میں نے بچپن دیا بڑھاپے کو کتنا مہنگا پڑا جواں ہونا آنکھ کشتی ہے وقت پانی ہے دل پہ لکھا ہے بادباں ہونا ثانی شعر سے میری خوشگوار یاد وابستہ ہے کہ ایک تقریب کے آغاز سے پیشتر غیر رسمی گفتگو میں بانو قدسیہ مجھ سے مخاطب ہوئیں اور کہنے لگیں کہ مندرجہ بالا شعر بہت اچھا ہے۔ بچپن و بڑھاپے والا شعر میں نے ایک زندہ اور مجسم کردار کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو اس خیال کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ وہ اس وقت 88برس کو پہنچ گئے ہیں چہرے پر نورانیت بشاشت اور تازگی اسی طرح قائم ہے۔جب پاکستان بنا تو وہ والدین کے ساتھ پاکستان آئے لاہور پہنچے تو میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لے رہی تھی۔ ان کا ٹاپ کرنے کا ریکارڈ پچیس سال تک رہا۔ مجھے یہ فخر کہ جب میرے استاد نور محمد مجھے سزا دیتے تو کہتے اوئے تم نصراللہ شاہ کے بیٹے ہو وہ بھی میرا شاگرد رہا‘ اس کا میٹرک کا ریکارڈ پچیس سال بعد ٹوٹا تھا۔ تم کیا ہو۔ آج میرا دل چاہا کہ اپنے والد صاحب کے بارے میں کچھ کہوں کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں اس وقت جانا جب ڈاکٹر اختر سندھو نے ان کا پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے عنوان سے طویل انٹرویو کیا۔ والد صاحب نے بتایا کہ پاکستان بننے سے پہلے ان کی مسابقت ہندو لڑکوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ پھر وہ کہنے لگے کہ انہوں نے سب کو مات دی اور کبھی بھی کلاس میں دوسری پوزیشن نہیں دیکھی۔ ہمیشہ اول‘ نئی کلاس کا کورس پہلے ہی مکمل کر لیتے تھے۔ پڑھنے کا شوق اس قدر تھا کہ ایک مرتبہ اپنے والد یعنی میرے دادا کی سفارش سے انہوں نے ہیڈ ماسٹر محمد اکرم سے وقت مانگا تو اکرم صاحب فرمانے لگے کہ ان کے پاس تو صرف گھر سے سکول جانے کا درمیانی وقت ہی فارغ بچتا ہے اور یہ 15منٹ ہیں والد صاحب نے کہا یہی بہت ہیں۔ اکرم صاحب نے ان کا شوق دیکھتے ہوئے حامی بھر لی اور پھر انہی پندرہ منٹ میں چلتے ہوئے سوال جواب ہوئے۔ یہ کیسے سنہرے لوگ تھے جو اپنے شاگردوں کو علم سے مالا مال کرتے تھے۔ میں نے کہا تھا: آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ والد صاحب نے ہزاروں طلبا کو پڑھایا۔ ناسازگار حالات میں بھی ایم اے اردو کیا۔ سبجیکٹ سپیشلسٹ 17 ویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے۔ وہ اپنی ایک سوچ رکھتے ہیںمثلاً اردو زبان کے وہ عاشق ہیں اور پوری دلیل سے بات کرتے ہیں کہ پاکستان کی نسلوں کو انگریزی نے ان پڑھ ہی نہیں رہنے دیا بلکہ برباد کر دیا۔ قوم کو اردو زبان سے دور رکھ کر اس پر ظلم عظیم کیا گیا کہ اس کا تشخص ابھر نہ سکا اور صلاحیتیں بروئے کار نہ آ سکیں۔ ایک اور بات پر وہ بہت زور دیتے ہیں کہ چھ سال سے پہلے بچے کو سکول نہ بھیجا جائے اس کی پرورش اور نمو پذیری ضروری ہے۔ وہ نشو و نما کے ساتھ بچے کی تربیت کے قائل ہیں۔ ان کی قابلیت کے حوالے سے مجھے ایک واقعہ نہیں بھولتا ۔ میری بی اے میں فسٹ کلاس آئی کہ جو تب کم ہی آتی تھی۔ میں نے والد گرامی کے دوست اس وقت کے ایم پی اے نور محمد مہاروی کو فخر سے بتایا کہ میری بی اے میں فسٹ ڈویژن آئی ہے۔ وہ بڑے رسان سے بولے’’اوئے تم نصراللہ شاہ کے بیٹے ہو جو انٹرنیشنل ذہن کا طالب علم تھا تم نے کیا کمال کیا ہے؟‘‘ آج تک مجھے ان کی بات یاد ہے۔ ایک اور بات جو بطور خاص میں نے نوٹ کی وہ ان کا اخلاص اور خدا خوفی ہے۔ ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں وہ عمل کر گزرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم ایک جگہ سے گزرے تو رونے دھونے کی آواز آئی۔ والد صاحب نے کہا پتہ کروائو ۔ پتہ کیا تو قریب ہی ایک غریب کی کسی نے بھینس چرا لی اور وہ رو رہا تھا۔ گھر پر آئے تو کچھ دیر بعد والدہ نے کہا جائو اس بوڑھے شخص کو دوہزار روپے دے کر آئو جس کی بھینس چوری ہوئی ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں ایک مرتبہ تو حد ہی ہو گئی کسی نے آ کر اپنی بپتا بیان کی تو اسے اپنی تنخواہ ہی دے دی۔دوست ان کا مذاق اڑاتے رہے کہ یہ تو حماقت ہے۔ میرے والد مسکراتے رہے۔ وہ تہجد گزار ہیں میں نے اس عمر میں بھی انہیں بیٹھ کر نوافل پڑھتے نہیں دیکھا۔ کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں۔ وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ باقاعدگی سے جاتے رہے۔ وہ میری والدہ کو ساتھ لے کر برما بھی اسی سلسلہ میں گئے تھے۔ شاعر بھی وہ ہیں مگر حمدو نعت کی طرف رجحان ہے۔ ابھی ان کا شعری مجموعہ بھی آیا ہے۔ جب وہاں ادھر مسجد میں آتے ہیں تو نمازی انہیں گھیر لیتے ہیں کہ نعتیں سنائیں۔ ان کے ایک معتقد ریاض صاحب تو عاشق رسول ہیں۔ وہ اکثر والد صاحب کا پوچھتے ہیں تو ان کی نعت گنگناتے لگتے ہیں: تیری میری گل نہیں‘ گل ہے حضور دی دلاں دے سرور دی تے اکھیاں دے نور دی اب آتا ہوں اس شعر کی طرف کہ میں نے بچپن میں پڑھا ہے کہ کتنا مہنگا پڑا جواں ہونا‘اب انہیں بات بھول جاتی ہے سوائے ڈیوڑھے ‘ پونے اور اڑھائی کا پہاڑا سنانے والے اب بڑھاپے کو پہنچ گئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر پوچھتے ہیں تم نائنٹی ٹو نیوز میں کالم لکھتے ہو؟میں کہتا ہوں ’’جی‘‘ پھر کہتے ہیں قطعہ بھی لکھ رہے ہو‘ میں کہتا ہوں بالکل‘ تھوڑی دیر کے بعد وہ یہ دونوں سوال پھر دہرا دیتے ہیں۔ میں بھی اسی طرح جواب دے دیتا ہوں۔ وہ ایک بار پھر خوش ہو جاتے ہیں اور ان کے چہرے پر گلاب کی سی خوبصورتی مسکرانے لگتی ہے۔ کچھ پرانی باتیں یاد کرتے ہوئے دہراتے ہیں اور پھر کچھ یاد کر کے خوش ہوتے ہیں ان کی زندگی جستجو اور تگ و دو سے بھری نظر آتی ہے۔ وہ گھر میں بھینسیں بھی سنبھالتے تھے۔ پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے ۔ میں نے انہیں 92نیوز اخبار پکڑایا تو وہ سرخیاں پڑھتے رہے۔ میرا کالم تصویر سے پہچان لیا اخبار کو پاس رکھ دیا اور بولے اچھا تم 92نیوز میں لکھتے ہو میں نے کہا جی۔ پھر بولے قطعہ بھی لکھے ہو؟ میں نے کہا جی‘ پھر وہ مسکرانے لگے ۔ ہاں انہیں اپنی حمدیں اور نعتیں یاد ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ ریکارڈ بھی کروا دیں۔تاہم وہ ان دنوں وائرس کے حوالے سے حیران ہوتے ہیں کہ وہ تو ہاتھ ملانے کے عادی ہیں۔ اہل دل ہیں عارضہ دل میں ڈاکٹر نے روزانہ تین خوراکیں بتائی تھیں جو انہوں نے چھ سال نہیں کھائیں سے ڈاکٹر صاحب کوئی کرامت ہی بتاتے رہے اور ہنس کر کہتے کہ شاہ صاحب ! ہسپتال ہم بند نہ کر دیں‘‘! والد صاحب مسکرا دیتے۔ مگر اب طبیعت خراب زیادہ ہوئی تو دو چار گولیوں کا وہ مان گئے ہیں: ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے