گھیر لیتے ہیں مجھ کو سائے سے شام ہوتی ہے میری چائے سے خوبصورت وہ دن محبت کے کچھ اشارے سے کچھ کنائے سے یہ اشعار میں نے قصداً تمہید بنائے ہیں کہ مطلع بہت وائرل ہوا اور بے شمار کمنٹس اس پر آبشار ہوئے۔کچھ موسم بھی برسات کا ہے جسے پری مون سون کہا جا رہا ہے۔اصل میں احسن اقبال کے بیان نے یہ ساری رونق لگائی کہ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اگر ہم چائے کے ایک دو کپ روزانہ کی بنیاد پر کم کر دیں تو بہت فرق پڑے گا کہ چائے ہم درآمد کرتے ہیں۔پھر کیا ہوا ٹوٹ پڑے ان پر چائے پینے والے سب۔ بندہ پوچھے کہ آپ کو بیٹھے بٹھائے کیا پڑی تھی کہ سقراط کی طرح چائے کے خلاف رائے قائم کرنے لگے۔میں نے ان کو سقراط کچھ طنزاً نہیں لکھا لوگ انہیں اب سمجھتے ہیں جیسے کرکٹ میں محمد حفیظ کو پروفیسر سمجھتے ہیں۔اصل میں چائے لوگوں کے خون میں رچ بس گئی ہے گویا کہ زندگی کے معمولات میں سرفہرست ہے۔ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ کسی لڑکی نے اپنا بلڈ گروپ ’’ٹی پازیٹو‘‘ بتایا واقعتاً یہ مخلوق تو چائے پیتی بھی بڑے مگوں میں ہیں کہ وہ اس کو کھانے کی جگہ بھی دے دیتی ہے اس عمل سے جسم کتابی رہتا ہے۔اب احسن اقبال صاحب فرما رہے تھے میں نے چائے چھوڑنے کا مشورہ دیا تو سب میرے پیچھے پڑ گئے کوئی پوچھے کہ آپ کو کس نے یہ فضول مشورہ دیا تھا کہ لوگوں کی محبوب شے کے بارے میں اظہار امتناع کریں۔ مجھے آج توصیف خان صاحب یاد آئے کہ وہ تو چائے کے ساتھ سگریٹ کے بھی رسیا تھے جن دنوں انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ کارڈیالوجی جا پہنچے ڈاکٹر نے پوچھا کیا آپ سگریٹ پیتے ہیں فرمایا نہیں ڈاکٹر نے پلٹ کر کہا کبھی پیتے تھے۔بولے ہاں ڈاکٹر نے پھر پوچھا سگریٹ چھوڑے کب؟ توصیف خان صاحب بولے صبح آٹھ بجے، پھر کہنے لگے کہ یار پینتیس سال کی رفاقت تھی۔ جن کی صبح بھی چائے سے ہوتی ہو اور شام بھی وہ احسن اقبال کو چائے کی بے عزتی کیونکر کرنے دیں گے: بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے آپ لوگ یہ تو جانتے ہونگے کہ جب برصغیر میں چائے متعارف کروائی گئی تو یہاں کے لوگوںکو یعنی سب چھوٹوں کو بڑوں کو چائے مفت پلائی جاتی تھی یوں کہہ لیں کہ انگریزوں نے برصغیر کے لوگوں کو باقاعدہ چائے لگائی، جیسے کہ افیون لگائی جاتی ہے۔ یہ کاروبار بنتی گئی خیر ہمارا تو چائے سے یوں بھی واسطہ رہا کہ ہمارے شب و روز ہی ٹی ہائوس میں گزرتے تھے ہم سے پہلے تو مال روڈ اور گردونواح میں بھی چائے خانے تھے ۔ ٹی ہائوس تو آج بھی مرکز ہے مگر وہ دور نہیں کہ ہمارے ساتھ بھی شوکت واسطی جیسا ہوا کہ: شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا ہم رہ گئے ہمارا زمانہ نہیں رہا واقعتاً سرشام ہم ٹی ہائوس پہنچ جاتے انتظار حسین سے لے کر اسرار زیدی درجنوں نام اور چہرے یاد آتے ہیں کہ مختلف میزوں پر چائے چل رہی ہوتی۔گرم گرم چائے سے اٹھتی ہوئی بھاپ، ادب سے لے کر فلسفے کی باتیں چائے کے بغیر بیٹھ کر گفتگو کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کچھ شاعر اور ادیب ہر آنے والے کے ساتھ چائے پیتے جاتے۔یہ اب کی بات نہیں آپ ابوالکلام آزاد کی غبار خاطر پڑھ لیں کہ وہ چائے کے خوشگوار تذکرہ سے بھری پڑی ہے۔وہ تو چائے بھی غالباً چین سے منگواتے تھے۔اس کو بنانے کا بھی خاص اہتمام کرتے۔پھر گرم گرم گھونٹ گھونٹ اپنے اندر انڈیلتے جاتے، ایسی تخلیقی نثر لکھتے کہ بس درمیان میں شعروں کو تڑکہ تحریر کو دو آنشہ کرتا جاتا۔ چائے کے لئے وہ مئے شب دوشینہ کی اصطلاح بھی لکھتے۔ چائے پینے والے تو اس کے نخرے بی اٹھاتے ہیں۔بڑے اہتمام سے چائے کا رنگ نکالتے ہیں پھر اس پر دودھ برائے نام ڈالتے، کبھی لکھتے ہیں کہ دودھ بقدر اشک بلبل اور کبھی کہتے ہیں کہ قہوے کو صرف دودھ دکھا دیجیے۔ گویا یہ لوگ چائے کو بوجھل نہیں کرتے۔چینی بھی کم ڈالتے ہیں مگر ہمارے ماموں نثار تو چائے چینی کے لئے پیتے ہیں بتاتے ہیں کہ کسی جگہ مہمان تھے۔کپ میں تین چمچ چینی ڈالی تو چینی ختم ہو گئی پھر کہنے لگے میں نے مزید چینی مانگنا مناسب نہ سمجھی اور چائے پھیکی ہی پی لی۔چائے نے سچ مچ ہمارا کلچر بدل کر رکھ دیا ہے کہ اس نے اصل میں لسی کی جگہ لی ہے۔ لسی پی کر جو مزیدار نیند آتی ہے اس سے ہم محروم ہو گئے۔اور دوسری طرف چائے تو پہلی نیند بھی اڑا دیتی ہے۔چاق و چوبند رکھتی ہے جو عادی ہیں نہ ملنے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ چائے سستی دور کرتی ہے تھکاوٹ ختم کرتی ہے اور انسان کو فعال کر دیتی ہے گویا یہ محرک ہے۔ کہتے ہیں کہ کھانے کے بعد نہیں پینی چاہیے کہ تیس فیصد کھانا ہضم ہونے سے رہ جاتا ہے۔ کافی پیئیں تو ستر فیصد کھانا ہضم نہیں ہوتا مگر کریں کیا کہ کھانے کے بعد ہی تو چائے اچھی لگتی ہے گویا اس کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اچانک مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک ظالم ٹھیکیدار اپنے مستریوں اور مزدوروں کو دوپہر کے وقت مفت چائے پلاتا اور ظلم یہ کرتا کہ اس میں ڈسپرین شامل کر دیتا کہ اس سے مزدور جم کر کام کریں۔ یہ سراسر انسانی استحصال تھا کہ رات کو محنت کرنے والا جسم ٹوٹ پھوٹ جاتا ہو گا۔ ویسے چائے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں تین خوبیاں ہیں لب سوز لب دوز اور لب ریز یعنی ہونٹوں کو جلانے والی۔ہونٹوں کو جوڑنے والی یعنی بہت میٹھی اور پھر لبا لب بھری ہوئی ہو۔میں تو خود اس آدمی کو فضول آدمی سمجھتا ہوں جو چائے ٹھنڈی اور بوتل گرم پیتے ہیں احسن اقبال نے شاید چائے کے خلاف اس لئے بات کی کہ یہ مودی کو مرغوب ہے اور وہ خود بھی اس کاروبار میں تھا۔ ہمارے ہاں بھی ایک چائے والے کو سیلبرٹی بنا دیا گیا ہے ہم تو سبز چائے کے بھی رسا ہیں۔ وہی پستہ بادام والی شہزاد حسین نے کہا تھا: اس سے پوچھو کہ چائے چھوڑو گے گر کہے ہاں تو اٹھ کے آ جانا ٭٭٭٭٭