمیوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ لوگ بچپن میں پڑھاکو،ہوشیار یا ذہین نہیں مانے جاتے تھے بلکہ انھیںنکھٹو، نالائق،ضدی، کندذہن، شریر اور خبطی کہا جاتا تھا۔ ان کے بچپن میں ان کی معمولی سمجھ بوجھ دیکھ کر ہر شخص کہہ دیتا تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر زندگی میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکے گا۔ لیکن عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ انھی’نالائقوں‘ کے اندر چھپی ہوئی اعلیٰ ذہانت اور روشن دماغ کی صلاحیتوں کا ظہور ہونے لگاتھا اور دوسرے عقل مندلوگ ان کی تخلیقی باتوں اور بڑے کاموں پر حیرت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ بات صرف ذہنی صلاحیتوں کے استعمال کی ہے۔ جینیس افراد اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتے ہیں جبکہ عام آدمی اپنی صلاحیتوں کا عشر عشیر بھی استعمال نہیں کرتا۔

سائیں جی ایم سید کے حافظے کا کمال

جو لوگ ذہن کو جتنا زیادہ بروئے کار لاسکتے ہیں، ان کی زندگی میں اتنی ہی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ ایسے لوگ دوسروں سے بہت نمایاں ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں اور مشہور و مقبول ہوجاتے ہیں۔ہماری اس دنیا میںبہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ اگر وہ کسی بھی کتاب کو ایک بار پڑھ لیتے تواس کا ایک ایک صفحہ ،لفظ بہ لفظ ان کے ذہن پر نقش ہوکر رہ جاتاتھا۔

میری زندگی میں سائیں جی ایم سیّد کی مثال موجود ہے۔ ایک مرتبہ ان کے قصبے ’سن ‘میں ان کی بیٹھک میں ہم بیٹھے تھے اور سندھ کی تاریخ پر ان کی باتیں سن رہے تھے۔بولتے بولتے جب انھیں کوئی حوالہ دینے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے اپنے پیچھے کھڑے خاص خدمتگار کی طرف رُخ کر کے اسے کہا:

 ’’ماستر! میری اسٹڈی کے بیچ والے کمرے میں جائو۔ الٹے ہاتھ سے گنتے جائو، چوتھے نمبر والی الماری میں اوپر سے دوسری قطار میں سیدھے ہاتھ پر جو ساتویں کتاب رکھی ہوگی، وہ فلاں پرانے سندھی رائٹر کی فلاں نام کی ہوگی۔ وہ لے آئو‘‘۔

ماستر غلام قادر پر روزانہ ایسی بپتا گذرتی تھی، اس نے حیرت سے کھلے ہمارے منہ کو دیکھا اور مسکراتا ہوا اندر چلاگیااورسائیں کی بتائی ہوئی مطلوبہ کتاب لے آیا۔ 

مگرابھی مزید حیرت بھی ہماری منتظر تھی، سو سائیں نے پھر ماستر کو حکم دیا:

’’اب اس کتاب کا صفحہ ایک سو ساٹھ کھولو اور اس کا تیسرا پیراگراف پڑھ کر سنائو‘‘۔

ماستر پڑھتا ہے تو یہ عبارت وہی ہوتی ہے، جس کی بات ابھی سائیں کر رہے تھے۔

کیا ذہن تھا!کیا حافظہ تھا!۔ہم نے جب بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا تو مشفق مسکراہٹ سے بولے:

’’بابا! یہ صرف قدرت کی عطا نہیں، اپنی مشق کا کمال بھی ہے۔ تم لوگ بھی ذہن کو اتنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تیز کر سکتے ہو۔۔۔کوشش کرو تو!‘‘۔

ہمارے مسلم معاشرے میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت اما م جعفرصادق ان نادرِ روزگار افراد میں شمار کیے جاتے ہیں،جنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو علم پھیلانے میں صرف کیا۔ انھوں نے علم الحدیث، علم الکلام، فلسفہ کیمیا، فلسفہ، طبیعیات، ہئیت، منطق، طب، فلکیات، تشریح الاجسام (بائیولوجی)، ما بعد الطبیعیات اوردیگر علوم پر کئی کتابیں تحریرکیں۔

امام بخاری نے دورِطالب عمری ہی میں مشہور عالموں کی کئی کتابیں اور 15ہزار سے زائد احادیث حفظ کرلیں تھیں۔علم حدیث کے شوق میں انھوں نے اس دورمیں شام، مصر اور جزیرہ نما عرب کا دومرتبہ اور چارمرتبہ بصرہ کا سفر کیا۔ چھ سال مکہ مکرمہ میں گذارے۔ احادیث کے علاوہ انھوں نے تاریخ ، تفسیر اورفقہ پر بھی کئی کئی جلدوں میں کتابیں تصنیف کیں۔

بوعلی سینا کا شمار عظیم سائنسدانوں میں ہوتاہے۔وہ سترہ برس کی عمر تک حصول تعلیم میں مصروف رہے تھے۔ ایک سال بعد مزید علوم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے خوارزم سے عراق اور ایران کے کئی سفر کیے۔اس کے بعد انھوں نے فلسفہ ، منطق ،ریاضی ،فزکس، کیمیا، ارضیات اور طب کے موضوعات پر کئی ضخیم کتب لکھیں جو آج بھی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں۔

امام غزالی نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بیس برس کی عمر میں شروع کیا تھا۔ دس گیارہ برس صحرانوردی میں گزارے اور 25سال کی مدت میں وہ69کتابیں لکھ چکے تھے، جن میں سے اکثر کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔

کہتے ہیں کہ لتھوانیا کا ایک عالم ایلیا بن سلیمان ) Solomon (Elijah Ben انتہائی غیر معمولی حافظہ رکھتاتھا۔ وہ جس کتاب کو ایک بار پڑھ لیتا،وہ اسے یاد ہوجاتی تھی۔کہتے ہیں کہ ایلیا کے ذہن میں دو ہزار کتابیں محفوظ تھیںاوران کتابوں کا ایک ایک لفظ اسے ازبر تھا۔ لوگ اسے آزمانے کے لیے جہاں سے بھی چاہتے ،اس سے کوئی بھی پیراگراف سن سکتے تھے۔

فرانس کے ایک سیاستدان لیون گیمبیٹاGambetta Leon  کا بھی یہی حال تھا۔ وہ تحریری اور تقریری یعنی پڑھے اور سنے ہوئے مواد کو یاد رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا تھا۔اسے وکٹر ہیوگو کے لکھے ہزاروں صفحات ازبر تھے اور وہ ان میں سے ایک ایک صفحے کو پوری صحت کے ساتھ بیان کرسکتا تھا۔

یونان کا لکھاری اور دانشور چرڈ پورسن بھی پڑھے ہوئے مواد کو پوری صحت کے ساتھ یاد رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتاتھا۔ اسے بھی سیکڑوں کتابیں یاد تھیں۔

امریکہ کے ہیری نیلسن پلز بری کی ذہنی قوت اس قدر تھی کہ وہ بیک وقت شطرنج کی دو درجن بازیاں یاد رکھ سکتاتھا اور یوں کھیل میں بہ یک وقت اتنے ہی افراد سے مقابلہ کرتاتھا۔ ایک نظر ڈال کر وہ پوری بازی کو تمام چالوں کے ساتھ اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتاتھا۔

میتھورین ویز یئر قدیم ایران کے ایک بادشاہ کا لائبریرین تھا۔ وہ اس قدرقوی حافظے کا مالک تھا کہ اگر کسی بھی شخص سے، کسی بھی زبان میں کوئی بات سنتاتھا تو بعد میں اس بات کو من وعن بیان کرسکتا تھا۔ ایک بار اس کی اس صلاحیت کی آزمائش بھی کی گئی۔اسے 12افراد کے سامنے پیش کیا گیا اور ہر ایک نے بالکل مختلف زبان میں چند جملے ادا کیے ۔ویزئیر نے بعد میں ہر ایک کا جملہ اسی زبان میں پوری صحت اور درست لہجے کے ساتھ ادا کیا۔

امریکہ کا زے را کولبرن ریاضی کے حوالے سے حیرت انگیز صلاحیت کا حامل تھا۔ وہ آٹھ سال کی عمر ہی سے حساب کا کوئی بھی سوال بڑی آسانی سے حل کرلیتاتھا۔ اس کی اس صلاحیت نے سب کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھاتھا۔ ایک بار اس نے لندن میں ماہرین کے سامنے 21,735 کو 543 سے ضرب دیا اور محض چار سیکنڈز میں جواب بتادیا۔

مونالیزاوالا مصور لیونارڈوڈاونچی ایک عظیم مصور ہی نہیں، سائنسدان بھی تھا۔ کم از کم ڈیڑھ سو ایجادات لیونارڈو ڈاونچی سے منسوب ہیں جب کہ نباتات، علم الابدان، فن تعمیر، انجنیئرنگ، نقشہ نویسی، ارضیات، فلکیات، موسیقی، فلسفہ، ریاضی، اسلحہ سازی، ہوابازی اور لکھاری، موسیقی اور نہ جانے کن کن شعبوں میں اس کا یادگار کام موجودہے۔ قدرت نے اسے یہ ملکہ عطا کیا تھا کہ وہ بیک وقت ایک ہاتھ سے پینٹنگ اور دوسرے ہاتھ سے گاڑی کے انجن کی مرمت کرلیتا تھا۔

 امریکی ماہرِ نفسیات ہارورڈ گارڈز نے اپنی ایک ریسرچ میں بتایا ہے کہ انسان صرف ایک قسم کی ذہانت نہیں رکھتا بلکہ مختلف قسم کی ذہانتوں کا مرکب ہے۔ انھوں نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ انسان میں پیدائشی طور پر نو قسم کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔اس میں ہر وقت کچھ نیاسیکھنے کی صلاحیت قدرتی طور پر رکھی گئی ہے۔ وہ سیکھ کر ان مہارتوں کو پالش کر سکتا ہے۔

 لکھاری ابنِ وصی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ کسی خاص صلاحیت کی طرف متوجہ رہنے اور اس کی مسلسل ذہنی مشق کرتے رہنے سے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔ ذہنی صلاحیتیں تو تمام افراد میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہیں لیکن ایک فرد اُن سے کتنا استفادہ کرتا ہے، اس میں فرق ہوتا ہے۔ذہنی صلاحیت کے فروغ کا تجسس کی استعدادسے بہت گہرا تعلق ہے۔مختلف افراد میں تجسس کی صلاحیت کے مختلف درجے پائے جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ افراد میں اشیاء کو جاننے اور ان کی حقیقت کا کھوج لگانے کے لئے بہت زیادہ تجسس پایا جاتا ہے۔ جب کہ کچھ میں بہت کم پایا جاتا ہے۔ تجسس کی یہ صلاحیت ہی فرد کے ذہنی صلاحیتوں کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کا تعین کرتی ہے۔ 

انسانی دماغ میں بھی ’ٹریش فولڈر‘ہوتا ہے

انسانی دماغ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ غیرضروری یادوںیا باتوںکو ایک خاص ’ ٹریش فولڈر‘یا ری سائیکل بن میں پہنچا دیتا ہے،جہاں سے انھیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے انسانی یادداشت (memory)پرلاجواب تحقیق کی ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یادداشت یا میموری کیا ہوتی ہے، کہاں ہوتی ہے اوراگر کھوجائے تو اسے دوبارہ واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟۔ دراصل ہمارا دماغ ایسی ’فالتو‘ یادوں کو ٹریش بِن میں ڈال دیتا ہے ، جن کی فوری طورپر ہمیں ضرورت نہیں ہوتی۔اور ہمارا دماغ بوقتِ ضرورت انھیں واپس بھی لاسکتاہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہمارا ذہن یہ فیصلہ کیسے کرلیتا ہے کہ کون سی یادیں یا باتیں ہمارے لیے فالتو یاسرِ دست  غیرضروری ہوچکی ہیں؟۔ یہ ابھی سمجھنا باقی ہے!۔

جیساکہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ یہ تصّور ایک ریاضی دان ولیم جیمز کی ایک ہوائی بات سے عام ہوا اور اس مغالطے کو آگے بڑھانے میں ڈیل کارنیگی کی ایک کتاب کے بعد فلموں، رسالوں اور اخباروں کی وجہ سے پذیرائی ملتی چلی گئی کہ انسان اپنے دماغ کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے ۔ لیکن یہ دس فیصد والا قصہ بالکل غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ کے تمام حصوں کا استعمال کرتے ہیں۔ہم کتاب پڑھ رہے ہوں، موسیقی سن رہے ہوں، چل پھر رہے ہوں یا پھر سو رہے ہوں،ہمارے دما غ کے بیشتر حصے کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ دماغ کے MRI کے ذریعے نیورو امیجنگ یعنی دماغ کی تصویروں سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہر کام میں دماغ کے تمام حصے استعمال ہورہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم جسم کے تمام عضلات اور اعضاء ایک ساتھ استعمال نہیں کرسکتے، اسی طرح دماغ کے تمام حصے بھی بیک وقت کام نہیں کرتے مگر ہم ہر روز دماغ کے تمام حصے کسی نہ کسی طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

جیسے اوپر ہم کہہ چکے ہیں کہ انسام دماغ میں ایک سو ارب خلیے (neurons) ہیں، اگر یہ مغالطہ جس پر ہم آج بات کر رہے ہیں،درست مان لیا جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کے دماغ کا 90 فیصد حصہ تراش کر نکال لیا جائے، اس انسان کا دماغ تب بھی معمول کے مطابق کام کرتا رہے ؟ بالکل نہیں۔ آپ نے ایسی درجنوں اور سیکڑوں مثالیں اور واقعات سنے ہونگے یا پڑھے ہونگے کہ کسی کو معمولی دماغی چوٹ لگی یا حادثے میں دماغ کا ننھا سا حصہ ضایع ہوگیا تو اس بندے کے دماغ نے کام کرنا چھوڑدیا، لوگوں ،چیزوں کو پہچاننا اور روزمرہ کے معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہوگیا۔جب کہ اس کا 99 فیصد دماغ محفوظ بھی تھا۔

سائنٹیفک امریکن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے معروف نیورولوجسٹ بیری گورڈن نے بھی اس مغالطے کی سختی سے تردید کی ہے کہ آج تک کے انسان نے ابھی تک صرف 10 فیصد ہی دماغ یا ذہن سے کام لیا ہے اور دنیا کی تمام تر ترقی اسی ’’دس نمبری استعمال‘‘ کی مرہونِ منّت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ myth ولیم جیمز سیڈس نے متعارف کرائی مگر اس نے اپنی تحریروں میں کہیں بھی 10 فیصد نہیں کہا بلکہ یہ قرار دیا کہ انسان نے اب تک دماغ کا بہت تھوڑا سا حصہ ہی استعمال کیا ہے۔ اس مغالطے کے ظہور کے نصف صدی بعد معروف ماہرِ نفسیات ڈیل کارنیگی کی کتاب’لوگوںکو دوست بنائیے‘ کا دیباچہ لکھنے والے نے دماغ کے 10فیصد استعمال کی ہوائی اڑائی اور پھر یہ بات’ نظریہ‘بن کر مشہور ہوگئی ورنہ ہر انسان اپنا دماغ پورا پورا ہی استعمال کرتا ہے۔ ہمیں یہ صلاحیت قدرت نے عطا کی ہے ، جسے ہم مشقوں،ورزشوں اور خصوصی خوراک سے بہتر یا تھوڑا سا تیز کر سکتے ہیں،واللہ عالم بالصواب۔