خبر ہے اکیڈمی آف لیٹرز کی گیلری سے مرزا غالب ‘ فیض احمد فیض اور احمد فراز کی تصاویر ہٹا دی گئی ہیں۔ باقی دو کی تو ٹھیک لیکن مرزا غالب کی تصویر کیوں ہٹا دی؟ اس سے پہلے ایک انڈر پاس سے پروفیسر وارث مرحوم کے نام کی تختی بھی اکھاڑ پھینکی گئی تھی جس کا جملہ محب وطن حلقوں نے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ مرحوم حریت فکر‘ انسانی حقوق اور جمہوری بالادستی جیسے خیالات پرایمان رکھتے تھے اور یہ نظریات پھیلایا بھی کرتے تھے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ مرحوم وفات پا گئے ورنہ سنگین غداری کے دو چار مقدمات بھگت رہے ہوتے۔ اسی طرح فیض کی تصویر ہٹانا بھی قابل تحسین اقدام ہے۔ آپ نے منظوم دھمکی ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ لکھ کر اور سنا کر محب الوطن حلقوں کو ہراساں کئے رکھا اور ایک قصیدہ مذمتیہ بعنوان ’’نثار میں تیری گلیوں کے‘‘ لکھ کر ایوب خاں کے جذبات مجروح کئے تھے۔ فراز کی تصویر ہٹانے کا اقدام بھی اس قابل ہے کہ محب وطن اینکر اس پر حکومت کے حق میں مذاکرے کروائیں۔پھر حبیب جالب بھی۔ چنانچہ یہ قابل تعریف اقدامات اپنی جگہ لیکن مرزا غالب کی تصویر کیوں ہٹائی؟ ان کی شاعری تو سراسر بے ضرر ہے‘ آئین‘ جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ حرمت فکر تو ان کے موضوعات میں کبھی شامل ہی نہیں رہے؟ تحقیق بسیار کے بعد ایک بات معلوم ہوئی۔ مرزا کی شاعری میں جا بجا محتسب کی مذمت بھی ہے اور اس کا مضحکہ بھی اڑایا گیا ہے۔ ہمارے تحریک انصاف کے کارپردازان نے سمجھا ہو گا کہ شاید وفاقی محتسب کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ ایک امکانی صورتحال ہے۔ چنانچہ ہو سکتا ہے ایساکوئی تار‘ جدید معنوں میں واٹس ایپ اوپر گیا ہو اور اوپر سے فوری کارروائی کی ہدایت کی گئی ہو جس پر اکیڈمی کے فاضل سربراہ نے بلا تاخیر یہ کارروائی کی ہو۔ ٭٭٭٭٭ ایک خبر قیاس آرائی کی صورت یوں چل رہی ہے کہ وزیر اعظم اپنی کابینہ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ خاں صاحب ان ضرورت سے زیادہ‘ لائق وفائق وزیروں سے بہت ناراض ہیں اور فرماتے ہیں کہ لٹیا انہی نے ڈبوئی۔ ان ضرورت سے زیادہ لائق و فائق وزیروں کو ہٹا دیا تو ان کی جگہ کون آئیں گے؟ ذرا سوچیے ان سے بھی زیادہ یعنی ضرورت سے کہیں درکہیں زیادہ لائق وفائق آ گئے تو کیا ہو گا۔ ابھی تولٹیا ڈوبی ہے‘ کلاں کلاں اگر… خیر،جانے دیجیے۔ ٭٭٭٭٭ کابینہ سے یاد آیا‘ کچھ دنوں سے بعض احباب وزیر اعظم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگی حالات ہیں اس لئے جنگی کابینہ بنائی جائے۔ اس بات کو تو رہنے دیجیے کہ کہاں کے جنگی حالات۔ کوئی جنگ ہونے والی نہیں ہے۔ سرٹیفائیڈ اصو ل ہے کہ ع تم لاکھ چھپائو دنیا سے‘ دنیا کو پتہ چل جاتاہے باقی بات رہ گئی جنگی کابینہ کی، تو وہ مطالبہ وزیر اعظم پہلے ہی پورا کر چکے ہیں۔ ہفتہ بھر سے زیادہ ہو گیا جب یہ خبر آئی تھی کہ وفاقی کابینہ میں مزید 9پارلیمانی سیکرٹری شامل کر لئے گئے ۔ ملاحظہ کیجیے اور انصاف کے ساتھ کہیے کہ کیا یہ جنگی کابینہ نہیں۔ جنگی کیا‘ یہ تو جنگ عظیمی کابینہ ہے۔ شاید احباب چاہتے ہیں کہ سو کا عدد پورا کریں تبھی یہ جنگی کابینہ کہلائے گی۔ ٭٭٭٭٭ معیشت کی مسیحائی کے لئے حکومت نے آئی ایم ایف سے جو ماہر بلائے تھے ‘ ان میں سے ایک نے گزشتہ شام فرمایا کہ معیشت میں استحکام لائیں گے۔ اسے دھمکی سمجھا جائے یا و عید مزید؟ جتنا استحکام نازل فرما چکے ہیں‘ جناب کے خیال میں شاید کافی نہیں۔ مثبت خبروں کا دورہے‘ اس لئے سٹیٹ بنک کی رپورٹیں بھی مشکل سے اتنی ہی جگہ پاتی ہیں جتنی یا جس سے زیادہ‘ فیاض چوہان کو ملتی ہے۔ افراط زر کی شرح جو تین فیصد سے بڑھ کر 10.5پر جا چکی ہے۔ آنے والے مہینوں میں بڑھ کر 15فیصد ہونے کا امکان ہے ایک اور پہلو یہ کہ ترقیاتی اخراجات میں 50فیصد کٹ کے باوجود حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں 17ہزار ارب روپے کا اضافہ۔‘ سوچا ہی نہیں تھا۔ کاروبار بند‘ صنعتیں منجمد‘ روٹی دال ہر روزمہنگی‘ ہو رہی ہے۔ بجلی مہنے کے حساب سے ’’گراں قدر‘‘ ہوتی جا رہی ہے۔ ترقیاتی کام ٹیبو(Taboo)قرار پا گئے۔ قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اتنا سارا استحکام تو آ گیا‘ مزید کہاں لے جائیے گا؟ ٭٭٭٭٭ صدر ٹرمپ نے افغان مذاکرات کا عمل معطل کر دیا ہے۔ وجہ اس حملے کو بنایا ہے جو ایک روز پہلے طالبان نے امریکی دستوں پر کیا۔ اب دیکھنے کی بات جو پریشانی کی بات بھی ہے ‘ یہ ہے کہ امریکہ آئندہ کیا کرے گا۔ جب پاکستان کے حکام امریکہ کا یہ حکم بے چوں و چراں ماننے کی ذمہ داری اٹھا رہے تھے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں گے تو ٹوکنے والوں نے ٹوکا تھا (اگرچہ یہ کالم نویس کسی گنتی میں نہیں ہے لیکن ان ٹوکنے والوں میں شامل بہرحال تھا) کہ ایسا نہ کریں۔ ایسا کر کے آپ امریکہ کے اس ’’یقین‘‘ کو اور پریقین بنا دیں گے کہ طالبان کا ریموٹ کنٹرول ہمارے پاس ہے۔ ان کے ہر اچھے برے کے ذمے دار ہم ہیں۔ پھر طالبان نہ مانے تو جرم دار ہمی کو مانا جائے گا۔ لیکن’’سفارتی فتوحات‘‘ کے شوق نے ہمیں بے فکر کر دیا اور ہم امریکہ سے وہ وعدے بھی کر بیٹھے جو ہمارے بس میں نہیں تھے۔ طالبان نے تو عمران خاں کی دعوت پر پاکستان آنے سے بھی انکار کر دیا۔ اب امریکہ غصہ ہم پر نکالنے کی ٹھان لے تو ہم کیا کریں گے؟ امریکی خوشنودی کے لئے ہم نے کشمیر پر کیمپ ڈیوڈ بھی کر دیا‘ وہی بات نہ ہوجائے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ طالبان کے اندر بھی کوئی ایک رائے تو نہیں ہے۔ کوئی معاہدے کا حامی ہے‘ کوئی اسے سبوتاژ کرنے پر تلا ہے۔ یہ خیال کہ سرکاری فوج بھس کا ڈھیر ہے‘ بھی غلط نکلا۔ کندوز حملے پر طالبان نے جس بری طرح مار کھائی‘ وہ تو کچھ اور ہی کہانی بنتی ہے۔