اب تو ہوش آ جانا چاہیے معصوم عوام کو جنہیں اُمہّ کے نام پر پڑیاں بیچی جا رہی ہیں اور کُشتے کھلائے جا رہے ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اُمہ کے وجود سے انکار کر رہے ہیں۔ ہاں امت سیاسی اتحاد کے حوالے سے کبھی سامنے نہیں آئی۔ چودہ سو سال میں ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا کہ امت ‘ سیاسی ‘ عسکری یا اقتصادی حوالے سے اکائی ثابت ہوئی ہو۔ یہ ایک روحانی تصورہے۔ انفرادی طورپر ترک عرب سے محبت کرتا ہے، ایرانی پاکستانی سے پیار کرتا ہے۔ بنگالی مسلمان افریقی مسلمان کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ مگر مسلمان ملکوں اور حکومتوں نے کبھی امت کے تصور کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ کشمیر کے حالیہ المیے پر مسلمان ملکوں کے ردعمل نے یہی تو ثابت کیا ہے۔ کویت ،قطر ،بحرین اور اومان نے مکمل سکوت اختیار کیا ہے ۔متحدہ عرب امارات نے واضح طور پر اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کا بیان حد درجہ محتاط اور سفارتی نزاکت میں ملفوف ہے۔ کہ ’’سعودی حکومت موجوہ صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے اور یہ کہ بین الاقوامی قرار دادوں کے مطابق ’’پرامن تصفیہ ‘‘ ہونا چاہیے‘‘ ستر لاکھ سے زیادہ بھارتی مشرق وسطیٰ میں کام کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا تیس فیصد بھارتیوں پر مشتمل ہے، یعنی تقریباً ہر تیسرا شخص بھارتی ہے! گزشتہ برس دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پچاس ارب ڈالر کو چھو رہی تھی۔ بھارت نے متحدہ عرب امارات میں پچپن ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کی حالیہ آئینی ترمیم اور کشمیر میں بھارتی فوج کے اضافے کے حوالے سے بھارت میں تعینات یو اے ای کے سفیر احمد البنا کا یہ بیان دونوں ملکوں کے میڈیا میں اجاگر ہوا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی تبدیلیاں معاشرتی انصاف اور سکیورٹی میں اضافہ کریں گی اور استحکام اور امن بڑھائیں گی! سعودی کمپنی ’’آرام کو‘‘ بھارت میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے سعودی ولی عہد کے بیان کے مطابق 2021ء تک سعودی عرب بھارت میں ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مسلمان ملکوں میں صرف ترکی نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے۔ ریت میں سر چھپاتے ہوئے ہم ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب سے ’’نیشن سٹیٹ‘‘ کا تصور ابھرا ہے یعنی ملک قومیت کی بنیاد پر بنے ہیں، تب سے اُمہّ کا سیاسی اتحاد کمزور ہوا ہے! لیکن تاریخ ہماری اس خوش فہمی کی حمایت نہیں کرتی۔نیشن سٹیٹ کا تصوراگر مغرب نے دیا ہے تو اس سے پہلے کیا اُمہّ سیاسی اور عسکری حوالے سے متحد تھی؟ خلافت راشدہ کے عہد کو احتراماً چھوڑ دیتے ہیں اس کے بعد کیا ہوا؟ مسلمان عباسیوں نے مسلمان امویوں کی لاشوں پر قالینیں بچھائیں اور دعوتیں اڑائیں۔ جب اندلس سے ایک ایک مسلمان کو نکالا جا رہا تھا یا بزور نصرانی بنایا جا رہا تھا تو اُمہّ کہاں تھی؟ مسلمان تیمور نے ہندوستان کی مسلمان تغلق حکومت پر حملہ کیا۔ دہلی لاشوں سے بھر گئی، سروں کے مینار بنے۔ شہر میں تعفن سے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ پھر مسلمان امیر تیمور نے حلب اور دمشق کو تاراج کیا۔ دونوں شہر مسلمانوں کے تھے۔ شہریوں کو تیہ تیغ کردیا سوائے کاری گروں کے جنہیں قید کر کے سمرقند لایا گیا۔1401ء میں تیمور نے بغداد کو برباد کیا۔ بیس ہزار شہری قتل کئے ۔حکم دیا کہ ہر سپاہی کم از کم دو بغدادیوں کے بریدہ سر پیش کرے۔ پھرتیمور نے سلطنت عثمانیہ کو تہس نہس کیا۔ ترک خلیفہ اس کی قید ہی میں مر گیا۔ سمرنا(موجودہ ازمیر) لاشوں سے اٹ گیا ،سلطنت عثمانیہ پر فوج کشی کی وجہ تیمور نے یہ گھڑی کہ انا طولیہ پر اصل حق سلجوقیوں کا ہے! گویا تیمور دراصل نیشن سٹیٹ کا تصور پیش کر رہا تھا۔ عثمانی ترک بھی مسلمان تھے اور سلاجقہ بھی۔ مگر تیمور سلجوق قومیت کی حمایت میں عثمانیوں پر چڑھ دوڑا۔ اُمہّ کا تصور آگے بڑھتا ہے۔ مسلمان ظہیرالدین بابر نے مسلمان ابراہیم لودھی کی سلطنت کو ختم کر دیا۔ ابراہیم لودھی واحد ہندوستانی مسلمان حکمران ہے جو میدان جنگ میں لڑتا ہوا مارا گیا ۔شیر شاہ سوری اور ہمایوں دونوں امت مسلمہ کے فرزند تھے۔ دونوں نے نسلوں تک ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی نبھائی۔ پورے مغل عہدمیں قندھار ایران اور مغل ہندوستان کے درمیان جنگ کی وجہ بنا رہا۔1645ء سے لے کر 1647ء تک شاہ جہاں وسط ایشیا کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے لئے خون کے دریا بہاتا رہا۔یہ اور بات کہ ازبک اور مغل دونوں اُمہّ کے حصے تھے، شاہ جہان اس جنگ کی نگرانی کے لئے کابل منتقل ہو گیا۔ بلخ مغل فوج کا مستقر ٹھہرا ،مغل فوج کے پانچ ہزار افراد ازبک تلواروں اور موسم کی سختیوں کا شکار ہوئے اتنی ہی تعدادمیں ہاتھی گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہوئے، چار کروڑ روپے مہم پر خرچ ہوئے حاصل کچھ نہ ہوا۔ ایرانی صفوی اور عثمانی ترک۔ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے۔ شاہ عباس صفوی نے یورپ کے نصرانی بادشاہوں کو ترکوں پر حملہ کرنے کے لئے سالہا سال تک اکسایا۔ یہاں تک کہ اس کے سفیر نے جو یورپ میں اس کام پر متعین تھا۔ شاہ عباس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یورپ کی طاقتیں ترکوں کے بعد ایران کو بھی ہڑپ کریں گی کیوں کہ وہ ترکوں یا ایرانیوں کے نہیں‘ اصلاً مسلمانوں کے خلاف ہیں مگر شاہ عباس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ پرتگال کے سفیر گو اس کے پاس جاتے رہے۔ صفویوں اور عثمانی ترکوں کے درمیان بارہا خوں ریز جنگیں ہوئیں۔ اور آگے بڑھیے۔ عربوں نے انگریزوں کی سازش کا حصہ بن کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی اور ’’معاوضے‘‘ میں اردن اور عراق وغیرہ کی حکومتیں حاصل کیں ،عربوں کا تعاون شامل حال نہ ہوتا تو اسرائیل کا قیام کبھی عمل میں نہ آتا۔ صدر ناصر نے اور یاسر عرفات جیسے لیڈروں نے کبھی بھی کشمیر یا پاکستان کی حمایت نہ کی۔ ان کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف رہا۔ آج امت کا یہ حال ہے کہ یمن میں سعودی اور ایرانی آمنے سامنے ہیں۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم سب جانتے ہیں۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اور دو طرفہ معاہدے ہیں، عشروں پہلے ایک مسلمان بادشاہ کے باڈی گارڈز نے اسرائیل میں تربیت حاصل کی۔ آج اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عرب ایران کے مقابلے میں اسرائیل کے قریب آ رہے ہیں۔ حاشاو کلا‘ امت کے تصور کی تنقیص مراد نہیں! عرض صرف یہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک روحانی تصور ہے۔ سیاسی اور عسکری میدانوں میں بھی امہ کو یکجا ہونا چاہیے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ عراق کی نیست و نابود کرنے کے لئے امریکی جنگی طیارے اردگرد کے مسلمان ملکوں ہی سے تو اڑ کر حملے کرتے رہے! یہ امید ختم کر دیجیے کہ کشمیر امت کا مسئلہ ہے۔ اپنے زور بازو پر بھروسہ کیجیے ترکی اور چین کے علاوہ کوئی بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دے رہا نہ دے گا! معصوم اور جذباتی عوام کو سراب نہ دکھائیے۔اقبال نے نصیحت کی تھی ؎ غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغِ حرم! اُڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پرفشاں کیا ہوتا ‘ اڑ ہی نہیں رہا!