بدھ کی شام دھرنا کے شرکاء سے مولانا فضل الرحمن کا خطاب اندرونی ہیجان‘ اضطراب اور مایوسی کا شاہکار تھا‘ تقریر میں ربط مفقود تھا اور مزاج پر برہمی کا غلبہ۔ سبب وہ خود جانتے ہیں یا ان کے قریبی ساتھی‘ اتحادیوں نے انہیں مایوس کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مولانا کی شہرت ایک زیرک‘ عملیت پسند اور موقع شناس مذہبی سیاستدان کی ہے۔ وہ اپنے قریبی مسلکی حلقے کے علاوہ کہیں مذہبی معاملات کو سیاسی گفتگو کا موضوع بناتے ہیں نہ مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کاتاثر دیتے ہیں‘ بدھ کی شام مگر وہ کرتار پور کاریڈور‘ قادیان اور دیگر معاملات کو زیر بحث لائے‘ وہ بھی اس بھونڈے طریقے سے کہ ان کے مداح دانشوروں کو حیرت ہوئی۔کرتار پور کاریڈور کھولنے کا فیصلہ پاکستان کی وہ سفارتی جارحیت ہے جس نے بھارت کی فاشسٹ مودی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے پاکستانی پیشکش کو مسترد کرنا تازہ ثبوت ہے کئی ماہ تک وہ اس کی مخالفت کرتی رہی مگر سکھ برادری کے دبائو پر مان گئی‘ بھارت میں مودی کے حامی صحافتی حلقے اس پیش رفت کو خالصتان تحریک کے تناظر میں دیکھتے اور اسے پاکستان کی سٹرٹیجک کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں‘ ویسے بھی سکھوں کی آمدو رفت گوردوارہ نانک صاحب تک محدود ہو گی صبح آئے شام کو چلے گئے۔ پاکستان کے کسی دوسرے علاقے تک رسائی نہ کسی شرارت کا اندیشہ۔ مولانا نے عمران خان کو 1977ء یاد دلایا جب ذوالفقار علی بھٹو بالآخر انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف کر کے استعفیٰ پر راضی ہوئے‘ مولانا عالم دین ہیں اور عام طور پر لوگ کسی عالم دین سے غلط بیانی کی توقع کرتے ہیں نہ حقائق کو مسخ کرنے کی اُمید۔اسرائیل اور قادیان کے حوالے سے اپنے خطاب میں مولانا نے سراسر غلط بیانی کی اور الیکشن کمشن کی رپورٹ پر ان کے ریمارکس کو کمشن نے بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دے کر مسترد کیا۔ یہی معاملہ 1977ء کے انتخابات اور بھٹو کے استعفیٰ کا ہے۔1977ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو پاکستان قومی اتحاد نے جس کے سربراہ مولانا کے والد گرامی مفتی محمود مرحوم تھے اتفاق رائے سے بدترین دھاندلی کا الزام لگایا‘ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی زیر نگرانی ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا آغاز بہت پہلے کر چکے تھے انہوں نے شکست کے خوف سے اپنے آپ کو بلا مقابلہ منتخب کرانے کے لئے مدمقابل امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرایا اور اس وقت تک محبوس رکھا جب تک کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا وقت گزر نہ گیا‘قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کے باعث تین چار روز بعد ہونے والے صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ بائیکاٹ اتنا موثر تھا کہ بڑے شہروں کے علاوہ قصبات میں بھی پولنگ سٹیشن ویران نظر آئے مگر جب رات کو نتائج کا اعلان ہوا تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے بیلٹ بکسوں سے ہزاروں ووٹ برآمد ہوئے۔ عوام اور عالمی مبصرین حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ ووٹ کب‘ کس نے ‘کس طرح ڈال دیے؟۔بھٹو حکومت اور الیکشن کے عمل کو اس طرح ننگا کرنے کے بعد قومی اتحاد نے اگلا فیصلہ یہ کیا کہ ان کے منتخب ارکان قومی اسمبلی حلف نہیں اٹھائیں گے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے تاریخی دھاندلی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ’’ہم نے تو دکان سجا دی تھی مگر اس پر ڈاکہ پڑ گیا‘ ہم کیا کرتے‘‘ جب قومی اتحاد نے انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کیا تو خیبر سے کراچی تک ہر شہر اور قصبے میں مظاہرے شروع ہو گئے‘ یہ اس قدر موثر ‘کامیاب اور حکومت کے لئے اعصاب و حوصلہ شکن احتجاج تھا کہ قائد عوام نے ملک کے چار شہروں کراچی‘ حیدر آباد‘ ملتان اور لاہور میں مارشل لاء لگا دیا ‘کرفیو کئی دوسرے شہروں میںپہلے سے نافذ تھا مظاہروں کی شدت میں کمی آئی نہ مظاہرین کے حوصلے پست ہوئے‘ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین سو کے قریب شہری اس تحریک میں پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئے اور ہزاروں زخمی۔ حوالات اور جیلیں سیاسی اور مذہبی کارکنوں سے بھر گئیں کاروبار ریاست ٹھپ ہو گیا تو بھٹو نے ہار مان لی اور مذاکرات کے دوران مستعفی ہو کر نئے انتخابات پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ بیل منڈھے اس لئے نہ چڑھ سکی کہ بھٹو مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر ایک ہفتہ کے لئے بیرونی دورے پر روانہ ہو گیا اور واپسی پر نئے سرے سے مذاکرات کی بات کر دی بھٹو صاحب کے ’’سوہنے منڈے‘‘ حفیظ پیرزادہ کے بقول یہ وزیر اعظم کی ایسی غلطی تھی جس نے فوج کو بطور ادارہ مداخلت پر مجبور کیا ورنہ خانہ جنگی پاکستان کا مقدر تھی۔ اپوزیشن نے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام ضرور لگایا مگر انتخابی نتائج تسلیم کر کے اسمبلیوں کا حلف اٹھا لیا‘ ڈیڑھ سال تک تنخواہوں اور مراعات کے مزے لوٹے مولانا نے احتجاجی تحریک کا فیصلہ عین اس وقت کیا جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کر کے اسے بھارت میں مدغم کیا اور اسی لاکھ کشمیریوں کو گھروں میں بند کر کے کرفیو لگا دیا‘ موجودہ حکومت نے مودی کے اس اقدام کے خلاف پوری قوم اور کشمیری عوام کو متحد کر کے واویلا کیا‘ عالمی رائے عامہ ہموار کی اور عمران خان نے جنرل اسمبلی میں ایک تاریخی تقریر کے ذریعے عالمی ضمیرجھنجھوڑا ‘ بھارتی فوج کنٹرول لائن پر شرارت کر رہی ہے اور پاکستانی فوج اس کے خلاف سینہ سپر‘ پاک فوج منتخب حکومت کے ساتھ بھی کندھے سے کندھا ملا کرکھڑی ہے۔ آزادی مارچ سے اب تک حکومت کو کوئی نقصان ہوانہ اپوزیشن کے ہاتھ کچھ آیا البتہ مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے مولانا کے مطالبات میں سے ایک آئندہ عام انتخابات میںفوجی افسروں اورجوانوں کی خدمات سے فائدہ نہ اٹھانے کی یقین دہانی ہے 1977ء کے بعد سے ہر سیاسی اور مذہبی جماعت دھاندلی روکنے اور امن قائم رکھنے کے لئے فوج کی موجودگی ضروری سمجھتی ہے ورنہ طاقتور امیدوار اور ان کے غنڈے کسی مخالف کو پولنگ سٹیشن میں گھسنے نہ دیں۔اگر مذاکراتی کمیٹی نے اس بے ہودہ مطالبے کوایجنڈے پر رکھا اور مان لیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ انتخابی دھاندلی میں ان فوجی افسروں اور جوانوں کاواقعی کوئی کردار تھا‘ یہ حکومت اور فوج کے مابین بہترین تعلقات میں رخنہ اندازی ‘ عالمی برادری کے سامنے فوج کو متنازعہ بنانے اور حکومت‘ ریاست اور فوج کی ساکھ کو تباہ کرنے کی بیرونی سازش ہے مولانا فقط مہرہ‘مجھے تو حیرت ہے کہ اب تک حکومت کی مذاکراتی کمیٹی قومی مفاد کے خلاف اور بھارت کے لئے مفید مطالبے میں چھپی شرارت یا سازش کا ادراک کیوں نہیں کر سکی ؟ حکومت نے مولانا کے علاوہ محمود اچکزئی کی ایسی تقریروں کا سنجیدگی سے نوٹس کیوں نہیں لیا جو بھارتی بیانئے کو تقویت اور پاکستان کے قومی موقف کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ آخر مولانا ہر وہ موضوع زیر بحث کیوں لا رہے ہیں جس کا فائدہ نریندر مودی کی حکومت اور نقصان پاکستان کی ریاست کو ہے۔ کرتار پور کا کشمیر سے کیا موازنہ ؟ فوج پر اس وقت سنگ زنی کا کیا جواز؟ جب وہ کنٹرول لائن اور مغربی سرحدپر مصروف جنگ ہے اور قومی بقا و سلامتی کی جدوجہد میں پیش پیش‘ مولانا نے اپنے آپ کو بند گلی میں خود دھکیلا‘ ڈیڈ لائن دے کر پیچھے ہٹے اور اب فیس سیونگ چاہتے ہیں مگر اضطراب ‘ ہیجان اور مایوسی میں نشانہ اپنے بے وفا ساتھیوں کے بجائے ریاست اور اس کے اداروں کو بنا رہے ہیں جو ان کی دانائی‘ دور اندیشی اور سب سے بڑھ کر حب الوطنی پر سوالیہ نشان ہے‘ بارش اور اسلام آباد کی زمستانی ہوا میں شمشیر کی تیزی محفوظ واپسی کا راستہ دکھا رہی ہے مگر وہ ڈٹے ہیں چودھری برادران بھی اگر انہیں عقل مت دینے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر وہ جانیں اور ان کے مشیر و حلیف ‘جو انہیں چڑھ جا سولی پر بیٹا رام بھلی کریگا کی پٹی پڑھا رہے ہیں‘ ریاست کب تک ان کے بچگانہ نخرے اٹھائے گی۔ آخر کب تک۔؟