معزز قارئین!۔ آج 9 جولائی ہے اورآج کے دِن اہلِ پاکستان اور بیرونِ پاکستان ، فرزندان و دُخترانِ پاکستان اپنے اپنے انداز میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ، مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی 52 ویں برسی منا رہے ہیں ۔ مادرِ ملّت نے اپنے برادرِ عظیم ؒ کے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کی لیکن، پاکستان کے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد قائداعظم ؒنے اپنی ہمشیرہ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا؟۔ 27 اکتوبر 1958ء سے دسمبر 1964ء تک آمریت / جمہوریت کے تماشے کے بعد فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب کااعلان کِیا لیکن، ووٹ دینے کا حق مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزار منتخب ارکانِ بنیادی جمہوریت ہی کو دِیا۔ کونسل مسلم لیگ نے ، محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو اپنا امیدوار نامزد کِیا۔ ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامی نے اُنہیں ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا، پھر حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کو اپنا مشترکہ امیدوار بنا لِیا۔ مَیں فروری 1963ء سے جون 1965ء تک سرگودھا میں روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا ۔ تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن اور کونسل مسلم لیگ کے راہنما قاضی مُرید احمد ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج تھے ۔ میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی وساطت سے میری اُن سے اور تحریکِ پاکستان کے دوسرے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکنان سیّد مختار حسین شاہ بخاری اور چاچا غلام نبی بختاوری سے بھی دوستی ہوگئی تھی۔ سیّد مختار حسین بخاری مرحوم انگریزی روزنامہ "The Nation" کے ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری کے والد صاحب تھے اور ماشاء اللہ حیات 95 سالہ چاچا غلام نبی بختاوری ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد کے چیئرمین برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے والد ِ گرامی ہیں ۔ معزز قارئین!۔ ’’مادرِ مِلّتؒ ‘‘ کی انتخابی مہم کے آخری دِنوں میں قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے مرحوم صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کو ،کونسل مسلم لیگ کے مندوبین کی حیثیت سے لاہور لے آئے’’مادرِ مِلّتؒ ‘‘ میاں منظر بشیر کے گھر ’’المنظر‘‘ میں قیام پذیر تھیں۔ قاضی صاحب نے ہم دونوں کی مادرِ مِلّتؒ سے ملاقات کرائی تو، اُس کے ساتھ ہی تحریکِ پاکستان کے دو اور کارکنوں ،لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاک پتن کے میاں محمد اکرم نے بھی مادرِ مِلّتؒ سے ملاقات کی۔ پھرمیری مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور میاں محمد اکرم سے دوستی ہوگئی۔ تحریکِ پاکستان میں مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا امرتسر میں آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگیا تھا۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ اور میاں محمد اکرم نے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔ کئی سال بعد میری مرزا شجاع اُلدّین بیگ کے بیٹے انفارمیشن گروپ کے پروفیسر محمد سلیم بیگ ( موجودہ چیئرمین پیمرا) اور میاں محمد اکرم کے بیٹے پنجابی اور اردو کے شاعر ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن ۔ سعید آسیؔ سے بھی میری دوستی ہوگئی۔ مَیں نے سرگودھا کے علاوہ پنجاب کے کئی شہروں میں مادرِ ملّت کے جلسہ ہائے عام میں شرکت کی اور جب، تحریکِ پاکستان کے نامور راہنما ( میانوالی کے ) مولانا عبداُلستار خان نیازی ؒنے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ ’’ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ اپنے خطابات سے سانحۂ کربلا کے بعد اُسوۂ حضرت زینب سلام اللہ علیہا پر عمل کر رہی ہیں ‘‘۔ اُس کے بعد مادرِ ملّت کے ہر جلسۂ عام میں ہر مقرر نے یہی انداز اختیار کِیا۔ معزز قارئین!۔ قاضی مرید احمد صاحب ہی نے مجھے 1962ء میں مولانا عبداُلستار خان نیازی ؒسے متعارف کرایا۔ مولانا نیازی ؒجب بھی میانوالی سے لاہور اور لاہور سے میانوالی آتے جاتے تو( عام طور پر ) قاضی صاحب ہی کے گھر قیام کرتے۔ مَیں نے (اُن دِنوں ) گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان آف کالا باغ سے ، مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ کے کئی معرکے دیکھے ، 1964ء کے "B.D.System" کے تحت انتخابات ہُوئے تو میانوالی میں قومی اسمبلی کے ایک حلقۂ انتخاب سے مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ ، گورنر امیر محمد خان کے بیٹے ملک مظفر خان سے بہت ہی کم ووٹوں سے ہار گئے۔مولانا نیازیؒ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے مَیں نے اُن کی طرف سے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ … عِشق میں بیش و کم ، نہیں کرتے ! ہم ہیں درویش ، غم نہیں کرتے! کجکُلا ہوں کے سامنے ، سجدے! لوگ کرتے ہیں ، ہم نہیں کرتے! مَیں ابھی سرگودھا سے لاہور شفٹ نہیں ہُوا تھا کہ میری مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ سے باقاعدہ دوستی ہوگئی جو، اُن کے وصال (2001ء تک ) قائم رہی ۔ مَیں نے 11 جولائی 1973ء کو لاہور سے اپنا روزنامہ ’’سیاست ‘‘ جاری کِیا تو ، مولانا صاحب اپنے کئی مریدوںکو ساتھ لے کر مجھے مبارک باد دینے آئے ۔ اِتفاق سے اُس وقت میرے والد صاحب بھی میرے دفتر میں موجود تھے ۔ مولانا صاحب نے اُن سے بغل گیر ہو کر کہا کہ ’’ رانا جی!۔ تُہاڈا پُتر تے بہوں بہادر اے !‘‘۔ اِس پر میرے والد صاحب نے کہا کہ ’’ مولانا صاحب !۔ تُہاڈے جئے بہادراں نال مِل جُل کے واقعی اے بہوں بہادر ہوگیا اے!‘‘۔مولانا عبداُلستا ر خان نیازی ؒپر جب ، بھی کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر نے تنقید کی تو، مَیں نے اپنے کالموں میں اُس کی خوب ’’ گوشمالی ‘‘ کی ؟۔ معزز قارئین!۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں میری ملاقات حقیقی معنوں میں ایک درویش سپریم شیعہ علماء بورڈ کے سرپرست ، قائدِ ملت جعفریہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی سے ہُوئی، جنہوں نے محترمہ کی دعوت پر وزیراعظم ہائوس جانے سے معذرت کر لی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں جب ،آغاجی نے علاّمہ اقبالؒ کو ’’مصورِ پاکستان ‘‘ ۔ قائداعظمؒ کو ’’بابائے قوم‘‘ اور مادرِ ملّت کو مارشل لائی دَور میں شریکتہ اُلحسین ؑ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا بن علی ؑ کا کردار ادا کرنے پر خراجِ عقیدت پیش کِیا تو ، مَیں اُن کا گرویدہ ہوگیا۔ 2007ء کے اواخر میں مَیں نے آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی صاحب کے ارشاد کے مطابق کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ (جنّت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھا ‘‘۔ میرے پیش لفظ کے نیچے کاظمی صاحب نے وضاحت کردی تھی کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنت سے ہے لیکن آپ اہلِ بیت ؑکا بہت احترام کرتے ہیں ‘‘۔ 20 سال کے عرصے میں میری آغا جی سے صِرف تین ملاقاتیں ہُوئیں ۔ اِس لئے کہ ، میرے والد صاحب نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ’’د رویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ‘‘۔ آغا جی سے میری (فی الحال ) تیسری ملاقات 19 جنوری 2016ء کو ہُوئی۔ میرا اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری بھی میرے ساتھ تھا ۔سیّد عباس کاظمی ، کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی ، شہاب مہدی رضوی اور آغا جی کے دونوں قانون بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی روح اُلعباس موسوی بھی تھے ۔ مجھے اُس وقت بہت خُوشی ہُوئی ،جب آغا جی نے مجھے بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے علاّمہ اقبالؒ اور اور قائداعظمؒ کی طرح قوم کی خدمت کریں ‘‘۔آغا جی کا مؤقف ہے کہ ’’کسی بھی مذہبی جماعت کو سیاسی جماعتوں کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ معزز قارئین!۔ 9اگست 2012ء سے مَیں نے ’’ نوائے وقت‘‘ میں اپنی کالم نویسی کا چوتھا دَور شروع کِیاجو، جنابِ مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی 28 فروری 2017ء تک جاری رہا۔ اِس دَوران مجھے کئی بار ’’ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ‘‘لاہور میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کی تقاریب میں شرکت سے قبل / اختتام پر سیکرٹری ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کے کمرے میں ، جنابِ مجید نظامی سے علاّمہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒکے افکار و نظریات کی روشنی میں بار بار نظریہ ٔ پاکستاؔن سمجھنے کا موقع ملا۔ آج بھی ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان‘‘ کے علاوہ صدر ’’نظریہ پاکستان فورم ‘‘ برطانیہ ، گلاسگو میں 1981ء سے میرے دوست ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی ،اسلام آباد میں برادرِ عزیز ظفر بختاوری کی چیئرمین شِپ میں ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ میں ،اُسوۂ زینب سلام اللہ علیہا کی روشنی میں ’’ مادرِ ملّت‘ ‘ کی للکار گونج رہی ہو گی۔