ممتاز انڈین صحافی سعید نقوی نے اس بارے میں چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں

 

  2016 میں ممتازاور سردو گرم چشیدہ ہندوستانی صحافی، سعید نقوی کی کتاب  Being the Other: The Muslim in Indiaشائع ہوئی جس میں انھوں نے آزادی کے بعد انڈین مسلمانوں پر جو بیتی ،اسے معروضی اور موثر پیرائے میں بیان کیا۔ مصنف نے ذاتی مشاہدات بیان کیے ، مدلل انداز میں تجزیہ کیا اور مستندحوالوں سے اپنا نقطہ نظر سامنے لائے ۔ کتاب میں ایک باب ’’ کشمیرکا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟‘‘کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے چشم کشا حقائق دو معتبر راویوں کے حوالے سے بیان کیے ۔ اس عمدہ کتاب کا ’’وطن میں غیر:ہندوستانی مسلمان ‘‘کے عنوان سے ترجمہ گذشتہ برس ہندوستان سے چھپا ۔زیر نظر مضمون کے لیے اسی سے استفادہ کیا گیا ہے۔مترجم کا نام محمود فیض آبادی ہے۔ 

 

 محمودالحسن

سعید نقوی نے کشمیر کی داستانِ غم بیان کرنے کے لیے کسی ہندوستانی اور پاکستانی راوی کو نہیں چنا۔ حکایتِ غم سنانے کے واسطے انگریزی کے ممتاز اور بااصول صحافی ایان  اسٹفنس(Ian Stephens) کا انتخاب کیا جو  1942سے  1951تک ’’ دی اسٹیٹس مین‘‘ اخبار کے ایڈیٹر رہے۔ مسئلہ کشمیر  نے جن حالات میں جنم لیا ،اس کے گواہ اور ان کرداروں سے اچھی طرح واقف ہیں جنھوں نے ظلم ِبے نہایت کی بنیاد رکھی اوراس کی پشت پناہی کی۔

 اسٹفنس کو ستمبر 47 میں اندازہ ہوا کہ کشمیر میں کسی قضیے کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ مسلمان دشمن مدراسی برہمن گوپالا سوامی ایّنگر جو 1937سے 1943تک ریاست کشمیر  کا وزیر اعظم رہا ، اس کی  ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں  شمولیت اسے کھٹکی ، اسی کی بنیاد پر اس نے ایڈیٹوریل کانفرنس میں کہا کہ لگتا ہے، ہندوستان سری نگر میں کچھ کرنے جارہا ہے۔اخباری نمائندوں کو صورت حال پر نظر رکھنے کی ہدایت کی۔

ایک اور پیش رفت جسے اسٹفنس  نے نوٹ کیا،  وہ ان حالات میں مہاتما گاندھی کا کانگریس کے صدر اچاریہ کرپلانی اور مشرقی پنجاب کی ریاستوں کے بعض سکھ حاکموں کے ساتھ کشمیر کا دورہ تھا۔

وہ گاندھی جی کو ایک چالاک سیاستدان جانتا ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس موقع پر وہ کیا چیز تھی جس نے دھرماتما کو سری نگر جانے پر مجبور کیا۔

اس دورے سے متعلق کہا تو یہی گیا کہ اس کا مقصد سیاسی نہیں تھا، مہاراجہ سے انھوں نے کشمیر آنے کا وعدہ کیا تھا اسی کو وہ پورا کرنے گئے ۔ وید بھیسن نے لکھا ہے کہ اس بات کے واضح اشارے موجود تھے کہ گاندھی نے مہاراجہ کو انڈین یونین سے الحاق کرنے کا کہا۔ 

ستمبر میں پونچھ کے مسلمان کسانوں نے،جن میں کچھ عرصہ پہلے فوج سے ریٹائر ہونے والے سپاہی بھی شامل تھے ،مہاراجہ کے افسروں کےظلم سے عاجز آ کر بغاوت کردی۔مظالم کی خبریں پہلے سے عام تھیں اور ان کے بارے میں برطانوی بیوروکریسی سے زیادہ تشویش کانگریس کو تھی ، جس نے بدلے ہوئے حالات میں اس بغاوت سے صرفِ نظر کیا۔  اخبارات  نے بغاوت اس لیے نظرانداز کی کہ خبروں سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کا خدشہ تھا۔

 اس بغاوت کی خبریں بقول اسٹفنس ’’ اعلیٰ ترین انسانی بنیادوں‘‘ پر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئی۔

ستمبر میں حالات بے قابو ہونے لگے، بغاوت پھیلتی گئی،اکتوبر میں جموں کے قریب گڑبڑ کی خبریں آنے لگیں۔ مہاراجہ کے افسروں کی شہہ پر ہندوئوں اور سکھوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ اسٹفنس دہلی آئے تو انڈین آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل رائے بوشر نے بتایا کہ قبائلی پٹھان ریاست کے مغربی حصے میں گھس آئے ہیں، جس کی وجہ سے کشمیر  میں حالات پریشان کن ہیں ۔ 

     26  اکتوبر کو اسے مائونٹ بیٹن نے ڈنر پر بلایا، جہاں کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ اس محفل میں ہونے والی گفتگوسے تجربہ کار صحافی حیران رہ گیا۔ اس نے ڈنر کے بعد اپنے میمورنڈم میں لکھا: 

 ’’ میں حالات کے بارے میں یک طرفہ جانب دارانہ فیصلوں سے دنگ رہ گیا۔ لگتا تھا کہ سب ہندوئوں کے حامی ہوگئے تھے۔ اس شب گورنمنٹ ہائوس کی فضا جنگ جیسی تھی۔ پاکستان ، مسلم لیگ اور جناح سب دشمن تھے۔ کشمیر میں قبائلیوں کی یہ دخل اندازی ایک مجرمانہ حماقت تھی ۔ اس کی پہلے سے بخوبی منصوبہ بندی کی گئی ہوگی۔مائونٹ بیٹن نے کہا کہ مسٹر جناح ایبٹ آباد میں مقیم تھے تاکہ قبائلیوں کی فتح کے بعد سری نگر کو روانہ ہوسکیں ۔ یہ بہت ہی بڑی کارروائی تھی۔ اس کے برعکس ، کشمیر اور دیگر ریاستوں کے تئیں ہندوستان کی پالیسی سراسر ’’ صاف ستھری ‘‘ ہے۔‘‘

مائونٹ بیٹن نے کشمیر کے مسئلہ پر نہرو کے صبر کی بڑی تعریف کی اور مہاراجہ کے الحاق کی دستاویز پر دست خط کرنے کے بعد استصواب رائے کے وعدے کو ان کا بڑا پن قرار دیا۔

مائونٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد اسٹفنس اس نتیجے پر پہنچا:

 ’’ لگتا تھا کہ برصغیر کو ہندو اکثریت اور مسلم اکثریت کے علاقوں میں تقسیم کرنے کا تصور جو تین جون کے پلان کی بنیاد تھا ، اب پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ریاست کے ہندو مہاراجہ کے فیصلے اور ایک برطانوی گورنر جنرل کی پشت پناہی سے کشمیر کے تیس لاکھ مسلم جو آئندہ تشکیل ہونے والے پاکستان کے لیے ناگزیر مانے جاتے تھے ، اب قانوناً ہندوستان کے شہری بنا دیے گئے۔ ‘‘

 اسٹفنس سے ان حالات میں توقع کی جارہی تھی کہ وہ انصاف سے کام لینے کے بجائے ہندوستان کے بڑوں کے فیصلوں  کی تائید کرے ،اس پر وہ کسی صورت آمادہ نہ تھا۔

 ہندوستان کی ریشہ دوانیوں پر سعید نقوی کا تبصرہ ملاحظہ ہو:

’’ایک صاحبِ فراش جناح کو مائونٹ بیٹن ، نہرو ، پٹیل ، گوپالا سوامی ایّنگر وغیرہ کی انتہائی چالاک ٹیم نے مات دے دی۔‘‘

 اسٹفنس کا خیال ہے کہ محمد علی جناح نے مائونٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنر جنرل نہیں بنایاجس سے اس کی انا کو ٹھیس لگی اور وہ ان کا بیری بن گیا۔ دوسری طرف ہندوستان نے اسے گورنرجنرل کا منصب دے کر اپنی طرف کرلیا ۔

 اسٹفنس کشمیر میں قبائیلیوں کی دخل اندازی پر کڑی تنقید کرتا ہے کہ انھوں  نے لوٹ مار کی، لوگوں کو مارا اور گھر جلائے۔ پاکستان کے نواب جونا گڑھ کی طرف سے الحاق کی دستاویز قبول کرنے کو وہ احمقانہ  اور تین جون پلان کی خلاف ورزی کہتا ہے ۔ وہ ہندوستان  کی طرف سے طاقت کے بے جااستعمال کو بھی جائز نہیں جانتا اور اس ردعمل کو توازن سے عاری قرار دیتا ہے۔ 

وہ سمجھتا ہے کہ پونچھ میں مسلمانوں کا قتل عام نہ ہوتا تو غالباً پٹھان بھی حملہ نہ کرتے۔

اس بات سے سعید نقوی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

  ’’ اس کے  معنی ہیں کہ اس کی رائے  میں پٹھانوں نے سری نگر کی جانب حملہ پونچھ میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر کیا۔‘‘

 اسٹفنس نے28 اکتوبر 1947کو ’’دی اسٹیٹس مین‘‘ میں  Dangerous Movesکے عنوان سے اداریے میں ہندوستان کی طاقت کے استعمال کی پالیسی پر گرفت کی۔سعید نقوی نے اداریے کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن کتاب میں شامل کیا ہے۔اس اداریے نے مرکزی  کابینہ کو آتش زیرپا کردیا ۔ مائونٹ بیٹن نےایڈیٹرسے ملاقات  میں اس اداریے پر خاصی ناگواری ظاہر کی ،اس سے کہا  کہ اس کی وجہ سے کابینہ میں اسے  خاصی تنقید سننی پڑی۔

مائونٹ بیٹن نے اسے لاہور میں ایک کانفرنس کی’’ خبر‘‘ دی جس میں ہندوستان اور پاکستان نے مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر بات کرنی تھی۔ہندوستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ کانفرنس نہ ہوسکی۔نہرو بیمارپڑ گئے اور سردار پٹیل نے بھی لاہور جانے سےگریز کیا۔  30 اکتوبر کو اسٹفنس نے مائونٹ بیٹن کو پیغام پہنچایاکہ کشمیر کے بارے میں وہ اپنی رائے بدلنے کو تیار نہیں اور جب تک وہ ایڈیٹر ہے ، جانبدارانہ موقف اختیار نہیں کرے گا۔ 

  اس حق گوئی و بیباکی  کے بعدجرأت مند صحافی کا اپنے منصب پر فائزرہنا ممکن نہ رہا، اس ماحول میں ’’اسٹیٹس مین‘‘ میں آزاد کشمیر کا ایک اشتہار شائع ہونے پر سردار پٹیل بڑے جزبزہوئے ۔اسٹفنس سے کہا کہ وہ ہندوستان سے چلے جائیں۔

اسٹفنس کے ذریعے اس دور کی تاریخ بیان کرنے کا جواز سعید نقوی کے نزدیک یہ ہے:

  ’’ میں دکھانا چاہتا ہوں کہ اس المیے کی جڑیں بہت پیچیدہ تھیں اور اس مسئلے کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔‘‘

سعید نقوی کی کتاب میں کشمیر سے متعلق باب اسٹفنس کے تاثرات پر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ اور دل خراش حقائق سامنے لاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جموں کے مقتل میں کتنوں کا خوں بہا ، سرکاری اعداد و شمار اس بارے میں رہنمائی نہیں کرتے، اس لیے ہمیں برطانوی اخبارات کی رپورٹوں پرتکیہ کرنا پڑتا ہے۔ 

وہ ’’دی سپیکٹیٹر‘‘ میں 16جنوری 1948کو ہوریس الیگزینڈر کے مضمون کا ذکر کرتا ہے  جس کے مطابق، مقتولین کی تعداد دو لاکھ تھی۔دوسرا حوالہ ’’لندن ٹائمز‘‘ کا ہے، جس میں10  اگست 1948  کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مہاراجہ کی نگرانی میں ہندوئوں اور سکھوں کی مدد سے ڈوگرہ  فوج نے 237000 کشمیریوں کو قتل کیا۔

یہ قتل عام پٹھانوں کے حملے سے پانچ دن پہلے اور مہاراجہ کے ہندوستان سے الحاق سے نو دن پہلے ہوا۔ قتل عام کے بعد جموں کی مسلم آبادی اکثریت (61فیصد) سے اقلیت میں بدل گئی۔

سعید نقوی نے لکھا ہے کہ حیدر آباد کی طرح جموں کا قتل عام بھی عوام سے چھپایا گیا ۔ جواہر لعل نہرو کا سردار پٹیل کے نام ایک خط بھی کتاب میں نقل  ہوا ہے، جس سے آر ایس ایس کی حمایت سے مہاراجہ ہری سنگھ کے قتل عام میں ملوث ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔  سعید نقوی نے لکھا ہے کہ حیدر آباد، جموں اور کشمیر میں ہونے والے واقعات نے ثابت کیا کہ دہلی میں برسراقتدارلوگوں کو ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔

  جموں کے قتل عام کی د لدوز کہانی کے راوی کے طور پر سعید نقوی نے ایک اور جرأت مند اور لائق اعتماد صحافی اور ایکٹیوسٹ، وید بھیسن کو چنا ہے ۔:

 ’’ بھیسن نےجو کچھ لکھاہے وہ جذبات کی رو میں بہہ کر لکھی ہوئی نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے قلم سے لکھی ہوئی محتاط اور موضوعی روداد ہے جو کبھی آر ایس ایس کا رکن تھا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں کو ایک مقالے کی صورت قلمبند کیاجسے انھوں نے جموں یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں 2003 میں پیش کیا تھا۔ ‘‘

 بھیسن نےبتایا ہے کہ لوگوں کو قتل ہونے سے بچانے کے بجائے مہاراجہ کی انتظامیہ نے فرقہ پرست خونیوں کی سرپرستی کی، ستم بالائے ستم انھیں ہتھیار فراہم کیے۔ اس کے مطابق جموں شہر میں کرفیو کے دوران فسادیوں کواسلحہ لے کر گھومنے پھرنے کی آزادی حاصل رہی  ، کرفیو کا اصل مقصد مسلمانوں کی نقل وحرکت روکنا تھا۔

تالاب کھٹیکان کے علاقے میں مسلمانوں کو جس طرح دھوکے سے خون میں نہلایاگیا، وہ حکایت خونچکاں وید بھیسن نے کچھ یوں بیان کی ہے :

’’ اب ان کوجوگی گیٹ میں پولیس لائنز لے جایا گیا(جہاں اب دہلی پبلک سکول واقع ہے)تو بجائے اس کے کہ انتظامیہ انھیں تحفظ فراہم کرتی، ان سے کہا گیا کہ وہ حفاظت کے لیے پاکستان ہجرت کرجائیں۔ ان میں سے کئی ہزار مسلمانوں کو تقریباً ساٹھ لاریوں میں سیالکوٹ لے جانے کے نام پر بھرا گیا۔اس سے بے خبر کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہ سب خاندان گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ان گاڑیوں کو فوجیوں کے پہرے میں روانہ کیا گیا۔وہ جموں سیالکوٹ روڈ پر واقع چٹھہ مقام پر پہنچے جہاں شہر کے نواح میں مسلح آرایس ایس کے ورکروں اور سکھ ریفیوجیوں کی بڑی تعداد پہلے سے تعینات تھی۔ وہاں انھیں گاڑیوں سے کھینچ کر نکالا گیااور بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ پہرے دار فوجی یا تو اس قتل عام میں شریک ہوگئے یا خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اس قتل عام کی خبر کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا۔ دوسرے دن بھی مسلم خاندانوں کے دوسرے جتھے کو اسی طرح بسوں میں بھرا گیا اور ان کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلے جتھے کا ہوا ۔ان میں سے چند جو اس قتل عام سے بچ کر سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے انھوں نے اپنی بربادی کی داستان وہاں سنائی۔‘‘

اس زمانے میں بھیسن سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے متحرک  تھا ، اس  نے طلبہ کی ایک پیس کمیٹی بھی تشکیل دی ، اس  کی مساعی کی قدر تو کیا ہوتی الٹا جموں کے گورنر لالہ چپت رام چوپڑا نے سنگین نتائج کی دھمکی دی، کہا کہ وہ کھتری اور اس کے رشتے دار نہ ہوتے تو جیل میں ڈال دیتا۔ گورنر نے ان سے کہا کہ ہندو سکھ ڈیفنس کمیٹی کا حصہ بن کر ریہاری میں اس مسلح ٹریننگ کیمپ کا حصہ بن جائیں جہاں ہندو اور سکھ نوجوان تربیت پارہے ہیں ۔بھیسن نے اپنے  ایک ساتھی کو اس کیمپ میں بھیجا تو اس نے واپس آکر بتایا کہ وہاں پر فوجی  آر ایس ایس  کے نوجوانوں اور دوسروں کو  تھری ناٹ تھری رائفل چلانے کی تربیت دے رہے تھے۔

بھیسن نے یہ بھی لکھا کہ ریاست کے وزیر اعظم مہرچند مہاجن نے ہندئووں کے ایک وفد سے کہا کہ اقتدار اب عوام کو منتقل ہونے جارہا ہے، اس لیے وہ سیاسی برابری (parity )کا مطالبہ کریں، یہ سن کر نیشنل کانفرنس کےایک رکن نے کہا کہ ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے، اس لیےہم  سیاسی برابری کا مطالبے کیسے کرسکتے ہیں؟اس پر وزیر اعظم نے ’’ پائیں محل واقع رام نگر رکھ نامی محلے کی طرف  ( جہاں مارے گئے سلمانوں کی لاشیں اب بھی پڑی سڑ رہی تھیں)انگلی اٹھا کر فرمایا :’ آبادی کا تناسب بھی بدلا جاسکتا ہے۔‘‘

کئی ہزار مسلمانوں کو تقریباً ساٹھ لاریوں میں سیالکوٹ لے جانے کے نام پر بھرا گیا۔اس سے بے خبر کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہ سب خاندان گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ان گاڑیوں کو فوجیوں کے پہرے میں روانہ کیا گیا۔وہ جموں سیالکوٹ روڈ پر واقع چٹھہ مقام پر پہنچے جہاں شہر کے نواح میں مسلح آرایس ایس کے ورکروں اور سکھ ریفیوجیوں کی بڑی تعداد پہلے سے تعینات تھی۔ وہاں انھیں گاڑیوں سے کھینچ کر نکالا گیااور بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ پہرے دار فوجی یا تو اس قتل عام میں شریک ہوگئے یا خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اس قتل عام کی خبر کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا۔ دوسرے دن بھی مسلم خاندانوں کے دوسرے جتھے کو اسی طرح بسوں میں بھرا گیا اور ان کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلے جتھے کا ہوا۔

 

’’دی سپیکٹیٹر‘‘ کے مطابق ،جموں میں مسلمان مقتولین کی تعداد دو لاکھ تھی۔ ’’لندن ٹائمز ‘‘ میں  10  اگست 1948 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، مہاراجہ کی نگرانی میں ہندوئوں اور سکھوں کی مدد سے ڈوگرہ  فوج نے 237000 کشمیریوں کو قتل کیا