اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو گیا۔ پچاس سال سے سلامتی کونسل نے کشمیریوں کی خبر لی نہ ہم نے عالمی ادارے اور بین الاقوامی ضمیر کو جگانے کی سعی کی‘ حکومت نے نامساعد حالات میں جرأت مندانہ فیصلہ کیا‘ نتائج سے بے پروا ہو کر سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ مستقل رکن چین نے مدد کی تو مسئلہ کشمیر زیر بحث آ گیا دیر آید درست آید ؎ دیرلگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ‘ویسے ہم گھبرائے تو کھٹکا سب کو لگا تھا کہ بھارت شائد اپنی جارحانہ سفارت کاری‘ روس ‘ امریکہ‘ فرانس سے دوطرفہ مضبوط تجارتی و اقتصادی روابط کا فائدہ اٹھا کر یہ اجلاس ہونے نہ دے‘ روس بھارت کا پرانا سیاسی اور فوجی حلیف ہے ‘بھارت فرانسیسی اسلحے کا خریدار اور امریکہ اسرائیل‘ بھارت گٹھ جوڑ میں حصہ دار۔ پاکستان کی دال کون گلنے دے گا ‘مگر سارے اندیشے‘ قیاس آرائیاں اور افواہیں نقش برآب۔ بھارتی مندوب اکبر الدین کی پریس بریفنگ سن کر اطمینان ہوا کہ چینی مندوب‘ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوام متحدہ میں ہماری مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے جو کہا‘ سچ تھا ورنہ اکبر الدین جھٹلانے کی کوشش ضرور کرتا۔ یہ مگر ہماری منزل نہ تھی۔ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ ہر سال اٹھتا‘ بحث ہوتی اور قرار دادیں منظور کی جاتی تھیں‘ تب کشمیری عوام کے درد کا درماں نہ ہوا تو اب یہ امید کوئی احمق ہی کر سکتا ہے کہ ایک مشاورتی اجلاس سے ڈر کر بھارت نولاکھ فوج واپس بلانے پر مجبور ہو گا۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے‘ آزاد کشمیر کو بھارت کی للچائی نظروں اور اپنے آپ کوریشہ دوانیوں و جارحیت سے بچانے کے لئے جو بھی کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے۔ عمران خان نے مہذب دنیا کے سامنے مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا فسطائی ‘ نسل پرست چہرہ بے نقاب کیا۔ یہ توفیق ماضی میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو کبھی نہ ہوئی۔ گجرات میں فسادات 2002ء میں ہوئے اور بھارتی حکمران کوگجرات کے قصائی کا خطاب اسی دور میں ملا مگر بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف کی رگ حمیت 2019ء میں پھڑکی‘ عمران خان بھی 2019ء کے انتخابات تک مودی کے بارے میں حسن ظن کا شکار رہا لیکن مودی مذاکرات کی میز پر آیا نہ مسلم کش پالیسیوں سے دست بردار ہوا تو وزیر اعظم نے اپنی تقریروں اور ٹویٹس میں وہ سب کچھ کہا جو ایک غیرت مند پاکستانی حکمران کوزیبا تھا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے شائد اب تک عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے نمائندے Ross Colvinکا مشہور زمانہ انٹرویو نہیں پڑھا جس میں رائٹرز کے نمائندے نے مودی سے سوال کیا کہ گجرات کے فسادات پر جس میں ہزاروں مسلمان درندگی کا نشانہ بنے‘ قتل ہوئے ‘آپ کو افسوس ہے نریندر مودی نے جواب دیا’’جب آپ گاڑی چلا رہے ہوں‘ یا کوئی گاڑی چلا رہا ہو اور آپ اس کے ساتھ محو سفر ہوں‘ کتے کا پلا اچانک گاڑی کے نیچے آ کر مارا جائے تو گجرات کے چیف منسٹر نہیں ایک انسان کے طور پر افسوس تو ہو گا‘‘ ہزاروں مسلمان مرد و خواتین کی ہندو بلوائیوں‘ گجرات پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں کے ہاتھوں شہادت کو ایک کُتے کے پلے کی موت سے تشبیہ دینے والے بھارتی وزیر اعظم کی تنگ نظری سنگ دلی اور نفرت کو ہم 5اگست سے قبل انسانی حقوق‘ شہری آزادی کے علمبردار ممالک اور انسانیت کو دنیا کا سب سے بڑا مذہب قرار دینے والے امریکہ و یورپ کے دانشوروں کو سامنے اجاگر نہیں کر سکے تو قصور ہمارا ہے لیکن ماضی کی سینہ کوبی کی بجائے اب بھی وقت ہے کہ ہم سیاسی اور سفارتی محاذ پر پیش قدمی جاری رکھیں اور جو کامیابی گزشتہ روز ہوئی اسے آخری سمجھ کر بیٹھ رہنے کے بجائے مزید آگے بڑھیں۔ پاکستان میں مسئلہ کشمیر کی حد تک سیاسی اتفاق رائے موجود ہے‘ اسفند یار ولی ‘ محمود اچکزئی اور اس فکر کے لوگوں کو آج تک کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کی مذمت کی توفیق ہوئی نہ ان میں سے کسی نے جھوٹے منہ ہی سہی حکومت اور فوج کو تعاون کا یقین دلایا۔ بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف البتہ نریندر مودی کے اقدامات کی مخالفت میں پیش پیش ہیں عوامی سطح پر مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تحریک انصاف کی طرح متحرک ہیں نہ پرجوش۔ تحریک انصاف بھی بطور جماعت اپنا فرض حکمران جماعت کے طور پر ادا نہیں کر رہی‘ عوام کے جذبات کی نچلی سطح پر ترجمانی ہو رہی ہے نہ انہیں ناگہانی خطرات سے آگاہ کرنے کی شعوری کوشش‘ عمران خان‘ شاہ محمود قریشی‘ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ چودھری محمد سرور اور زلفی بخاری کے سوا تحریک انصاف کا کون سا دوسرا لیڈر متحرک ہے؟ میڈیا سے کس کا رابطہ ہے؟ اور ضلع و تحصیل کی سطح پر عوام کو چوکس و بیدار ‘ پرامن اجتماعات کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے اور کشمیری عوام و پاک فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لئے سرگرم نظر آتی ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما ‘ کارکن تو میاں نواز شریف ‘ مریم نواز‘ آصف علی زرداری فریال تالپور کی گرفتاری پر مغموم‘ سوگوار اور پریشان ہیں‘ حکومت اور فوج دونوں پر برہم ہیں‘ کچھ تو مودی کے ہمنوا کہ وہی عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا دبائو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں اور مداحوں کو بھی کہیں سے ڈائریکشن نہیں مل رہی۔ اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں ایک ایکشن پلان کا مژدہ سنایا جو جموں و کشمیر کی آزادی اور بھارت کی متوقع جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا‘ ایکشن پلان کے خدوخال فی الوقت واضح نہیں لیکن امید یہی ہے کہ قومی امنگوں اور دفاع و سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں گے۔ 5اگست سے اب تک حکومت اور فوج دونوں قومی توقعات کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ عسکری اور سفارتی دونوں محاذوں پر حوصلہ افزا پیش رفت جاری ہے منفی اذہان کا یہ پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مر گیا کہ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ دورہ امریکہ میں مسئلہ کشمیر کا سودا کر آئے‘ صرف کشمیر ہی نہیں پاکستانی عوام کو بھی طویل عرصے بعد عمران خان کی شکل میں ایک ایسا وکیل دستیاب ہے جو الفاظ چبائے بغیر عالمی برادری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا اور قومی مفاد کو آگے بڑھاتا ہے۔ ریاست مدینہ جس کا رول ماڈل ہے اور پاکستان کا وقار جسے عزیز ۔ جو احمق ایک سال سے مسلسل ایک ہی رٹ لگائے جا رہے تھے کہ میاں نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر پاکستان نے اپنے آپ کو سفارتی تنہائی اور معاشی مشکلات کی دلدل میں دھکیل دیا وہ خفیف ہیں‘ پٹھانکوٹ واقعہ پر میاں نواز شریف اور پلوامہ پر عمران خان کے ردعمل میں زمین و آسمان کا فرق اگر عقل کے اندھوں کو نظر نہ آئے تو آدمی کیا کرے ع دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے بارہ ارکان کھلا اجلاس بلانے کے حق میں ہیں جو پاکستان اور چین کی بڑی کامیابی ہے۔ آزاد کشمیر میں محدود مداخلت اور پلوامہ جیسے کسی واقعہ کی آڑ میں پاکستان کو بدنام کرنے کی بھارتی حکمت عملی کا توڑ صرف فوج اور حکومت کی ذمہ داری نہیں پوری قوم کا فرض ہے لیکن کوئی قوم کو آواز دے تو؟ عمران خان کے ساتھیوں‘ تحریک انصاف کے عہدیداروں اور مخلص کارکنوں کو یہ کام قومی جذبے سے کرنا چاہیے۔ ماضی کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر کو فوج اور جماعت اسلامی کا ایشو سمجھا‘ قومی جرم کی مرتکب ہوئیں تحریک انصاف کی حکومت نے اونر شپ دی اور نتائج کی پروا کئے بغیر عالمی برادری سے رجوع کیا‘ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سالار والا کے بزرگ حضرت صوفی برکت علی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا ’’وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی ہاں اور نہ میں اقوام عالم کے فیصلے ہوا کریں گے‘‘ جبکہ روحانی سکالر سید سرفراز اے شاہ برسوں سے ایک ایسی پاک بھارت جنگ کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں جس میں ’’تباہی تو بہت ہو گی مگر سرخرو انشاء اللہ پاکستان ہو گا‘‘ جموں و کشمیر میں جس روزکرفیو کا خاتمہ ہوا اورلوگوں کو باہر نکلنے کا موقع ملا‘ آزادی کے خواہش مند کشمیری عوام اقوام عالم کو اپنے جذبات و احساسات سے آگاہ کریں گے۔ مودی کی نولاکھ فوج آج تک جبر اور ظلم سے آزادی کے متوالوں کو نہیں دبا سکی تو آئندہ کب تک؟ ؎ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا