لندن شہر سے نزدیک ایک وسیع و عریض گھر ہے‘ آپ اسے ڈیرہ کہہ لیں جہاں کئی بین الاقوامی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کا آنا جانا ہے۔ اس کا مالک ناصر بٹ بتیا جاتا ہے ،پتہ نہیں یہ اس کا اپنا مکان ہے ،کرائے پر ہے یا کسی شریف آدمی نے اپنے ذاتی کام کے لیئے خرید دیا ہے۔گنجان آبادی سے دور ہونے کا فائدہ ہے کہ میڈیا اور عام لوگوں کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس ڈیرے پر آنے والی عالیشان گاڑیوں میں کون لوگ تھے اور ان کا یہاں جمع ہونے کا مقصد کیا ہے۔ ایک اور اطلاع یہ ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ادھیڑ عمر بچے غیر ملکی سفارت خانوں کے مسلسل چکر لگا رہے ہیں‘دوسرے ملکوں کے سفارت کاروں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت جعلی ہے‘ سڑکوں پر زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں‘ اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کر کے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جس الزام تراشی اور ذاتی مفادات کے ایجنڈے کو بیانیہ کہا جا رہا ہے وہ بھی سفارتی اہلکاروں کے گوش گزار کیا جا رہا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگر پیپلز پارٹی کا کوئی وزیر اعظم اپنے ہٹائے جانے پر مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگاتا‘ جی ٹی روڈ پر بدامنی پھیلانے کی کوشش کرتا۔ سزا کے بعد جیل سے باہر چھٹیاں گزارنے کی درخواست کرتا‘ بیماری کا کھیل رچا کر بیرون ملک فرار ہو جاتا اور پھر اداروں کو اسی لب و لہجے میں مخاطب کرتا‘ دھمکیاں دیتا جو نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے اختیار کر رکھا ہے تو محافظ اداروں اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل کیا ہو گا۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ انہیں جمہوریت پسند نہیں مانتے‘ اکثریت جان چکی ہے کہ وہ کب اکڑتے ہیں اور کب منتوں پر اتر آتے ہیں۔ انہیں لہجہ گلو گیر بنانے‘ آنکھوں میں نمی لانے اور دوسرے کھیکن آتے ہیں۔وہ آسمان کے ساتھ ٹاکی باندھ سکتے ہیں اور اتار کر بھی لا سکتے ہیں۔ پہلے مولانا فضل الرحمن کو کہا کہ میدان گرم کریں‘ مولانا نے میدان گرم کیا اور پی ڈی ایم کی سربراہی انعام پائی۔مولانا کو اپوزیشن اتحاد کا سربراہ اس لئے بنایا گیا کہ دونوں بڑی جماعتوں نے خود کو اپوزیشن کی جارحانہ مہم سے الگ رکھنے کا سوچ لیا ہے۔مولانا سر ٹکراتے رہیں گے ،ایک ماحول بنانے کی کوشش کریں گے جس میں دونوں بڑی جماعتیں بطور آپشن سامنے آئیں، اچھا یا برا جو ہو گا اس کے ذمہ دار مولانا اور ان کے ساتھی ہوں گے۔ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی اے پی سی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ سیاسی لحاظ سے پیپلز پارٹی ن لیگ سے زیادہ سمجھدار اور اور ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے سیاسی باتیں کئی بار کی ہیں لیکن شاید ہی انہوں نے کبھی محافظ اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہو۔ جمہوری اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنا غلط نہیں لیکن اس طرح کا مطالبہ وہ کرے جو خود جمہوری اقدار پر عمل کرتا ہو اور اس کی جماعت میں جمہوریت ہو۔ جن غیر ملکی سفیروں کو پاکستان میں اپوزیشن پر منہ بولے مظالم کی داستانیں سنائی جا رہی ہیں وہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے سے واقف ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات نہیں کراتیں بلکہ سربراہ اپنے گھر کے افراد کو براہ راست اعلیٰ عہدوں پر نامزد کر دیتا ہے۔ معاف کیجیے گا۔ سیاسی جماعتوں نے جتنا زور مخصوص خاندانوں کو عوام کی گردن پر مسلط رکھنے کے لئے لگایا‘ اس سے آدھی محنت کر کے اپنا ڈھانچہ جمہوری بنا لیتیں تو انہیں شکایت نہ ہوتی۔ مولانا کو پی ڈی ایم بنانے‘ اس کا سربراہ نامزد ہونے اور اپوزیشن کو لیڈ کرنے کی مشروط اجازت ملی ہے۔ خبر ہے کہ مولانا وہ کچھ کریں گے جس کی ہدایت نواز شریف سے ملے گی ظاہر ہے ہدایت کے ساتھ اخراجات بھی ملیں گے۔ سیاست میں اقتدار حاصل کرنا ہماری جماعتوں کا مقصد ہوتا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے بعد خاندانی معیشت بہتر اور ملکی معیشت برباد کی جاتی ہے‘ مولانا کا کمال یہ ہے کہ وہ لہریں گننے پر لگا دیے جائیں تو وہاں سے بھی دولت اکٹھی کر لیتے ہیں۔ آج ن لیگ اربوں روپے خرچ کر کے لندن کے مضافات میں جو کچھ کر رہی ہے اس کا نزلہ تو ناصر بٹ اور اس جیسے دیگر لوگوں پر گرے گا لیکن پیسہ شریف خاندان کا خرچ ہو رہا ہے۔ مولانا اقتدار میں نہیں لیکن ان کے کھاتے میں مسلسل دولت آ رہی ہے۔ فرنٹ مین اثاثے کا گھوسٹ مالک ہوتا ہے۔ مولانا سیاسی فرنٹ مین بن کر اپنا کردار بخوبی ادا رہے ہیں۔ نواز شریف فوج سے مایوس ہو کر عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل لینے کی کوشش میں ہیں۔ ان کے پاس دوسرے ملکوں میں مداخلت کا بیانیہ ہے جیسے بھارت کی سفارتی مدد حاصل ہے‘ وہ سی پیک کو دائو پر لگانے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں حالانکہ اس کا کریڈٹ ان کو دیا جاتا ہے‘امریکہ اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ وہ پاکستان میں کنٹرولڈ جمہوریت کا واویلا کر کے دنیا کی جمہوریت پسند ریاستوں سے مدد کی درخواست کر رہے ہیں۔ جلسے جلوس نکالنے اور ریاستی اداروں کے خلاف تند بیانات ایک حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جوابی کارروائی کریں اور شریف خاندان کو دنیا کو یقین دلانے کا موقع مل جائے کہ پاکستان میں کس قدر جبر ہے‘شہباز شریف نے ضمانت کی درخواست واپس لے کر جس طرح اپنی گرفتاری کا موقع پیدا کیا وہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے جو لندن شہر سے باہر ایک پرسکون کشادہ جگہ پر طے کی گئی۔رہی بات لاہور کے جلسے کی تو غلط پلیٹ فارم پر پنجابی قوم پرستی کا نعرہ غلط لوگ لگاتے نظر آئے ۔