پاکستانی تاریخ سیاسی عدم استحکام سے عبارت ہے۔جمہوری دور میں سیاستدان وزارتیں بنانے اور گرانے کے کھیل میں مصروف رہتے ہیں۔ انیس سو پچاس کی دہائی سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ آج جو سیاسی منظر نامہ ہے وہی ستّر سال پہلے تھا۔صوبوں اور مرکز میں وزارتیں بنتی اور ٹوٹتی تھی۔ پنجاب میں ممتاز دولتانہ اپنی ہی جماعت کے وزیراعلیٰ افتخار ممدوٹ کی حکومت گرانے کے لیے سرگرداں تھے۔ نہ کوئی اصول تھا نہ نظریہ ۔ بے بنیاد الزمات تھے اورصرف کرسی کی لڑائی۔ یہی اب ہورہا ہے۔سیکولر اور لبرل ہونے کا دعوی کرنے والے اقتدار کی لڑائی میں قدامت پسند جماعتوں کے ساتھ بغل گیر ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی غرض سے اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہیں اورپارلیمان میں عددی برتری حاصل کرنے کی خاطرتحریک انصاف کے ارکان کی شاپنگ کررہی ہیں۔پنجاب میںپی ٹی آئی کے ناراض اراکین نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف علم ِبغاوت بلند کردیاہے۔ طویل عرصہ سے عمران خان پر دباو ٔتھاکہ وہ عثمان بزدار کو تبدیل کردیں لیکن وہ نہیں مانے۔بزدار پونے چار سال نکال گئے۔ اس موقع پر یکایک جہانگیر ترین اور علیم خان کا اکٹھے ہوجانا اور عمران خان کو چیلنج کرنا بلاوجہ نہیں۔ اس کے پیچھے لمبا کھیل ہے۔ عمران خان کی آزادانہ خارجہ پالیسی بااثر مغرب نواز حلقوں کو چبھ رہی ہے۔ مزید‘ کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ آنے والے چند ماہ بعدعمران خان کچھ اہم عہدوں پر تقرریاں کریں۔ اس سے پہلے ہی ان کا پھٹاّکھینچ دینا چاہتے ہیں۔تحریک انصاف کے جو لوگ عمران خان کے خلاف پیش پیش ہیں ان کی وابستگیاں سب سیاسی مبصرین کو معلوم ہیں۔ ہماری تاریخ ایسی ریشہ دوانیوں اور محلاتی سازشوں سے بھری ہوئی ہے۔ اپوزیشن عمران خان اور عثمان بزدار کی حکومتیں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی مدد سے گراتو سکتی ہے لیکن مرکز اور پنجاب میں نئی حکومتیں بنا نہیں سکتی کیونکہ منحرف ارکان پر آئین کی ڈیفیکشن کی شق لاگو ہوگی ۔وہ اپنی رکنیت سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ عدم اعتماد کے لیے ووٹ دے سکیں گے لیکن نئے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ آئینی بحران پیدا ہوگا جس کا حل نئے جنرل الیکشن ہوں گے۔ چونکہ ان دنوں پنجاب میں سیاسی محاذ گرم ہے پہلے دیکھتے ہیں کہ یہاں کیا امکانی منظر نامے ہوسکتے ہیں۔ خوش اُمیدی پر مبنی ایک منظر تو یہ ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ناراض پارٹی ارکان کو راضی کرلیا جاتاہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کسی اور نام پر سب متفق ہوجائیں تو اُسے وزیراعلیٰ بنادیا جائے۔ جہانگیر ترین ‘ علیم خان اورمسلم لیگ(ق) کے چودھری برادران قدرے پس و پیش کے بعد نئے وزیراعلیٰ پر اتفاق کرلیتے ہیں جو عثمان بزدار کی جگہ آجاتا ہے۔ معاملہ ختم۔ وزارتِ اعلیٰ تحریک انصاف کے پاس رہی۔ ہوسکتا ہے پنجاب کی حد تک مخلوط حکومت میں پیپلزپارٹی کو بھی شامل کرلیا جائے۔اس کے صوبائی اسمبلی میںچھ ارکان ہیں۔ اس پارٹی کو بھی ایک دو وزارتیں دے دی جائیں۔ لیکن ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کا قومی سطح پر حکومت مخالف بیانیہ کمزور ہوجائے گا۔ یہ منظر نامہ اس صورت میںممکن ہے اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ جہانگیر ترین کے شریف خاندان سے کوئی عہد و پیمان نہیں ہوئے اور وہ اپنے جوڑ توڑ میں آزاد ہیں۔ اگر انہوں نے شریف خاندان سے خفیہ سمجھوتہ کیا ہوا ہے تووہ صرف کسی ایسے شخص کو وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کریں گے جو عمران خان کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو اور وقت آنے پر ن لیگ کی مدد کرے۔ ممکن ہے وزاررت اعلیٰ کے لیے نیا نام علیم خان کا ہو۔موجودہ حکومت کے دور میں ترین اور علیم خان دونوں کو نیب کی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ علیم خان حراست میں بھی رہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ ق لیگ ڈٹ جاتی ہے کہ وزارتِ اعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کو ہی ملنی چاہیے ورنہ ان کی جماعت نئے وزیر اعلیٰ کی حمایت نہیں کرے گی۔ ق لیگ کے دس ارکان صوبائی اسمبلی کے بغیر تحریک انصاف پنجاب میں حکومت نہیں بناسکتی کیونکہ اس کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے۔ ترین اور علیم خان کا گروپ چودھری پرویز الہی پر راضی ہوجاتا ہے۔ عمران خان یہ فیصلہ قبول کرلیتے ہیں۔ ن لیگ کو شدید جھٹکا لگے گا کیونکہ گجرات کے چودھری پرانے لیگی ہیں اور ن لیگ میں ان کے مراسم موجود ہیں۔ وہ اگلے ڈیڑھ برسوں میںحکومتی عہدہ کے اختیارات استعمال کرکے ن لیگ کے مقامی بااثر ارکان کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کرواسکتے ہیں۔پرویز الہٰی اور آصف زرداری کے گہرے تعلقات ہیں۔ان کے اقتدار میں آنے سے بلواسطہ طورپر پیپلزپارٹی کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ اگلا الیکشن ق لیگ اور پیپلزپارٹی ملکر لڑیں گے۔ ق لیگ کی وزارتِ اعلیٰ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں کے مفاد میں نہیں۔پرویزالہٰی کی راہ میںایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے بعض ارکانِ صوبائی اسمبلی ان کی حمایت کرنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ تیسرا منظر نامہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان چھوٹے چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیں۔ ایک دلیرانہ اُصولی فیصلہ کریں اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کہیں کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کردیں ۔وزیراعلیٰ کے پاس ایسا کرنے کا آئینی اختیار موجود ہے ۔ جب تک وزیراعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع نہیں کروائی جاتی وہ یہ حق استعمال کرسکتے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ایوان میں کسی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہے اس لیے اسے چلانا ممکن نہیں رہا۔ وہ اسمبلیاں توڑ رہے ہیں تاکہ نیا الیکشن کروایا جائے۔پنجاب کی حد تک نیا الیکشن ہوگا ۔نئی اسمبلی میںجو پارٹی پوزیشن ہوگی اس کے مطابق حکومت بن جائے گی۔چوتھا امکان یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے باغی ارکان کے سامنے نہ جھکیں اور ن لیگ کو موقع دیں کہ وہ پنجاب میں حکومت بناسکتی ہے تو بنا لے۔ ن لیگ کو سادہ اکثریت حاصل نہیں۔ وہ ق لیگ اور پیپلزپارٹی سے مل کر حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن ق لیگ کو وزارت اعلیٰ نہیں دینا چاہتی۔ اس لیے ن اور ق کی مخلوط حکومت کا امکان کم ہے۔ اگر شریف خاندان چودھری پرویزالٰہی کو وقتی مصلحت کے طور پر وزیراعلیٰ بنانا قبول کرلیں تو وہ بدلہ میں مرکز میں ق لیگ کے چھ ارکان قومی اسمبلی کی حمایت مانگیں گے۔جیسے ہی عمران خان کی مرکز میں چھٹی ہوگی تو ن لیگ پنجاب میں چودھری پرویز الہی کو خیر باد کہہ دے گی۔ ان حالات میں بات پھر نئے جنرل الیکشن پر جاکر رُکے گی۔