ہفتہ رفتہ سرائیکی وسیب میں گزرا‘ جام پور میں سردار جعفر خان لغاری مرحوم کی وفات سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات کے نتائج سے پورے ملک میں حیرت و استعجاب کی لہر دوڑی‘ مگر جنوبی پنجاب میں کسی کو تعجب نہ ہوا‘ پیاس و افلاس کا مارا جنوبی پنجاب ان دنوں حکمران اتحاد سے نالاں ہے۔بارشیں نہ ہونے سے پانی‘ مہنگائی کے سبب کھاد اور قومی سطح پر معاشی بدحالی کے باعث روزگار کی قلت نے سب سے زیادہ جنوبی پنجاب کے محروم و مظلوم عوام کو متاثر کیا اور بدلتے موسم کے ساتھ اپنی وفاداریاں بدلنے والے اپنے قبائلی سرداروں‘ وڈیروں ‘ مخدوموں سے ناراض نوجوانوں نے عمران خان کو اپنی ضد بنا لیا ہے۔مجھے ایک قبائلی سردار نے شریف خاندان کے قریبی تعلقدار نیک نام سابق بیورو کریٹ کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنے پوتوں‘ نواسوں کے سامنے سیاسی گفتگو نہیں کرتے کہ مبادا عمران خان کے بارے میں کوئی منفی بات منہ سے نکل جائے اور انہیں لینے کے دینے پڑ جائیں ‘اویس خان لغاری سرکاری وسائل اور حکومتی رعب و دبدبے کے باعث پُرامید تھے کہ ان کے صاحبزدے عمار اویس پی ٹی آئی کے امیدوار محسن لغاری کو بآسانی شکست فاش سے دوچار کریں گے کہ وہ لغاری قبیلے کے چیف سردار جمال خان لغاری کا بھتیجا‘ سردار فاروق احمد خان لغاری کا پوتا اور حکمران جماعت کا امیدوار ہے مگر ایک صحافی دوست کے بقول پولنگ ڈے پر عمران خاں کے ٹائیگر صبح صبح یاجوج ماجوج کی طرح گھروں سے نکلے‘ مخالف امیدواروں کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ پر بیٹھے‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے عمر رسیدہ اور پژمردہ ووٹروں سے پہلے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے اور بلّے پر مہر لگا کر آپس میں خوش گپیاں کرتے گھروں کو لوٹ گئے۔ سردار اویس لغاری اپنے صاحبزادے کی کامیابی کو یقینی سمجھ کر صبح سے شام تین چار بجے تک اخبار نویسوں سے معمول کی گپ شپ کرتے رہے‘ مگر جب ان کے پرجوش کارکنوں اور پولنگ ایجنٹوں نے انہیں آ کر بتایا کہ محسن لغاری کا پلڑا بھاری ہے تو انہوں نے شور مچایا کہ دھاندلی ہو رہی ہے۔اپوزیشن کا امیدوار سرکاری وسائل استعمال کر رہا ہے۔مگر ؎ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت محسن لغاری نے پینتیس ہزار کی لیڈ سے میدان مارا جبکہ حکمران اتحاد نے ایک سٹریٹجی کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دو الگ الگ امیدوار کھڑا کرنے کا تجربہ بھی کیا تاکہ پیپلز پارٹی کا نظریاتی ووٹر مسلم لیگ ن کی مخالفت اور فاروق احمد خان لغاری خاندان کی دشمنی میں اپنا ووٹ پی ٹی آئی کے امیدوار محسن لغاری کو دے کر عمار لغاری کی شکست کی راہ ہموار نہ کر سکے۔ پیر کی شام میں خانپور پہنچا اور دو دن اخبار نویسوں‘ تاجروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے کرید کرید کر موجودہ سیاسی‘ سماجی اور معاشی صورت حال کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔حکمران اتحاد اور اسحق ڈار کی پالیسی سے غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں گوناگوں اضافہ ہوا ہے‘ ایک ٹرانسپورٹر دوست نے بتایا کہ پہلے ساری سرمایہ کاری آٹے میں نمک کے برابر تھی اور منافع آٹے کے مساوی یا اس سے کم و بیش جبکہ اب آٹا سرمایہ کاری اور نمک کے برابر منافع کہ پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے علاوہ دیگر اخراجات نے ہماری کمر توڑ دی کپڑے کے تاجروں کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اچھے خاصے چلتے کاروبار والوں نے بھی عید الفطر کے بعد دکانیں بند کرنے کی سوچ رکھی ہے کہ دکانوں کے کرائے اور بجلی کے بل کی ادائیگی مشکل ہے۔شیخ فیاض الدین خانپور سے مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی ہیں ہر دلعزیز اور مقبول۔مگر ان کے بعض قریبی سپورٹرز نے بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ ن نے گزشتہ دس ماہ میں اپنا سیاسی اثاثہ بری طرح لٹایا اور اب 2028ء کے الیکشن سے ہی کچھ امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔الیکشن اس سال ہوں یا اگلے سال ووٹ کھمبے کو پڑیں گے بشرطیکہ اس پر پی ٹی آئی کا ٹکٹ آویزاں ہو‘ بدھ کی شام بہالپور پہنچا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے شاندار ادبی و ثقافتی میلہ سجا رکھا تھا‘ ہوٹل کے کمرے میں سامان رکھ کر باہر نکلا تو مقبول ٹی وی پروگرام ’’حسب حال‘‘ کے روح رواں جنید سلیم سے ملاقات ہو گئی جو میری طرح اسلامیہ یونیورسٹی کے مہمان تھے اور ڈاکٹر جام سجاد حسین کی معیت میں بہاول جم خانہ جانے کے لئے تیار‘ جہاں عشائیے کا اہتمام تھا۔جم خانہ ہی میں ملتان سے شوکت اشفاق اور دیگر دوستوں سے ملاقات ہو گئی‘ محفل خوب جمی اور دنیا جہاں کے موضوعات بالخصوص نواب صادق محمد خان کی فیاضی اور عوام دوستی‘ سرائیکی عوام کی فراخدلی اور سرائیکی زبان کی حلاوت و شیرینی زیر بحث آئے۔بہاول جم خانہ سے اُٹھ کر ہم اسلامیہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں آ گئے جہاں شاندار اور جاندار محفل مشاعرہ برپا تھی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی ‘ ڈیرہ غازی خان ‘ ملتان اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے نامور اردو علامہ اورسرائیکی شعرا سٹیج پر براجمان تھے۔ عزیزشاہد ‘ عباس تابش‘ وصی شاہ‘ تابش الوری‘ منصور آفاق‘ عقیل عباس جعفری‘ جہانگیر مخلص‘ آصف جبار‘ ندیم بھابھہ‘ طاہر شبیر ‘ عمبر نجمی‘ ذیشان اطہر‘ ناصرہ زبیری‘ شوکت فہمی‘ شاہد عالم‘ صباحت عروج اور دیگر شعرا نے سامعین کے شعری ذوق کی تسکین کی‘ سرائیکی زبان کے دو شعرا عزیز شاہد اور جہانگیر مخلص نے جب قندلسان سرائیکی میں وسیب کا نوحہ پڑھا تو ہال میں موجود ہر خورد وکلاں اور مردو زن نے کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج میں مرحبا مرحبا‘ مکرّر مکرّر پکارا‘ ظاہر ہے کہ ہال میں اکثریت نوجوان طلبہ و طالبات کی تھی۔ڈاکٹر اطہر محبوب شعرا کے احترام میں کرسی صدارت چھوڑ کر سامعین میں بیٹھے جبکہ ڈپٹی کمشنر بہاولپور نے بھی طویل وقت دے کر ادب شناسی کا ثبوت دیا۔ (جاری ہے)