دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لیے آئے تھے ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی توقعات یا اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اچانک صورت حال بدل جاتی ہے۔ وہی جو فراز نے کہا تھا ’’یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے، کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں‘‘ بلکہ مجھے طاہرہ انجم کا شعر یاد آ گیا، کس قدر حسب حال ہے ’’انجم ذرا تو دیکھ تو ناصح کی شوخیاں، پہلو بدل کے مجھ سے بھی پہلے بدل گیا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ میں کس حوالے سے بات کرنے جا رہا ہوں۔ مگر ٹھہریئے آپ کو اس ضمن میں پہلے ایک شاندار افسانے کا لب لباب بتاتا ہوں۔ لطف اٹھائیے: کرشن چندر کے ایک افسانے میں دو تیز رفتار بسوں کا مقابلے میں دوڑ لگاتے ہوئے حادثہ ہو جاتا ہے۔ بس الٹ جاتی ہیں۔ اتفاق یہ کہ دونوں بسوں کے ڈرائیور ایک ہی ہسپتال میں لائے جاتے ہیں۔ دوسرا اتفاق یہ کہ دونوں پٹیوں میں لپٹے ہوئے دو سٹریچر پر باہر لائے جاتے ہیں۔ دونوں منہ موڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔ اور کمال یہ کہ سٹریچر کھینچنے والے کو پہلا ڈرائیور کہتا ہے کہ ذرا تیز کرو سٹریچر، اس کا سٹریچر آگے نہیں نکلنا چاہیے۔ اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کن کی طرف ہیں کہ جو پوری کوشش میں ہیں کہ بھاگ کر دربار میں پہلے کس نے پہنچنا ہے۔ ایسے ہی شعر یاد آ گیا: آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے کسی منچلے نے خوب کہا کہ ن لیگ کا انقلاب مکمل ہو چکا۔ ویسے محترم کو معلوم ہونا چاہیے کہ انقلاب میں کایا ہی پلٹتی ہے۔ وہ ایک مختلف بات ہے کہ شہاب نامے میں ہم نے پڑھا تھا کہ کسی کا شعر درج تھا۔ ’’جہاں بھی انقلاب ہوتا ہے، قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے‘‘ بہرحال شہباز شریف کی انقلابی تقریریں کسے یاد نہیں۔حبیب جالب کی روح بھی ان سے متاثر ہوئی۔ ’’تعبیر خوب نکلی ہے خلقت کے باب کی، ظالم بھی بات کرنے لگا انقلاب کی‘‘۔ بلاول نے ن لیگ کے مطالبے کہ حلقہ 249کا سارا سامان فوج کے سپرد کیا جائے، کو غیر سنجیدہ کہا ہے۔ حالانکہ یہ نہایت سنجیدہ مطالبہ ہے اور بلاول کے لیے بھی یہ بات نہایت سنجیدہ ہونی چاہیے۔ جناب کیا سمجھے: ’’پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں، وہی زندگی ہماری ہے‘‘۔ بلاول ٹیسٹ کیس ضرور ہیں مگر پنجاب میں مس فٹ یا ان فٹ ہیں‘‘ سیاست میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک بات تو طے ہے کہ ان سب کا آخری اعتبار اور اعتماد فوج ہی ہے۔ بلاول کے لیے ایک شعر لکھ دیتے ہیں: مجھ سا کوئی جہان میں ناداں بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ جس طرح غلام کے پاس انتخاب نہیں ہوتا صرف اطاعت ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص استعمال ہونے پر آ جائے تو یہ پھر استعمال کرنے والے پر ہوتا ہے کہ اسے کیسے اور کہاں استعمال کرے کہ اس میں فیس سونگ کا مسئلہ بھی تو ہوتا ہے۔ بہرحال عوام کے سامنے سب کے چہرے عیاں ہو رہے ہیں ایک اصطلاح ہے بہم مکاری۔ کہ ایک دوسرے کے ساتھ کاندھا ملا کر چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر نظر رکھنا کہ کہاں جا کر دھکا دینا ہے۔ باقی رہی بات کہ کہ وہ کھیل سے نکلتے جا رہے ہیں اور یہ بات انتہائی خطرناک بھی ہے۔ انہوں نے بھی منیر نیازی کی طرح دیر کر دی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ انہیں تب ہوش آتا ہے جب پانی سر سے اوپر ہو جاتا ہے۔ ان اصطلاحات کی بات آخر غلط وقت پر ہوئی کہ وہ کسی اور آفر پر ہیں شاید۔ خاں صاحب کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ حالات کو کیسے سنبھالتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان تو رمضان بازار کے رش میں گھس گئیں۔ ثبوت یہ کہ خود اے سی کہہ رہی تھیں کہ ’’میڈم رش بہت ہے‘‘ ان کی اے سی سے تلخ کلامی ہوئی۔ کیا کریں یہ فردوس عاشق اعوان کا انداز ہے۔ ایک بات انہوں نے اچھی کہی کہ چینی قطار بنوا کر دینا حکومتی پالیسی کے خلاف ہے۔ مگر قطار نہیں ہو گی تو بھگدڑ مچ جائے گی۔ ایسے منیر سیفی کا ایک زبردست شعر یاد آ گیا: منتظر ہوں میں اپنی باری کا اور کھڑا ہوا قطار سے باہر ویسے حالات کو جاننے کے لیے خبروں کے لنک ملانا پڑتے ہیں۔ وہی کہ تصویر پھٹ جائے تو بعض اوقات ایک سے دوسری سمت سے جوڑنا پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ’’محض خطا پر کسی کو تاحیات نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ محض افواہوں پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ن لیگ کی رہنما کی تاحیات نا اہلی ختم۔ بہرحال سب کچھ چل رہا ہے جہانگیر ترین اپنے بیان داغ رہے ہیں کہ ن لیگ سمیت کسی سے کوئی رابطہ نہیں۔ راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے، سوچوں کے ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے! جو بھی ہے موجودہ حکومت کا وقت پورا کرانے پر سب ہی متفق ہیں۔ اب یہ سب خاں صاحب پر ہے کہ وہ اپنا وقت کیسے پورا کرتے ہیں یا پھر عوام یہ وقت کیسے نکالتے ہیں۔ شوکت ترین نے بھی چیخیں نکلوانے والا بیان دے دیا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔پھر آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف تو میں یہ بھی بتا دوں کہ مریم اورنگ زیب نے مفتاح صاحب کے بیان کو ڈس اون کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی بیان رینجرز کے حوالے سے ہے کہ سندھ حکومت پر کسی کو اعتبار نہیں۔ بلاول کی بات دل کو لگتی ہے کہ انتخابی اصلاحات ضروری ہیں مگر حکومت کے مؤقف کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا۔ کچھ زمینی حقائق بھی ہوتے ہیں۔ بالکل اندھیر نگری تو نہیں ہو سکتی۔ جو بھی فیصلہ تواوپروالے نے کرنا ہے ’’رُخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں۔ ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے‘‘۔ تاہم خود سپردگی کی پہل پیپلزپارٹی نے کی تھی۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی